30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت حضرت علاّمہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری رَضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے رسالے ’’ تلاوت کی فضیلت ‘‘ میں بحوالہ جَامِعُ الصَّغِیر دُرودِ پاک پڑھنے کی فضیلت ذکر فرماتے ہیں : دوجہاں کے سلطان، سرورِ ذیشان، محبوبِ رحمن صَلَّی اللہُ تَعالٰی عَلیہ واٰلہٖ و سلَّمکا فرمانِ مغفرت نشان ہے، ’’ مجھ پر درودِ پاک پڑھنا پُل صِراط پرنور ہے۔جو روزِ جمعہ مجھ پراَسّی بار درودِ پاک پڑھے اس کے اَسّی سال کے گناہ معاف ہو جائیں گے ‘‘ ۔ (اَلجامِعُ الصَّغِیرلِلسُّیُوطِی ص، ۳۲۰، الحدیث :۵۱۹۱)
صَلُّوْاعَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہُ تعالیٰ عَلیٰ مُحمَّد
تحصیل شجاع آباد (ضلع ملتان شریف ، پنجاب، پاکستان) کے مقیم اسلامی بھائی نے اپنی داستانِ عشرت کے خاتمے کے احوال کچھ یوں بیان فرمائے کہ مدنی ماحول سے وابستہ ہونے سے پہلے میں گناہوں کی پُرْ خَارْ وادیوں میں بھٹکتا پھر رہا تھا۔ فلمیں ڈرامے دیکھنا، گانے باجے سننا، نمازیں قضا کر دینا تو میرا روز کا معمول تھا۔ بدکاری کے اڈّوں پرجانا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ناجائز اسلحے کی خرید و فروخت، چرس، ہیروئن، شراب کا صرف دھندا ہی نہیں کرتا تھا بلکہ مختلف منشیات کا عادی بھی تھا۔ اب تو ان گناہوں کے تصوّر سے بھی جسم کانپ اٹھتا ہے۔ شاید میں انہی بے حیائیوں میں مبتلا ہو کر خوابِ غفلت میں سویا رہتا اور اسی حالت میں موت کے گھاٹ اُتر کر جہنم میں جا گرتا مگر میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے بچا لیا اور مجھے دعوتِ اسلامی کے پاکیزہ مُشکبار مَدَنی ماحول سے وابستہ ہونے کی سعادت مل گئی۔ہوا یوں کہ ایک روز میرے ضمیر نے مجھے ملامت کی کہ تُوکیوں اپنے ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانیوں میں اپنا وقت برباد کرتا رہتا ہے؟ اس بے نیاز کی بارگاہ میں بھی تو حاضری دینی ہے کچھ تو خیال کر! اس کے بعد میں نے درودِ پاک کا ورد کرنا شروع کر دیا۔اس بات کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ایک رات خواب میں ایک پُر کیف منظر دیکھا کہ ایک باغیچے میں ایک نورانی چہرے والے بزرگ جلوہ فرما ہیں جن کی مہندی لگی سرخ داڑھی تھی اور سر پر سبز عمامے کا تاج نور برسارہا تھا۔ ان کے سامنے تقریباً 150 اسلامی بھائی سبز عمامے سجائے حلقے کی صورت میں موجود تھے۔میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔یہ ’’ نورانی چہرے والے بزرگ ‘‘ سب سے باری باری سُورۃُ التَّکاثُر سن رہے تھے۔وہ میری طرف متوجِہ ہوئے اور استفسار فرمایا :کیا آپ کو یہ سورۃ یاد ہے؟ میرے نفی میں جواب دینے پر انہوں نے مجھے قریب بلایا اور سورۃ یاد کروانے لگے۔اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ میں پریشان تھا کہ یہ بزرگ کون ہیں ؟ کیوں کہ اس سے پہلے میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا تھا۔اس خواب کے کچھ ہی دنوں بعد ایک سبز عمامے والے اسلامی بھائی مجھے سرِراہ نظر آئے تو میں نے آگے بڑھ کر ان سے ملاقات کی اور اپنا خواب بیان کیا۔ان نورانی چہرے والے بزرگ کا حُلیہ سن کر وہ اسلامی بھائی بے ساختہ پکار اٹھے کہ ہو نہ ہو یہ تو امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العَالِیَہ ہی ہیں ، پھر انہوں نے انفرادی کوشش کرتے ہوئے مجھے سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کا ذہن دیا۔میں نے مختلف حیلے بہانے سنا کر معذِرَت کر لی۔اس واقعہ کے بعد وہ اسلامی بھائی وقتاًفوقتاً مجھے ملتے اور دعوتِ اسلامی کی مدنی بہاریں سناتے رہتے۔مختلف تحائف پیش کرتے کبھی امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العَالِیَہ کا رسالہ، کبھی عطر توکبھی مسواک۔اس طرح میں ان کے ساتھ کبھی کبھار اجتماع میں شرکت تو کرنے لگا مگرمجھ میں کوئی خاص تبدیلی نہ آئی۔۱۴۲۹ھ بمطابق 2008 ء کے رمضان المبارک کی آمد کیا ہوئی میری تو قسمت ہی سنور گئی۔ان اسلامی بھائی نے مجھے دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے اجتماعی اعتکاف
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع