اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
گناہوں کی عادت کیسے ختم ہو؟ ( )
شیطان لاکھ سُستی دِلائے یہ رِسالہ(۲۱صَفحات) مکمل پڑھ لیجیے اِنْ شَآءَ اللّٰہ معلومات کا اَنمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔
فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم: تُم جہاں بھی ہو مجھ پر دُرُود پڑھوکہ تمہارا دُرود مجھ تک پہنچتا ہے۔ ( )
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
سُوال: معلوم ہونے کے باوجود گناہوں کی عادت کیسے ختم ہوسکتی ہے؟
جواب: ہمارے ہاں ایک تعداد ایسی ہے جسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گناہ ہے، پھر بھی گناہ کررہے ہوتے ہیں۔ نماز فرض ہے،( ) نہیں پڑھیں گے تو گناہ گار ہوں گے۔ یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے، لیکن پھر بھی ہماری اکثریت ایسی ہے جو نماز نہیں پڑھتی۔ بعض لوگ فجر میں سوئے رہتے ہیں اور کچھ لوگ کاروبار کی مصروفیت کے سبب دیگر نمازیں قضاکرکے پڑھتے ہیں یا بالکل پڑھتے ہی نہیں ہیں۔ یاد رہے! جان بوجھ کر نماز قضاکرنا گناہ ہے۔( ) اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے گناہ ہیں جوپتا ہونے کے باوجود لوگ کر رہے ہوتے ہیں، یہ غفلت اور اللہ پاک کے عذاب سے بے خوفی کی علامت ہے۔ یادرکھیں! اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔ عذابِ الٰہی ایسی چیز نہیں ہے کہ آدمی اس سےنڈر اوربے خوف رہے۔ کئی لوگوں کو گناہ کرتے ہوئے معلومات تو ہوتی ہے، لیکن گناہ کا احساس نہیں ہوتا۔ اگر انہیں نیکیوں کے فضائل اور گناہ کرنے کے عذابات کی معلومات ہوتب بھی یہ ڈر ہے کہ اگر بُری صحبت ہوئی تو گناہوں کی رَغبت ملے گی۔ البتہ اگر اچّھی صحبت ہوئی تو گناہوں سے بچنے کی طرف رَغبت ہوگی، جیسے دعوتِ اسلامی ہمیں اچّھی صحبت فَراہم کرتی ہے۔ دعوتِ اسلامی میں کئی ایسے اَفراد ہیں جن کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ پہلے کیا تھا اوراب کیاہے! پہلے جمعہ نہیں پڑھتا تھا، اب مسجد میں نماز یں پڑھا رہا ہے۔ اسی طرح پہلے رمضان کے روزے نہیں رکھتا تھا، اب نفل روزے بھی رکھ رہا ہے۔ پہلے یہ فرض نماز نہیں پڑھتا تھا، اب رات کو ا ٹھ کر تہجد بھی ادا کررہا ہے۔ یہ سب دینی ماحول کی بَرَکتیں ہوتی ہیں، ورنہ اگر نمازی بھی ہواور ماحول سے نکل کر اوباش لوگوں کی صحبت میں چلا جائے تو خطرہ ہے کہ نمازیں بھی چھوڑ بیٹھے۔ ”اَلصُّحْبَۃُ مُؤَثِّرَۃٌ“ ( )یعنی صحبت اثر رکھتی ہے۔ اس لئے اچھی صحبت اختیار کریں اور دعوت ا سلامی کے دینی ماحول میں آجائیں، ہر مہینے سنتیں سیکھنے سکھانے کے لئے مدنی قافلوں کے مسافر بنیں، اسی طرح ہر روز اپنے اعمال کا جائزہ لے کر ”نیک اعمال“ نامی رسالے کے خانے پُر کریں اور ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو جمع کروائیں۔ اس سے اِنْ شَآءَ اللّٰہ نیکیوں پر استقامت ملے گی، آپ نیک بنیں گے، جوں جوں وقت گزرے گا گناہوں کا احساس شدت اختیار کرے گا اورپچھلے گناہوں سے توبہ نصیب ہوگی، لیکن یہ سب اسی وقت ہوسکے گا جب آپ کی صحبت اچھی ہوگی،کیونکہ
صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالح ترا طالح کند
یعنی اچھوں کی صحبت تجھے اچھا کردے گی اور بُروں کی صحبت تجھے بُرا کردے گی۔
سُوال: کیا ایصالِ ثواب کرنے سے مُردوں کو فوائد حاصل ہوتے ہیں؟ اور جس نے ثواب پہنچایا کیا اسےبھی فائدہ ہوتا ہے؟ نیز ہمیں ایصالِ ثواب کا کس قدر اہتمام کرنا چاہیے؟(نگرانِ شوریٰ کا سُوال)
جواب: ایصالِ ثواب کی بہت سی بَرَکتیں اور فوائد احادیثِ مبارکہ میں بیان کئے گئے ہیں۔ جن میں سے چند بیان کرتا ہوں۔ چنانچہ”سرکارِ نامدار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کا فرمانِ مشک بار ہے: قبر میں مُردے کا حال ڈوبتے ہوئے انسان کی مانند ہے کہ وہ شدت سے انتظار کرتا ہے کہ باپ، ماں، بھائی یا کسی دوست کی دُعا اس کو پہنچےاور جب اسے کسی کی دُعا پہنچتی ہے تو اس کے نزدیک وہ دُعا دُنیا وَمَافِیْھَا(یعنی دنیا اور اس میں جو کچھ ہے اس) سے بہتر ہوتی ہے، اللہ پاک قبر والوں کو ان کے زندہ متعلقین کی طرف سے ہَدِیّہ (یعنی تحفہ) کیا ہوا ثواب پہاڑوں کی مانند عطا فرماتا ہے۔ زندوں کا ہَدِیّہ مُردوں کے لئے دعائے مغفرت کرنا ہے۔“( )
کسی کے لئے دُعا کرنا بہت بڑا سہارا ہے،کیونکہ جس کے لئے دُعا یا ایصالِ ثواب کیا جائے اس کے لئے تو بھلائی ہےہی، لیکن دوسری طرف جو ایصالِ ثواب کررہا ہے اس کےلئے بھی بڑا اجر ہے۔ جیسے ایک روایت ہے: ”جو کوئی تمام مؤمن مَردوں اور عورَتوں کیلئے دعائے مغفرت کرتا ہے اللہ پاک اُس کے لئے ہر مؤمن مرد و عورت کے عِوَض ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔“( ) لہٰذا اپنے زندوں کے لئے اور جو فوت شدہ ہیں ان کے لئے بھی دُعائے مغفرت کریں،اِنْ شَآءَ اللّٰہ اس حدیثِ مبارکہ کے فضائل حاصل ہوں گے۔ ایصالِ ثواب کرنے کی تو اپنی ہی بَرَکتیں ہیں، ہم تو ابھی زندہ ہیں اور نیک اعمال کرکے ثواب کما سکتے ہیں، لیکن جو لوگ دنیا سے چلے گئے وہ عمل نہیں کرسکتے، انہیں ہماری دُعاؤں اور ایصالِ ثواب کا انتظار رہتا ہے۔ وہ بھی کتنے خوش نصیب ہیں جنہوں نے اپنے پیچھے دُعا کرنے والی نیک اولاد چھوڑی ہے، ورنہ آج کل نہ دُعا کرنی آتی ہے اور نہ ہی ایصالِ ثواب کرناآتا ہے۔ یٰسٓ شریف پڑھتے ہیں تو کہتے ہیں: ” مولانا صاحب! ایصال ثواب کردیں! “ ہمیں بس کھانا، پیسے کمانا،گننا اور جمع کرنا آتا ہے۔ نہیں آتا تو نیکیاں کرنا نہیں آتا اور قرآنِ پاک پڑھنا نہیں آتا۔ بہت سے تو ایسے ہیں جنہیں بِسْمِ اللہ اور کلمۂ پاک بھی صحیح پڑھنا نہیں آتا، بس جیسا بڑوں سے سنا تھا ویسا ہی پڑھتے آرہے ہیں۔ یہ سب کچھ سیکھنا چاہیے۔
