اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
اچھے میاں کی اچھی باتیں
دُعائے عطار: یارَبَّ المصطفٰے!جوکوئی 17صفحات کا رسالہ ” اچّھے میاں کی اچّھی باتیں “پڑھ یا سُن لے، اُس کو اپنے بندے اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ کے صدقے اچھا انسان بنا اور اُسے بے حساب بخش دے ۔اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰله وسلّم
بخارا (ازبکستان) کا رہنے والا ایک شخص مارہرہ (ما۔رِہْ،رَہْ)شریف حاضر ہوا اور نمازِ ظہر خانقاہ شریف میں پڑھ کر سلسلہ ٔ قادریہ رضویہ عطّاریہ کےعظیم بُزرگ شمسِ مارہرہ حضرتِ سیِّدُنا ابُوالفضل آلِ احمد المعروف ”اچھے میاں “ رحمۃُ اللہِ علیہ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا: ”حضرت کا نام سُن کر طلبِ حق کے واسطے یہاں آیا ہوں کیونکہ مجھ میں مُجاہَد ہ کرنے کی طاقت نہیں ہے حضور کی توجّہ سے بے محنت اِس عظیم فیض سے مشرّف ہونا چا ہتا ہوں۔“ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے مُسکراتے ہوئے اِرشادفرمایا:اتنی بڑی دولت اِس قدر جلدی چاہتے ہو ؟ حاضرین میں سے ایک شخص نے کہاکہ یہ بھی کوئی حَلوہ ہے، جو تمہارے منہ میں رکھ دیا جائے ؟ حضرت نے فرمایا: ”ایسا نہ کہو ، خدا (کی رحمت) سے کیا بعید ہے ۔ “ پھر اُس نوجوان کو ایک دُر ود شریف مخصوص طریقے سے آج رات پڑھنے کا فرمایا۔ اُس نے حکم کی تعمیل کی۔ رات دُرودشریف پڑھتے ہوئےوہ اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی،مکی مَدَنی،محمدِ عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زیارت سے مشرّف ہوا۔اُس پر ایک کیفیت طاری ہوئی جس سےاُس کا باطِنی مُعاملہ حل ہوگیا۔ صبح وہ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی خدمتِ بابرکت میں آ کر عرض کرنے لگا ۔ سبحانَ اللہ !حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے خواب میں ارشاد فرمایا:ہر صدی (یعنی سوسال)کے بعد میری اُمّت میں ایک ایسا شخص ہوگا جو میرے دین کو زندہ کرے گا اِس صدی میں وہ ’’ذات ‘‘آپ کی ہے ۔
(تذکرہ مشائخ ِ قادریہ رضویہ، ص 362 بتغیر)
اللہ ربُّ العزّت کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰله وسلّم
دِل کو اچھا تن کو ستھرا جان کو پُر نور کر اچھے پیارے شمس دِیں بدر العلیٰ کے واسطے
الفاظ معانی: تَن : جسم۔ شمسِ دیں:دین کا سورج۔ بدرُ العلیٰ: بلندیوں کا چاند۔
شرحِ شجرہ شریف:یا اللہ پاک !تجھے حضرت سَیِّد شاہ آلِ اَحمد اچھے میاں مارِہروی رحمۃُ اللہِ علیہ کا واسطہ جو دینِ ِا سلام کے سورج اور بلندیوں کے چاندہیں، میرے دِل کو اچھا، جسم کو ستھرا اور میری رُوح کو پُرنور کردے ۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰله وسلّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
سلسلہ ٔ قادریہ رضویہ عطّاریہ کےعظیم بُزرگ شمسِ مارِہرہ حضرتِ ابُو الفضل آلِ احمد المعروف اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ 28 رمضانُ المبارک 1160 ہجری کو مارِہرہ مطہرہ (ضلع ایٹہ یوپی) ہندمیں پیدا ہوئے۔آپ کا خاندان مبارک حسینی زیدی ساداتِ کرام سے ہے۔ (احوال و آثار شاہ آلِ احمد اچھے میاں مارہروی، ص 19 بتغیر)
آپ کی وِلادت شریف کےوقت دادی جان نے صاحبُ البَرَکات حضرت شاہ برکتُ اللہ عشقی مارِہروی رحمۃُ اللہِ علیہ کا وہ خرقۂ مبارک(یعنی لباس شریف)جو شہنشاہِ بغداد حضورِ غوث پاک حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ کے اشارے پراُن کے پاس حضور اچھے میاں کو پہنانے کےلئے امانتاً رکھا تھا گلے میں ڈالااور صاحبُ البَرَکات رحمۃُ اللہِ علیہ کے فرمان کے مطابق آپ کا نام’’ آلِ احمد ‘‘رکھا۔ دادی صاحبہ اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ یہ بچہ ہمارے خاندان کے لیے باعثِ فخر ہوگا۔حضرتِ آلِ احمد اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ مادر زاد(یعنی پیدائشی) ولی تھے اور جس طرح حضورغوثُ الْاَعظم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مظہر تھے اِسی طرح آپ غوثِ پاک کےمظہر تھے۔ (برکاتِ مارہرہ، ص 71بتغیر) میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ عرض کرتے ہیں:
یا ابوالفضل آلِ احمد حضرتِ اچھے میاں شاہ شمس الدّیں ضِیاءُ الْاَصْفِیا امداد کُن
ترجمہ: اے حضرتِ ابوالفضل آلِ احمد اچھے میاں! بادشاہ، دین کے سورج اور صوفیوں کی ضیا ! میری مدد فرمائیے۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
سلطانُ العاشقین سیدشاه برکت اللہ رحمۃُ اللہِ علیہ نے ارشادفرمایا تھا:اللہ پاک کے فضل سے مجھےایک لڑ کا عنایت ہوگا جس سے خاندان کی رونق دو بالا ہوگی ۔پھر آپ نے اپنا ایک خِرقہ(یعنی لباس شریف) عنایت فرماتے ہوئے حکم دیاکہ یہ اُس صاحبزادے کے لئے ہے ۔ حضور صاحبُ البرکات رحمۃُ اللہِ علیہ کے بڑے صاحبزادے حضرت شاہ آل ِمحمد رحمۃُ اللہِ علیہ نے حضرت اچھے میاں رحمۃ اللہ علیہ کی رسمِ بسم اللہ شریف کے موقع پر آپ کوگود میں لے کر فرمایا:یہ وہی شہزادے ہیں جن کی خوشخبری والدِ محترم نے دی تھی۔
(تذکرہ مشائخ ِ قادریہ رضویہ ، ص 358 بتغیر)
شمس و قمر سے بڑھ کر ہے شانِ آلِ احمد قربان آل احمد قربانِ آلِ احمد
آپ نے ظاہری و باطنی علوم اپنے والدِ ماجد حضرتِ شاہ حمزہ عینی رحمۃُ اللہِ علیہ سے حاصل کئےاور والدِ محترم سےخلافت بھی حاصل ہوئی ۔آپ کی روحانی تعلیم وتَربِیَت براہِ راست بارگاہِ غوثیت سے ہوئی،اِس لئے کہا جاسکتاہے کہ آپ کے روحانی اُستاذ حضورِغوث اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ تھے ۔ (تذکرہ مشائخ مارہرہ، ص 18)آپ سلسلہ ٔ قادریہ رضویہ عطاریہ کے 36 ویں پیر و مُرشدہیں۔آپ بڑے باکمال اور عارِف باللہ یعنی اللہ پاک کی پہچان رکھنے والے بزرگ تھے۔
حضرتِ آلِ احمد اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ کے بھتیجے سیِّد شاہ غلام محیُ الدّین صاحب اپنے بچپن کا ایک واقعہ لکھتے ہیں :ایک مرتبہ حضرت اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ سجادہ نشینی کے مکان میں اکیلےتھےاوراندر کسی کو جانے کی اجازت نہ تھی ۔ دروازے پر ایک خادم بیٹھا تھا۔ میں کھیلتا ہوا دروازے تک گیا اور اندر جانا چاہا۔خادم نے روکامگرمیں جلدی سے اندر داخل ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت دو بزرگوں سے بیٹھے کچھ باتیں کر رہے تھے، میں آہستہ آہستہ جا کر پیچھے سے پشت مبارک کو لپٹ گیا، حضرت نے اپنا چہر ہ مبارک پھیر کے مجھے دیکھ کر کچھ ناراضی سےفرمایا: کیوں آئے ؟ میں نے(بھولپن میں) عرض کیا:آپ کے کندھوں پر چڑھوں گا۔ یہ سن کر آپ اور وہ دونوں بزرگ مسکرانے لگے پھر اُن دونوں بزرگوں نے میرے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا اور پیار کیا۔اِس کے بعد آپ اُن بزرگ کے ساتھ اندرتشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد حضرت اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ اکیلے باہر تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: وہ دونوں حضرات کون تھے اوروہ کہاں گئے؟ آپ نے فرمایا کہ ایک حضورِ غوث پاک اور دوسرے سیِّد شاہ جلال صاحب مارہروی رحمۃُ اللہِ علیہما تھے، یہ حضرات کبھی کبھی نظرِ کرم فرما کر تشریف لے آتے ہیں اوراَب وہ تشریف لے گئے۔
(برکاتِ مارہرہ، ص 71بتغیر)
خداوند برائے آلِ احمد نصیبم کن لقائے آلِ احمد
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرت سیِّد شاہ آل ِاحمد اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ والدِ محترم کے انتقال شریف کے بعد خاندانی دستور (یعنی طریقے)کے مطابق سلسلہ ٔ برکاتیہ کی مسند پر تشریف فرما ہوئے اور تقریباً 37 سال وصال شریف تک اِسے رونق بخشی ۔(احوال و آثار شاہ آلِ احمد اچھے میاں مارہروی ، ص27 بتغیر)
حضرت سیِّد شاہ آل ِاحمد اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ اپنےوقت کے غوث تھے۔آپ کے شب وروزکے معمولات ایسے تھے جیسے حضورِ غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ کے ایک کامِل مظہر کے ہونے چاہئے۔آپ کا دِن اللہ پاک کی مخلوق کی خدمت و خیرخواہی اورمُرِیدِین کی اِصلاح و رہنمائی میں گزرتا اوررات بارگاہِ الٰہی میں عبادت میں گزرتی۔آپ کے مُرید حضرت مولانا مجاہد ُالدّین ذاکِربدایونی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتےہیں: آ پ رات کے آخری حصے میں اُٹھ کر وضو فرما کر نماز ِتہجد ادا فرماتے پھر فجر کا وقت شروع ہونے تک اَوراد و وَظائف میں مصروف رہتے اورپھرمسجد میں تشریف لاکر تحیۃُ المسجد ادافرماکرسنتِ فجر پڑھ لیتے۔نمازِ فجر باجماعت ادا کرنے کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دین کی ترقی اورمسلمانوں کی مغفرت کی دُعا فرماتے پھرخانقاہ شریف میں تشریف لاکر دن چڑھنے تک اَوراد و وظائف میں مصروف رہتےاُس وقت دروازہ بندہوتا اورکسی کو اندرآنے کی اجاز ت نہ ہوتی۔ فارغ ہوکر گھر تشریف لاکر سب کی خیریت معلوم کرکے دوبارہ خانقاہ تشریف لے آتے۔پھریہاں سے درگاہِ مُعلیّٰ روانہ ہوتے، ایک خادم پہلے سےمعمول کی جگہ جائے نماز قبلہ رُخ بچھا دیتا۔ آپ پہلے والدِ محترم پھر والدۂ محترمہ اوردیگر عزیزوں کےمزارات پر فاتحہ خوانی فرماتے۔ (تذکرہ شمسِ مطہرہ،ص 19بتغیر)
