30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی خلافت راشدہ پر مشتمل مدنی پھولوں سے معمور ایک جامع،مدلل و تخریج شدہ کتاب فیضانِ فاروقِ اعظم (جلد دوم، خلافت کے سنہرے دور کا مکمل بیان) پیش کش مجلس المدینۃ العلمیۃ (دعوتِ اسلامی) شعبۂ فیضانِ صحابہ واَھل بیت ناشر مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِفیضانِ فاروقِ اعظم کے چودہ حروف کی نسبت سے اس کتاب کو پڑھنے کی نِیّتیں
فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم: نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ مسلمان کی نیّت اُس کے عمل سے بہتر ہے۔ (معجم کبیر ، یحیٰی بن قیس، ج۶، ص۱۸۵، حدیث: ۵۹۴۲) دو مدنی پھول: ٭…بغیر اچھی نیّت کے کسی بھی عمل خیر کا ثواب نہیں ملتا۔ ٭…جتنی اچھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔ (1)ہر بارحَمد و (2)صلوٰۃ اور (3)تعوُّذ و (4)تَسمِیہ سے آغاز کروں گا۔ (اسی صفحہ پر اُوپر دی ہوئی عَرَبی عبارت پڑھ لینے سے ان نیّتوں پر عمل ہوجائے گا) (5)رِضائے الٰہی کیلئے اس کتاب کا اوّل تا آخر مطالعہ کروں گا۔ (6)حتَّی الوَسْعْ اِس کا باوُضُو اور (7)قِبلہ رُو مطالَعَہ کروں گا (8)قرآنی آیات اور (9)احادیثِ مبارکہ کی زیارت کروں گا (10)جہاں جہاں ”اللہ“ کا نامِ پاک آئے گا وہاں عَزَّوَجَلَّ (11) اور جہاں جہاں ”سرکار“ کا اِسْم مبارک آئے گا وہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپڑھوں گا (12)اس حدیثِ پاک تَھَادَوا تَحَابُّوا ایک دوسرے کو تحفہ دو آپس میں محبت بڑھے گی۔ (مؤطا امام مالک، الحدیث: ۱۷۳۱، ج۲، ص۴۰۷) پر عمل کی نیت سے (ایک یا حسبِ توفیق) یہ کتاب خرید کر دوسروں کو تحفۃً دوں گا (13)دوسروں کو یہ کتاب پڑھنے کی ترغیب دلاؤں گا۔(14) کتابت وغیرہ میں شرعی غلطی ملی تو ناشرین کو تحریری طورپر مطلع کروں گا۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ (ناشرین کو کتابوں کی اَغلاط صرف زبانی بتا دینا خاص مفید نہیں ہوتا)۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَاَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم المدینۃ العلمیۃ از شیخ طریقت، امیر اہلسنّت ،بانی دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَا نِہٖ وَ بِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تبلیغ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘ نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اشاعتِ علمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے، اِن تمام اُمور کو بحسنِ خوبی سر انجام دینے کے لئے متعدد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک ’’المدینۃ العلمیۃ‘‘بھی ہے جو دعوتِ اسلامی کے عُلما و مُفتیانِ کرام کَثَّرھُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی پر مشتمل ہے، جس نے خالص علمی، تحقیقی او راشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اِس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں : (۱)شعبۂ کتُبِ اعلی حضرت (۲)شعبۂ درسی کُتُب (۳)شعبۂ اصلاحی کُتُب (۴)شعبۂ تراجمِ کتب (۵)شعبۂ تفتیشِ کُتُب (۶)شعبۂ تخریج ’’المدینۃ العلمیۃ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلی حضرت اِمامِ اَہلسنّت،عظیم