ایصالِ ثواب بڑا مفید ہوتا ہے۔ جیسے”ایک بزرگ نے اپنے مرحوم بھائی کو خواب میں دیکھ کر پوچھا: ” کیا زندہ لوگوں کی دُعا تم لوگوں کو پہنچتی ہے؟“ اُنہوں نے جواب دیا: ” ہاں اللہ پاک کی قسم!وہ نورانی لباس کی صورت میں آتی ہے اسے ہم پہن لیتے ہیں ۔“( ) ایک روایت میں ہے: ” جب کوئی شخص میِّت کو ایصالِ ثواب کرتا ہے تو حضرتِ سَیِّدُنا جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اُسے نورانی طباق میں رکھ کر قبر کے کنارے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں:”اے قبر والے ! یہ ہدِیّہ تیرے گھر والوں نے بھیجا ہے،قبول کر!“ یہ سن کر وہ خوش ہوتا ہے اور اس کے پڑوسی اپنی مَحرومی پر غمگین ہوتے ہیں۔“( ) اسی طرح روایتوں میں یہ بھی آتا ہےکہ ”جو قبرستان میں 11بار سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص پڑھ کر مُردوں کو اس کا ایصالِ ثواب کرے تو مُردوں کی تعداد کے برابر ایصالِ ثواب کرنے والے کواس کا اَجر ملے گا۔“( ) اب فرض کریں کہ میوہ شاہ قبرِستا ن (کراچی) میں ایک لاکھ مسلمان دَفن ہیں، کسی نے 11 بار سورۂ اخلاص پڑھ کر یہ دُعا مانگی کہ”یا اللہ! میوہ شاہ قبرِستان میں جتنے مسلمان مدفون ہیں ان سب کو اس کا ثواب پہنچا۔“ تو اس روایت کے مطابق اُسے قبرِستان کے تمام مُردوں کے بَرابَر ثواب ملے گا۔ ان روایات کے علاوہ اور بھی روایتیں مکتبۃ المدینہ کے رسالے” فاتحہ اور ایصال ثواب کاطریقہ“( ) میں بیان کی گئی ہیں۔ ایصالِ ثواب کرنے کے لئے فاتحہ کا جو طریقہ رائج ہے اُس کے مطابق ایصالِ ثواب کرنا اچھی بات ہے، لیکن اگر کسی کو وہ طریقہ نہیں آتا ہو تو صرف دُعا کردیں کہ” یَا اللہ! میں نے جو دُرُودِ پاک پڑھا اُس کا ثواب میرے مرحوم والدین کو عطا فرما“ اِس سے بھی ایصالِ ثواب ہوجائے گا۔ اس کے لئے مولانا کے پاس جانا ضروری نہیں ہے ۔
سُوال: کیا ایصالِ ثواب کے لئے کچھ پڑھنا ضروری ہے؟ یا پڑھنے کے علاوہ اور بھی کسی عمل کا ایصال ثواب ہوسکتا ہے؟
(نگرانِ شوریٰ کا سُوال)
جواب: ’’ایصال‘‘ کامعنی ’’پہنچانا‘‘ہے اور ’’ایصالِ ثواب‘‘ کا مطلب ’’ثواب پہنچانا‘‘ہے۔ اگر آپ نے بیان کیاتو اس کا ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں کہ ”یَا اللہ! میں نے جو بیان کیا اس کا ثواب میری خالہ جان کو عطا فرما!“ یوں بیان کا ایصالِ ثواب ہوجائے گا۔ کسی کو چھینک آئی تو اس نے کہا: ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہ“ یوں سنّت ادا ہوگئی جس پر اسے ثواب ملے گا، تو اس کا بھی ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کسی کو پانی پلایا یا کھانا کھلایا، سب کا ایصالِ ثواب ہوسکتا ہے۔ حضرتِ سَیِّدُنا سَعد بن عُبادہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے بارگاہِ رِسالت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ میری ماں کاانتقال ہوگیا ہے، میں اُن کی طرف سے صدقہ کرنا چاہتا ہوں، کون سا صدقہ افضل رہے گا؟ سرکار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: ”پانی۔“ چنانچہ انہوں نے ایک کُنواں کھدوایا اور کہا:”یہ اُمِّ سَعد کے لئے ہے۔“( ) یعنی یہ میری ماں کے ایصالِ ثواب کے لئے ہے۔ ہم بھی اپنے کھانے وغیرہ کے لئے یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ ”یہ سرکار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کی نیاز ہے“ یا ”یہ غوثِ پاک رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی نیاز ہے“ تو اس کے بھی یہی معنی ہوتے ہیں کہ یہ سرکار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم یا غوثِ پاکرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے ایصالِ ثواب کا کھانا ہے۔ پانی کا ایصالِ ثواب بھی ہوسکتا ہے، کسی کو کپڑے پہنائے یا کپڑے تحفے میں دئیے یا کچھ اور جیسے قلم یا کتاب تحفے میں دی تو اس پر ملنے والاثواب، بلکہ ہر وہ چیز جو نیکی ہو اس کا ثواب پہنچایا جاسکتا ہے۔( )
حضرتِ سَیِّدُنا حمّاد مکی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ” میں ایک رات مکۂ مکرمہ کے قبرِستان میں سوگیا، کیا دیکھتا ہوں کہ قبر والے حلقہ در حلقہ کھڑے ہیں، میں نے ان سے اِستفسار کیا کہ ”کیاقیامت قائم ہوگئی ہے؟“ اُنہوں نے کہا: ”نہیں، دراصل بات یہ ہے کہ ایک مسلمان بھائی نے سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص پڑھ کر ہمیں ایصالِ ثواب کیا تھا، ہم ایک سال سے وہ ثواب تقسیم کررہے ہیں۔“( ) سُبْحٰنَ اللّٰہ! سورۂ اخلاص کا کتنا بڑا ثواب ہے کہ ایک سال تک تقسیم کرتے رہے۔ ایصالِ ثواب کرنا مشکل کام نہیں ہوتا،لیکن جو لوگ دنیا سے چلے جاتے ہیں وہی اِس کی قدر جانتے ہیں، لہٰذا ہمیں اپنے مرحومین کے لئے رونے دھونے کے بجائے اُنہیں ایصالِ ثواب کرتے رہنا چاہیے۔
سُوال: حساب وکتاب تو حشر میں ہوگا، پھر قبر میں انسان کے ساتھ کیا معاملات ہوں گے؟
جواب: انسان مختلف اَدوار میں رہتا ہے، ماں کے پیٹ میں آنے سے پہلے عالمِ اَرواح میں رہا، پھر ماں کے پیٹ میں رہا اور اس کے بعد دنیا میں آیا، پھر جب وہ فوت ہوگیا تو اب اس کا ایک نیا دَور شروع ہوگیا جس کا نام بَرزخ ہے۔ بَرزخ کا معنی آڑ ہے۔ مرنے کے بعد ہر شخص عالمِ بَرزخ میں ہوتا ہے، چاہے قبر میں ہو، سمندر میں ہو،کسی جانور کے پیٹ میں ہو یا کسی بھی جگہ ہو۔( ) عالمِ بَرزخ میں ثواب و عذاب دونوں ہیں، جس پر اللہ پاک کا کرم ہوا اور اس کے لئے جنت کی کھڑکی کھل گئی تو اس کی قبر جنت کا باغ بن جائے گی جہاں وہ بڑے سُکون اور چَین سے پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کے جلووں میں گم رہے گا۔ جبکہ جو بدنصیب بے نمازی ہو، گالیاں بکتا ہو، جھوٹ، غیبت ،چغلی کرنا اُس کا معمول ہو اور وہ اِس حال میں مرے کہ اللہ پاک اُس سے ناراض ہو تو اُس پر جہنّم کی کھڑکی کُھلے گی اور اُسے قبر میں عذاب دیا جائے گا، نیز سانپ بچھو اس سے لپٹے ہوئے ہوں گے، ہم اللہ کریم سے ہر طرح کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں۔ قبر میں ملنے والاثواب و عذاب ہم زندوں کو نظر نہیں آتا۔ اسے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک جاگتے ہوئے شخص کے سامنے دو افراد سو رہے ہوں اور ان میں سے ایک خواب میں کسی پارک میں پہنچا ہوا ہو اور مزے سے جُھولے کھارہا ہو، جبکہ اس کے بَرعکس دُوسرا شخص خواب میں دیکھے کہ اُسے کچھ لوگوں نے پکڑ لیا ہے اور چُھریاں گھونپ رہے ہیں،تو اب ان دونوں سوئے ہوئے افراد کے ساتھ خواب میں جو بھی کچھ ہوا وہ اس جاگے ہوئے شخص کو نظر نہیں آئے گا۔ اسی طرح بَرزخ میں بھی ثواب و عذاب کے معاملات ہورہے ہوتے ہیں، لیکن ہمیں نظر نہیں آتے۔ بعض اَوقات قبریں کُھل جاتی ہیں جن میں یا تو صحیح سلامت لاش ملتی ہے یا پھر ٹوٹی پھوٹی ہڈیاں نکلتی ہیں،تب بھی ہمیں ثواب یا عذاب میں سے کچھ نظر نہیں آتا، حالانکہ ان کے ساتھ وہ معاملات ہورہے ہوتے ہیں جن کے وہ حق دار تھے۔ یاد رکھیں! عذابِ قبر حق ہے۔ ( ) ایصالِ ثواب کرنے کی بَرَکت سے قبر میں ہونے والا عذاب اُٹھ جاتا ہے۔
(اس موقع پر مفتی حسان صاحب نے فرمایا: اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں فرعونیوں کے حوالے سے عذابِ قبر کا تذکرہ فرمایا ہے:
(اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّاۚ-وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ- اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ(۴۶))
ترجمهٔ كنز الايمان: آ گ جس پر صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی حکم ہوگا فرعون والوں کو سخت تر عذاب میں داخل کرو۔ فرعونیوں کو جو صبح وشام آگ پر پیش کیا جاتا ہے یہ ان کے ساتھ قبر میں ہوتا ہے اور یہ پہلا عذاب ہے، جبکہ دوسراعذاب قیامت کے دن ہوگا اور پہلے سے سخت تر ہوگا۔( )
سُوال: کیا ٹوٹے ہوئے برتنوں میں کھانا پینا اولیائے کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْھِمْ کی سنّت ہے؟
جواب: ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانے کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر اُس جگہ سے کھایا پیا جہاں سے برتن ٹوٹا ہواہے تو مکروہ یعنی ناپسندیدہ کام ہے، اِس سے بچنا چاہیے۔ ہاں! اگر ٹوٹے ہوئے حصے سے نہیں کھایا پیا تو کوئی حرج نہیں۔ برتن کے ٹوٹے ہوئے ہونے کی دوسری صورت یہ ہے کہ برتن کے درمیان میں دراڑ پڑی ہوئی ہوتو ایسے برتن میں بھی کھاناپینا مکروہ ہے اور اس سے بھی بچنا چاہیے،( )کیونکہ ایسے برتن میں میل کچیل بھر جاتی ہے جس کی وجہ سے ہماری صحت خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے اور اسلام کو ہماری صحت عزیز ہے۔ اولیائے کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہم کےپاس اگر ٹوٹاہوا برتن آیا بھی ہوگا تو انہوں نے ٹوٹے ہوئے حصے سے استعمال نہیں کیا ہوگا، بلکہ برتن جہاں سے ٹوٹا ہوا نہیں ہوگا وہاں سے استعمال کیا ہوگا۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ” ٹوٹے ہوئے برتن میں کھاناپینا اولیائے کرام کی سنت ہے۔“ بلکہ حدیثِ پاک میں بھی ٹوٹے پھوٹے برتنوں میں کھانے پینے سے منع کیا گیا ہے ( )اور اولیائے کرام حدیثوں پر عمل نہیں کریں گے
تو کون کرے گا!!
…… یہ رِسالہ۲۰ رَبِیْعُ الْآخِر ۱۴۴۲ ھ بمطابق5دسمبر 2020 کو ہونے والے مَدَنی مذاکرے کا تحریری گلدستہ ہے،جسے اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَۃ کے شعبہ ’’ملفوظاتِ امیرِ اَہلِ سُنّت‘‘نے مُرتَّب کیا ہے۔ (شعبہ ملفوظاتِ امیرِ اَہلِ سُنّت)
…… معجم کبیر، باب الحاء، حسن بن حسن بن علی، ۳/ ۸۲، حدیث:۲۷۲۹۔
…… در مختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، ۲/۶۔
…… فتاویٰ رضویہ،۹/۱۵۸۔
…… تفسیر روح البیان، پ۵، النساء، تحت الآية:۵۷، ۲/۲۲۶۔
…… شعب الایمان، الخامس والخمسون، باب فی برّ الوالدین، فصل فی حفظ حقّ الوالدین بعد موتهما، ۶ / ۲۰۳، حدیث:۷۹۰۵۔
…… مسند الشامیین، یعلٰی عن عبادة بن الصامت، ۳/۲۳۴، حدیث:۲۱۵۵۔
…… شرح الصدور، باب ماینفع المیت فی قبرہ، ص۳۰۵۔ موسوعة ابن ابی الدنیا، کتاب ذکر الموت، منامات الاموات، ۵ / ۴۹۶ ، رقم:۳۱۰۔
…… معجم اوسط،بقیة من اسمه محمد، ۵/۳۷، حدیث: ۶۵۰۴۔
…… جمع الجوامع،قسم الاقوال،حرف المیم،۷/۲۸۵،حدیث:۲۳۱۵۲۔
…… ”فاتحہ اور ایصالِ ثواب کا طریقہ“ یہ رِسالہ امیرِ اَہلِ سُنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تصنیف ہے جس کے 28 صفحات ہیں۔ اِس رِسالے میں فاتحہ اور اِیصالِ ثواب کے مختلف طریقوں کے ساتھ ساتھ ایصال ثواب کے فضائل، ترغیبات اور حکایات بھی موجود ہیں۔ مکتبۃ المدینہ سے ہدیۃً حاصل کیا جاسکتا ہے۔ (شعبہ ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنّت)
…… ابو داؤد،کتاب الزکاة، باب فی فضل سقی الماء، ۲/۱۸۰، حدیث:۱۶۸۱۔
…… مراٰۃ المناجیح، ۷/۲۵۰ ماخوذاً۔
…… مرقاة المفاتیح، کتاب الجنائز، باب دفن المیت، الفصل الثالث، ۴/۱۹۸، تحت الحدیث:۱۷۱۷۔ مشیخة الکبریٰ، ۳/۱۳۶۳، رقم: ۷۰۷۔
…… نزہۃ القاری، ۲/۸۶۲۔
…… بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی عذاب القبر، ۱/۶۴۳، حدیث: ۱۳۷۲۔
…… پ۲۴، المؤمن: ۴۶۔
…… نزہۃ القاری، ۲/۸۶۲۔
…… سنی بہشتی زیور، ص۶۰۴۔
…… ابو داؤد، کتاب الاشربة، باب فی الشرب من ثلمة القدح، ۳/۴۷۳، حدیث:۳۷۲۲۔