کبھی کبھی باغ میں تشریف لے جاتے اور جامن کے درخت کے نیچے دَرِی بچھا کر بیٹھ جاتے پھروہاں سے خانقاہ تشریف لاتے،اس وقت عام دربار ہوتا، ہر ایک اپنی ضروریات عرض کرتا ،دوپہر کے وقت کھانے میں گندم کی دو یا تین ہلکی چپاتیاں شوربہ یا مُونگ کی دال کے ساتھ کھاکرقیلولہ شریف فرماتے۔(تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ ، ص360)
باجماعت نمازِ ظہر ادافرماکرتلاوتِ قرآن میں مشغول ہوجاتے پھر خانقاہ شریف میں آکردُرودِ پاک پڑھتے رہتے،نماز ِ عصر کے بعد دوبارہ خانقاہ شریف میں آ کرنمازِ مغرب کے بعد تسبیح پڑھتے اورپھر عام دربارلگتا ۔لوگوں کی معروضا ت سن کر اُن کی تسلی و تشفّی فرماکر گھر تشریف لاتے ۔اذانِ عشا کے وقت مسجد میں باجماعت نما ز ادا فرماکرپھر خانقاہ تشریف لاتے اوردروازہ بند ہوجاتا۔اُس وقت خانقاہ میں مخصوص افراد کو حاضری کی اجازت ملتی۔(تذکرہ شمسِ مطہرہ، ص 20)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!چاہےجتنی بھی مصروفیات ہوں انفرادی عبادت کا اہتمام کرناچاہئے۔ابھی سلسلۂ قادریہ کےپیارے پیارے پیرو مرشد حضرت سیدآلِ احمد اچھے میاں رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک معمولات شریف بیان ہوئے۔ آپ بھی اس کے مطابق کچھ نہ کچھ تلاوتِ قرآنِ کریم اوردرود پاک پڑھنے کی عادت بنائیے۔امیراہل سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطارقادری دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ روزانہ کم از کم ایک پارے کی تلاوت کی ترغیب ارشادفرماتے ہوئے اپنے سلسلہ ٔ قادریہ رضویہ عطّاریہ کے مریدین و طالبین کو فرماتے ہیں:تلاوتِ قرآنِ عظیم کم از کم ایک پارہ ۔حتی الامکان طلوع شَمس سے پہلے ہواور اگر آفتاب نکل آئے تو کم از کم بیس (20)منٹ تک ٹھہر جایئے اور ذکر و درود شریف میں مشغول رہئے یہاں تک کہ آفتاب بلندہوجائے کہ جن تین وقتوں میں نماز ناجائز ہے تلاوت خلافِ اَولیٰ ہے۔(شجرہ شریف،صفحہ22)
امیرِاہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نیک بنانے والے ’’72نیک اعمال‘‘ کے رسالے صفحہ 2 پرلکھتے ہیں:کیا آج آپ نے کم از کم 313مرتبہ دُرود شریف پڑھا۔کثرت کے ساتھ دُرود پڑھنے کے حوالے سےکتابوں میں مختلف اقوال بیان کئے گئے ہیں،ایک محتاط قول 313 کا بھی ہے۔(سعادة الدارین،ص54 ) لہٰذا اگر کوئی روزانہ کم ازکم 313مرتبہ درود پاک پڑھنے کامعمول بنالے تو وہ کثرت سے درود پاک پڑھنے والوں میں شمار ہوگا۔اللہ پاک ! ہمیں اچھے میاں رحمۃُ اللہِ علیہ کی تلاوت و درود خوانی کے صدقے فضول گفتگو سے بچ کر کثرت ِ تلاوت ودُرودکرنے کی توفیق عطافرمائے۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰله وسلّم