البَرَکت، عظیم المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامی سنّت، ماحی بِدعت، عالم شریعت، پیرطریقت، باعثِ خیر و بَرَکت، حضرتِ علامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسْعْ سَہْل اُسلُوب میں پیش کرنا ہے۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی، تحقیقی اور اِشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اور مجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِس کی ترغیب دلائیں ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بَشُمُول ’’المدینۃ العلمیۃ‘‘کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اِخلاص سے آراستہ فرما کر دونوں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے۔ ہمیں زیرِ گنبدِخضراء شہادت، جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم رمضان المبارک۱۴۲۵ھ ’’فیضانِ فاروقِ اعظم ‘‘کے بارے میں ۔۔۔ میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی مجلس ’’المدینۃ العلمیۃ‘‘ کے شعبے ’’فیضانِ صحابہ واہل بیت‘‘ نے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی سیرت طیبہ پر کام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اَوّلاً ’’عشرہ مبشرہ‘‘ کی سیرت پر کام شروع کیا گیا۔عشرہ مبشرہ میں سے چاروں خلفائے راشدین کے علاوہ بقیہ چھ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی سیرت طیبہ پرکام کی تکمیل کے بعد خلیفۂ اوّل، یارِ غار، امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی سیرت طیبہ بنام’’فیضانِ صدیق اکبر‘‘ پر کام کرنے کی سعی کی اور کم وبیش چھ ماہ کے قلیل عرصے میں اِس مبارک کتاب کی تکمیل ہوگئی۔ بِحَمْدِاللہ تَعَالٰیاِس کتاب کو توقعات سے بڑھ کر پذیرائی ملی، مختلف اسلامی بھائیوں ، مبلغین و واعظین، ائمہ ومؤذنین، خطباء وپروفیسر حضرات، علمائے کرام و مفتیان عظام کی طرف سے کثیر مکتوب (خطوط)موصول ہوئے جن میں اس کتاب کے مواد، ترتیب، تخریج، وطباعت وغیرہ مختلف اُمور کو سراہا گیا۔ نیز کئی لوگوں کی طرف سے سلسلہ ’’فیضانِ عشرہ مبشرہ‘‘ کی آئندہ آنے والی کتاب ’’فیضانِ فاروقِ اعظم‘‘ کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ واضح رہے کہ کسی شے کے مطالبے کے بعد اُس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’فیضانِ فاروقِ اعظم‘‘ پر فی الفور کام شروع کردیا گیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ’’المدینۃ العلمیۃ‘‘ عالمی معیار کی ایک علمی وتحقیقی مجلس ہے، اس کی مختلف کتب دنیا بھر میں عام ہورہی ہیں ، اس کے کام کرنے کاعلمی وتحقیقی انداز علمائے اہلسنت کی کتب کو چار چاند لگا دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام وخواص بے شمار لوگ اِس کی مطبوعہ کتب پر اعتماد کرتے ہیں ۔مؤلفین ومصنفین اِس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کسی بھی ایسے موضوع پر کتاب لکھنا یا مرتب کرنا جس پر پہلے ہی سے کئی کتب لکھی جاچکی ہوں ایک مشکل کام ہے۔ لیکن پہلے سے لکھی گئی کتابوں کی خوبیوں اور دیگر تمام اُمور کو سامنے رکھتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اُسی موضوع پر ایک نئی کتاب ، علمی وتحقیقی طرز پر مرتب کی جائے تو اُس کی افادیت بڑھ جاتی ہے۔ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی سیرت طیبہ بنام’’فیضانِ فاروقِ اعظم‘‘ پر اِسی انداز میں کام کرنے کی سعی کی گئی اور کم وبیش بارہ ماہ کے قلیل عرصے میں دو جلدوں پر مشتمل یہ ضخیم کتاب مکمل کی گئی۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ اِس کتاب پر شعبہ ’’فیضانِ صحابہ واہل بیت‘‘ (المدینۃ العلمیۃ)کے تین اِسلامی بھائیوں ابوفرازمحمداعجاز عطاری المدنی، ناصرجمال عطاری المدنی اور ولی محمد عطاری المدنی سَلَّمَہُمُ اللّٰہُ الْغَنِی نے کام کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔اِس کتاب پر اَوّل تا آخر کم وبیش ۱۲ مختلف مراحل میں کام کیا گیا ہے جو اِس کتاب کی خصوصیات میں شمار کیے جاسکتے ہیں ، تفصیل کچھ یوں ہے: #**(1)...مواد جمع کرنے کا مرحلہ
**# تالیف وتصنیف دونوں کے لیے اَوّلاً مواد کی موجودگی بہت ضروری ہے، جب تک مواد موجود نہ ہو کسی بھی کتاب کو مرتب نہیں کیا جاسکتا۔ ’’فیضانِ فاروقِ اعظم ‘‘کے مواد کے حوالے سے درج ذیل اُمور کو پیش نظر رکھا گیا: ٭…عربی، اُردو اور فارسی تینوں طرح کی مختلف کتب کے علاوہ خاص ’’سیرت فاروق اعظم‘‘پر لکھی گئی مشہور ومعروف کتب کو بھی سامنے رکھا گیا ہے نیز بعض کتب کی عدم دستیابی کے سبب اُن کے مطبوعہ کمپیوٹر نسخے انٹرنیٹ سے بھی ڈاؤن لوڈ کیے گئے ہیں ۔ ٭…’’المدینۃ العلمیۃ‘‘کی کتب سے مواد کے لیے مجلس المدینۃ العلمیہ اور مجلس آئی ٹی کی مشترکہ پیش کش ’’المدینہ لائبریری‘‘ سافٹ ویئر سے مدد لی گئی ہے۔ ٭…عربی مواد کے لیے مختلف مطبوعہ عربی کتب کے علاوہ عربی کتب کے کمپیوٹر سافٹ ویئرز سے بھی مدد لی گئی ہے۔ ٭…سیرت فاروقِ اعظم کے حوالے سے مشہورومعروف مگر مستند واقعات کو لیا گیا ہے۔ ٭…جس مقام سے مواد لیا گیا فقط اُسی مقام پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اُس مواد کے اصلی ماخذ کتب احادیث، شروح حدیث، کتب تفاسیر، کتب سیر وتاریخ وفقہ وغیرہ تک پہنچنے کی حتی المقدور کوشش کی گئی ہے۔ ٭…جدید دور کے تقاضوں کے مطابق انٹرنیٹ کے ذریعے مختلف ویب سائٹ سے بھی مواد لیا گیا ہے۔ ٭…’’سیرت فاروقِ اعظم‘‘کے حوالے سے لکھے گئے مختلف مضامین (٭rticles)سے بھی مدد لی گئی ہے۔ ٭…مواد جمع کرتے وقت اِس بات کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے کہ موضوع ومن گھڑت روایات سے احتراز کیا جائے، نیز مواد جمع کرنے کے بعد تخریج کرتے وقت بھی اِس بات کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے۔ #**(2)...جمع شدہ مواد کی ترتیب واُسلوب
**# کسی بھی کتاب کی اہمیت اور اُس کے مصنف یا مؤلف کی تصنیفی یا تالیفی صلاحیت کا اندازہ اُس کتاب کی ترتیب واسلوب سے ہوتاہے کہ مصنف نے موضوع کے اعتبار سے مواد کو مرتب کیا ہے یا نہیں ؟ ’’فیضانِ فاروقِ اعظم ‘‘میں مواد کی ترتیب واسلوب کے حوالے سے درج ذیل اُمور کو پیش نظر رکھا گیا: ٭…اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ’’المدینۃ العلمیۃ‘‘ تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کا ایک علمی وتحقیقی شعبہ ہے، اِس کی کتابوں کو علمائے کرام، مفتیانِ عظام کے علاوہ چونکہ عام اِسلامی بھائی بھی کثرت سے پڑھتے ہیں اِسی لیے اِس کتاب کی ترتیب میں تحقیقی واِصلاحی دونوں اسالیب کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ٭…’’فیضانِ فاروقِ اعظم‘‘ کو مرتب کرتے ہوئے مشکل اور پیچیدہ الفاظ سے احتراز کرتے ہوئے عام فہم زبان استعمال کی گئی ہے۔البتہ جہاں ضرورتاً اصطلاحات یا مشکل الفاظ ذکر کیے گئے ہیں وہاں ہلالین ’’(…)‘‘ میں اُن کا ترجمہ یا تسہیل کردی گئی ہے۔ ٭…صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی سیرت طیبہ کو بیان کرنے کا معاملہ نہایت ہی حساس اور ایک تیز دھار والی تلوار پر چلنے کے مترادف ہے جس میں چھوٹی سی غلطی کسی بڑے نقصان کا سبب بھی بن سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ’’فیضانِ فاروقِ اعظم‘‘ سمیت علمیہ کی تمام کتب میں ادب واحترام سے بھرپور اِنتہائی محتاط زبان کا التزام کیا جاتا ہے۔ ٭…سیرت کو بیان کرنے کے کئی اسلوب ہیں : (۱)تاریخ کے اعتبار سے (۲)واقعات کے اعتبار سے (۳) حالات زندگی کے اعتبار سے (۴) اور مختلف ابواب بنا کر مکمل حیات کو بیان کرنا وغیرہ ۔’’فیضانِ فاروقِ اعظم‘‘ میں سیِّدُنا امام جلال الدین سیوطی شافعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کی مشہور کتاب ’’تاریخ الخلفاء‘‘ کا اسلوب یعنی ’’مختلف ابواب بنا کر مکمل حیات کو بیان کرنا‘‘ اختیار کیا گیا ہے۔ ٭…مواد کو مرتب کرتے ہوئے مختلف روایات وواقعات کے تحت اِصلاحی مدنی پھول بھی پیش کیے گئے ہیں ۔ ٭…جس روایت یا واقعے سے کوئی عقیدۂ اہلسنت ثابت ہوتا ہے تو اُس کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ ٭…بعض جگہ اختلافی اقوال کوبیان کرنے کے ساتھ ساتھ اُن میں مطابقت بھی ذکر کردی گئی ہے۔ ٭…مواد کو مرتب کرتے ہوئے اس بات کا خاص التزام کیا گیا ہے کہ کتاب علمی وتحقیقی مواد سے بھرپور ہو، فقط سرخیاں (He٭ding)لگانے پر اکتفاء نہیں کیا گیا۔ ٭… روایات وواقعات کو بیان کرتے ہوئے حتی المقدور اِس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ قاری(یعنی کتاب پڑھنے والے) کا ذوق وشوق برقرار رہے۔ ٭…انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور اولیائے عظام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کے اسمائے مبارکہ کے ساتھ دعائیہ کلمات کا التزام کیا گیا ہے۔ ٭…علمائے کرام، واعظین وخطباء حضرات کے لیے مختلف روایات وواقعات میں مخصوص جملوں کی عربی عبارت مع ترجمہ بھی ذکر کردی گئی ہے۔ ٭…اِس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ جو بات جس باب سے تعلق رکھتی ہے اُسی باب میں ذکر کی جائے۔ ٭…بعض جگہوں پر سیِّدُنا فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے منسوب غلط باتوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ ٭…اگر کسی روایت یا واقعہ کا تعلق چند ابواب سے ہے تو ایک باب میں اُسے تفصیلی بیان کرکے دیگر ابواب میں اجمالاً بیان کیا گیا ہے نیز بعض جگہ تفصیلی واقعے والے صفحے کی طرف اِشارہ بھی کردیا گیا ہے۔ ٭…کئی مقامات پر تحقیقی ووضاحتی، مفید اور ضروری حواشی بھی لگائے گئے ہیں ۔ ٭…راویوں کے اسماء اور دیگر کئی مشکل اَلفاظ پر اِعراب کا بھی التزام کیا گیا ہے نیز بعض پیچیدہ الفاظ کا تلفظ بھی بیان کردیا گیا ہے۔ ٭…روایات بیان کرنے میں احادیث کو ترجیح دی گئی ہے بصورت دیگر مستند کتب تاریخ کو اختیار کیا گیا ہے۔ ٭…مختلف ابواب کے شروع میں تمہیدی کلمات بھی ذکر کیے گئے ہیں تاکہ اُس باب کے تحت آنے والے اُمور کی اہمیت وافادیت قاری پر واضح ہوسکے۔ ٭…عوام میں مشہور ایسے واقعات یا اَقوال جو ہمیں کسی مستند کتاب میں نہیں ملے انہیں شامل نہیں کیا گیا۔ ٭…بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مخاطب کو کوئی بات زبانی کلامی سمجھ میں نہیں آتی لیکن اسی بات کو نقشہ بنا کر سمجھایا جائے تو فوراً سمجھ میں آجاتی ہے، نقشہ بنا کر بات کو سمجھانا خود حدیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیضانِ فاروق اعظم میں بعض مقامات پر اہم اُمور کی وضاحت کے لیے مختلف نقشے اور چند مقامات کی تصاویر بھی دی گئی ہیں ۔ ٭… سیِّدُنافاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی حیات طیبہ کے ہر ہر گوشے سے متعلق کئی کئی روایات اورواقعات ملتے ہیں لیکن ضخامت کے پیش نظر چیدہ چیدہ اہم روایات وواقعات کو ہی لیا گیا ہے۔(3)…عربی عبارات کا ترجمہ:
عربی یا فارسی وغیرہ کتب سے مواد لے کر اُسے بعینہ اُسی مفہوم پر اردو زبان میں ڈھالناایک بہت بڑا فن اور نہایت ہی مشکل امر ہے، مترجمین کے لیے اِس میں بہت احتیاط کی حاجت ہے کہ بسا اوقات ترجمہ کرتے ہوئے نفس مفہوم ہی تبدیل ہوجاتا ہے۔ ’’فیضانِ فاروقِ اعظم ‘‘میں عربی وفارسی عبارات کے ترجمے کے حوالے سے درج ذیل اُمور کو پیش نظر رکھا گیا: ٭…عربی وفارسی عبارات میں لفظی ترجمے کے بجائے مفہومی ترجمہ کیا گیا ہے۔ ٭…ترجمہ کرتے وقت اِس بات کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے کہ نفس مسئلہ میں کوئی تغیر واقع نہ ہو۔ ٭… روایات واحادیث کا ترجمہ کرتے ہوئے علمائے اہلسنت کے تراجم کو بھی سامنے رکھا گیا ہے۔ ٭…ترجمہ کرتے وقت شروح ولغات کی طرف بھی رجوع کیا گیا ہے۔ ٭…احادیث وروایات کے ترجمہ میں طویل سند بیان کرنے کے بجائے فقط آخری راوی کے ذکر پر اکتفاء کیا گیا ہےنیز بعض مقامات پر ایک ہی موضوع کی مختلف روایات کو بھی ضرورتاً بیان کیا گیا ہے۔ ٭…دورانِ ترجمہ مشکل مقامات پر ’’المدینۃ العلمیۃ‘‘ کے شعبہ ’’تراجم کتب‘‘ کے ماہر مترجمین مدنی علمائےکرام سے بھی مشاورت کی گئی ہے۔ #**(4)...عربی عبارات کا ترجمہ
**# عبارت کو غلطی سے محفوظ کرنے کے لیے اس کا تقابل کرنا (یعنی جس اصل کتاب سے وہ عبارت لی گئی ہے اس کے مطابق کرنا)بہت ضروری ہے، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ نقل در نقل ایک غلطی آگے منتقل ہوتی رہتی ہےلیکن جب اُس کے اَصل ماخذ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے تو وہاں وہ عبارت موجود ہی نہیں ہوتی یا منقولہ عبارت کے مطابق نہیں ہوتی۔ یہ غلطی عموماً تقابل نہ کرنے اور فقط ’’نقل‘‘ پر اعتماد کرنے سے واقع ہوتی ہے۔’’فیضانِ فاروقِ اعظم‘‘ میں عربی عبارات کے تقابل کے حوالے سے درج ذیل اُمور کو پیش نظر رکھا گیاہے: ٭…عربی کتب سے جوترجمہ کیا گیا ہے اُس کا اصل کتاب سے انتہائی احتیاط کے ساتھ تقابل کیا گیا ہے۔ ٭…اگر کسی عبارت کے ترجمے میں اُردو کتاب سے معاونت لی گئی ہے تو اُس کا اَصل عربی کتاب سے بھی بالاستیعاب تقابل کرلیا گیا ہے۔ ٭…عبارت ذکر کرنے کے بعد جس کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے اُسی کتاب سے تقابل کیا گیا ہے۔ ٭…قرآنی آیات اور اُن کے ترجمے کابھی اصل نسخے سے تقابل کرلیا گیا ہے۔ #**(5)...عربی عبارات کی تفتیش
**# کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے جہاں پوری دنیا میں ایک حیرت انگیز انقلاب آیاہے وہیں کتب کی طباعت میں بھی اُس نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ کمپیوٹر سے پہلے کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں جن میں وقت بہت لگتا تھا لیکن جیسے ہی کمپیوٹر آیا اس سے مصنفین وناشرین کو سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوا کہ قلیل وقت میں کثیر کتب کی طباعت ہونے لگی۔ لیکن واضح رہے کہ اِس کا ایک نقصان یہ بھی ظاہر ہوا کہ پروف ریڈنگ کی اَغلاط پہلے کی بہ نسبت اب زیادہ ہونے لگیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات مختلف کمپیوٹرائزڈ کتب کے جدید اور قدیم نسخوں کی عبارتوں میں بھی کافی فرق آجاتا ہے۔ اِس فرق کو واضح یا دور کرنے کے لیے قدیم نسخوں کی مدد سے عربی عبارات کی تفتیش کی جاتی ہے۔ ’’فیضانِ فاروقِ اعظم‘‘ میں بھی مواد کو ترتیب دیتے وقت کئی ایسی عبارتیں سامنے آئیں جن میں مختلف نسخوں کی وجہ سے اختلاف پایا گیا لہٰذا اُن عبارتوں کی روایت و درایت دونوں اعتبار سے قدیم نسخوں (مخطوطات) کی مدد سے تفتیش کی گئی اور پھر مشاورت سے درست عبارت کو لے لیا گیا نیز اُس عبارت کا حوالہ دیتے ہوئے اُس نسخے کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔ #**(6)...عبارات کی تخریج
**# سابقہ اَدوار میں لوگ حصول علم کے لیے لمبے لمبے سفر طے کرتے تھے، احادیث کی اَسناد ووغیرہ پر انہیں ایسی مہارت ہوتی کہ اگر کسی کے سامنے کوئی حدیث صحیح سند کے ساتھ کتاب کا حوالہ بیان کیے بغیر ذکر کردی جاتی تو وہ فوراً سمجھ جاتا، لیکن جوں جوں لوگ علم سے دور ہوتے گئے بغیر حوالے کے کوئی بات کرنا دشوار ہوتا گیا۔ بعض اوقات حوالے کے بغیر بیان کردہ صحیح روایات کوبھی لوگ کم علمی کی بنا پر رد کردیتے ہیں نیز کم علمی کی بنا پر بعض لوگوں نے کئی موضوع ومن گھڑت روایات کو بھی بیان کرنا شروع کردیا لہٰذا آج کے دور میں کوئی بھی حدیث مبارکہ، صحابی کا فرمان ، بزرگ کا قول یا کوئی بھی روایت بغیر مستند حوالے کے بیان کرنا خطرے سے خالی نہیں ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ’’فیضانِ فاروق اعظم‘‘ میں بھی مختلف آیات مبارکہ، احادیث مبارکہ، اقوال صحابۂ کرام وبزرگان دین وغیرہا کی تخاریج کا التزام کیا گیا ہے۔ تخاریج کے حوالے سے درج ذیل اُمور کو پیش نظر رکھا گیاہے: ٭…عربی کتاب کی عربی اور اردو کتاب کی اردو رسم الخط میں تخریج دی گئی ہے البتہ عربی کتب میں اُن کے اصل اور طویل عربی نام کے بجائے معروف اور مختصر نام دیے گئے ہیں ۔ ٭…تخریج میں کتاب کا مکمل حوالہ (کتاب، باب، فصل، نوع، رقم الحدیث، جلد اور صفحہ وغیرہ کے ساتھ )اس طرح دیا گیا ہے کہ پڑھنے والا باآسانی اُس مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ ٭…تخریج کرتے ہوئے جن کتب کا حوالہ دیا گیا ہے، موضوعات کے اعتبار سے اُن کے اسماء، شہر طباعت،مصنفین کے اَسماء باعتبار تاریخ وفات کی تفصیل آخر میں ’’فہرست ماخذ ومراجع ‘‘میں دے دی گئی ہے۔ ٭…اگر کسی وجہ سے ایک کتاب کے دو مختلف مطبوعہ نسخوں کا حوالہ دیا گیا ہے تو اُن دونوں نسخوں کی نشاندہی بھی آخرمیں کر دی گئی ہے۔ ٭…دو مصنفین کی ایک ہی نام والی کتب میں غیر مشہور کتاب کے ساتھ مصنف کی وضاحت کردی گئی ہے مثلا: ’’سنن کبریٰ‘‘ نام سے دو کتابیں ہیں :ایک امام بیہقی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی اور دوسری امام نسائی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی۔ ’’فیضانِ فاروق اعظم‘‘ میں جہاں مطلق ’’سنن کبریٰ ‘‘لکھا ہوگا وہاں امام بیہقی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی کتاب مراد ہوگی جبکہ امام نسائی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے نام کی صراحت کردی گئی ہے۔ ٭…تخاریج میں کسی بھی کتاب کا ایسا حوالہ درج نہیں کیا گیا جو ہمارے پاس کسی بھی حوالے سے موجود نہ ہو۔ ٭…’’فیضانِ فاروقِ اعظم‘‘ میں احادیث ، سیر وتاریخ وفقہ وغیرہ سینکڑوں کتب سے مواد لیا گیا ہے لیکن بطور تخریج و ماخذ اکثر عربی ومستند اُردو کتب ہی کو لیا گیا ہے۔ ٭…’’فیضانِ فاروقِ اعظم‘‘ (جلد ثانی)میں کم وبیش1250تخاریج کی گئی ہیں ۔ #**(7)...مشکل عبارات کی تسہیل
**# اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ’’المدینۃ العلمیۃ‘‘ کی مختلف کتب علمائے اہلسنت کی کتب سے ہی ماخوذ ہوتی ہیں ، قدیم اردو کے سبب بعض اوقات اُن کتب میں ایسے مشکل مقامات بھی آجاتے ہیں جن کی تسہیل کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ ’’فیضانِ فاروقِ اعظم‘‘ میں بھی مختلف مقامات پر علمائے اہلسنت کی کتب سے مختلف اِقتباسات ذکر کیے گئے ہیں ، قارئین کی آسانی کے لیے مشکل عبارات کی تسہیل بھی ہلالین ’’(…)‘‘میں کردی گئی ہے ۔تسہیل کے لیے علمائے اہلسنت ہی کی کتب کی طرف رجوع کیا گیا ہے۔ #**(8)...کتاب کی پروف ریڈنگ
**# ’’پروف ریڈنگ ‘‘ کسی بھی کتاب کو لفظی، معنوی، کتابت وغیرہ کی غلطیوں سے محفوظ رکھنے کا ایک بہترین عمل ہے، قرآن پاک کے علاوہ اگرچہ کوئی بھی کتاب غلطیوں سے مبراء (محفوظ) نہیں ہوسکتی لیکن کسی کتاب میں غلطیوں کی کثرت اُس کی پروف ریڈنگ نہ ہونے کی طرف اِشارہ ہے۔ ’’فیضانِ فاروقِ اعظم‘‘ کی کم وبیش11بار پروف ریڈنگ کی گئی ہے: ٭مواد جمع کرتے وقت کمپوزنگ کے بعد۔ ٭کتاب کو مرتب کرنے کے بعد۔ ٭مرتب شدہ مواد کی تخریج کے دوران۔٭عربی یا اُردو عبارات کے تقابل کے وقت۔٭اَغلاط کی تصحیح کرنے کے بعد۔٭’’تنظیمی مفتش‘‘ کی طرف سے تفتیش کے ساتھ۔٭’’شرعی مفتش‘‘کی طرف سے دورانِ تفتیش۔٭تنظیمی وشرعی تفتیش کی اَغلاط کی تصحیح کے بعد۔ ٭ مکتبۃ المدینہ پر طباعت کے لیے بھیجنےسے قبل فائنل فارمیشن کے بعد۔٭کورل ڈرا پر مکمل کتاب کی پیسٹنگ کے بعد ۔٭ علمیہ کے فائنل پروف ریڈر سے کورل ڈرا پر مکمل کتاب کی پیسٹنگ کے بعد بھی پوری کتاب کی بالاستیعاب (مکمل لفظ بہ لفظ)پروف ریڈنگ کی گئی ہے۔ #**(9)...کتاب کی فارمیشن
**# کتاب کی بہترین طباعت بھی قاری کے ذوقِ مطالعہ میں اِضافے کا ایک بہت بڑا سبب ہے، بہتر طباعت کے ساتھ ساتھ اگر کتاب کے ابواب وغیرہ کی اَحسن انداز میں فارمیشن کی جائے تو کتاب کا ظاہری حسن مزید نکھر جاتا ہے۔ ’’فیضانِ فاروقِ اعظم‘‘ کی فارمیشن کے حوالے سے درج ذیل اُمور کو پیش نظر رکھا گیا ہے: ٭…عبارت کے معانی ومفاہیم سمجھنے کے لیے ’’علاماتِ ترقیم‘‘ کا خاص اِہتمام کیا گیا ہے۔ ٭…کئی مقامات پر ایک ہی موضوع کے تحت آنے والی مختلف باتوں کی نمبرنگ کردی گئی ہے۔ ٭…جلی سرخیوں (Main Headings)اور خفی سرخیوں (Sub Headings)میں امتیاز کرتے ہوئے علیحدہ علیحدہ رسم الخط میں لکھا گیا ہے۔ ٭…عربی عبارات کو اِعراب سمیت عربی رسم الخط ’’قمر‘‘ میں لکھا گیا ہے تاکہ قاری اِعرابی غلطی سے محفوظ رہے جبکہ فارسی عبارت کو ’’نسخ‘‘ فونٹ میں لکھا گیا ہے تاکہ عربی اور فارسی دونوں میں امتیاز رہے۔ ٭…عام عربی عبارت کے علاوہ دعائیہ عربی عبارات کا رسم الخط بھی جدا رکھا گیا ہے تاکہ کتاب پڑھنے والے اِسلامی بھائی اِن دعاؤں کو باآسانی یاد کرسکیں ۔ ٭…آیاتِ مبارکہ خوبصورت قرآنی رسم الخط اور منقش بریکٹ ﴿…﴾میں دی گئی ہیں ۔ ٭…تمام دعائیہ عبارات کا رسم الخط ’’اَلْمُصْحَفْ ‘‘ رکھا گیا ہے۔ ٭…مشکل الفاظ کے معانی کو ہلالین ’’(…)‘‘میں لکھا گیا ہے۔ ٭…تخاریج کا رسم الخط عربی ، اردو وفارسی عبارت سے جدا رکھا گیا ہے۔ ٭… ہر باب کے شروع میں ایک علیحدہ صفحہ دیا گیا ہے جس میں باب نمبر، باب کا نام اور اس کے تحت آنے والے تمام موضوعات کی تفصیل دی گئی ہے ، نیز باب کا نام تمام متعلقہ صفحات کے اوپر بھی دے دیا گیا ہے۔ ٭…کتاب کی اِجمالی وتفصیلی دونوں طرح کی فہرستیں بنائی گئیں ہیں ، اجمالی فہرست میں تمام ابواب اور ان کے تحت آنے والی جلی سرخیاں (Main Headings)کو ذکر کیا گیا ہے، جبکہ تفصیلی فہرست میں ابواب اور جلی سرخیوں سمیت تمام خفی سرخیوں (Sub Headings)کو بھی ذکر کیا گیا ہےنیز اِجمالی فہرست کتاب کے شروع میں اور تفصیلی فہرست آخر میں دی گئی ہے۔ ٭…اِس کتاب میں خلافت فاروق اعظم کو کم وبیش250جلی سرخیوں (Main Headings) اور1100خفی سرخیوں (Sub Headings) کے ذریعے نہایت ہی اَحسن اَنداز میں بیان کیا گیاہے۔ ٭…اِس کتاب کو دارُالافتاء اہلسنت کے مدنی علماء کرام دَامَتْ فُیُوْضُھُم نے شرعی حوالے سے مقدور بھرملاحظہ کرلیا ہے۔ #**(10)...فیضان فاروق اعظم کی دو جلدیں
**# شعبہ فیضان صحابہ واہل بیت میں اَوّلاً عشرہ مبشرہ میں سے چاروں خلفائے راشدین کے علاوہ بقیہ چھ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی سیرت طیبہ پر کام مکمل کیا گیا جو چھ مختلف رسائل کی صورت میں چھوٹے صفحے (٭5)پر تھا۔ فیضانِ صدیق اکبر پر بھی اَوّلاًچھوٹے صفحے ہی میں کام شروع کیا گیا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے صفحات کی تعداد ایک ہزار ۱۰۰۰ سے تجاوز کرگئی لہٰذا اُسے بڑے صفحے (٭4) میں تبدیل کردیا گیا جو کم وبیش سات سو بیس ۷۲۰صفحات بن گئے۔ فیضانِ صدیق اکبر کے بعد جب فیضانِ فاروق اعظم پر کام شروع کیا گیا تو یہی خیال تھا کہ اس مبارک کتاب کے بھی زیادہ سے زیادہ آٹھ سو ۸۰۰بڑے صفحات (٭4)بنیں گے، لیکن مواد جمع کرنے، مرتب کرنے اور تخریج کرنے کے بعد ظاہر ہوا کہ فیضانِ فاروق اعظم فائنل ہونے کے بعد کم وبیش اُنیس سو ۱۹۰۰ صفحات پر مشتمل ہوگی۔ یقیناً ناشرین کے لیے اتنی ضخیم کتاب کی جلد بندی (Binding) کرنا، علمی ذوق رکھنے والوں کے لیے اُسے خریدنا اور اُس کی حفاظت کرناایک مشکل امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجلس المدینۃ العلمیہ اور شعبہ فیضانِ صحابہ واہل بیت کی مشترکہ مشاورت سے فیضانِ فاروق اعظم کو دو ۲جلدوں میں (مختلف ابواب بنا کر) تقسیم کردیا گیا۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع