اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
ارشاداتِ امام زین العابدین
دعائے عطار: یارَبَّ المصطفٰے!جوکوئی 14 صفحات کا رسالہ ’’ ارشاداتِ امام زین العابدین ‘‘پڑھ یا سُن لے، اُسےصحابہ واہلِ بیت کے ارشادات پر عمل کرنے اور اسے عام کرنے کی توفیق عطافرمااوراُسےبےحساب بخش دے۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلہٖ وسلّم
فرمانِ امام زین العابدین رحمۃُ اللہِ علیہ : رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر کثرت سے درود پڑھنا اہلِ سنّت کی علامت ہے ۔ (القول البدیع، ص 131، حدیث: 5)
مجھے تم مَسلکِ احمدرضا پر استقامت دو بنوں خدمت گزارِ اہلِ سنّت یا رسول اللہ
(وسائلِ بخشش، ص 334)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
جس نے تم سے پہلے کوئی علم حاصل کر لیا تو وہ اُس معاملےمیں تمہارا رہنما ہے چاہے وہ عمر میں تم سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔(احیا ء العلوم ،1/197 )
دنیا میں لوگوں کے سردار سخی ہیں ، جبکہ آخرت میں دین والے اور علم و فضل والے ہوں گے کیونکہ علما ئے کرام انبیا کے وارث ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکر، 41/ 385)
عرض کیا گیا: لوگوں میں سب سے بڑے مرتبے والا کون ہے ؟ فرمایا: جس کے نزدیک دنیا کی کوئی حیثیت نہ ہو ۔(التذکرۃ الحمدونیہ،1/112،رقم:222)
دنیا نیند(یعنی غفلت کی جگہ) جبکہ آخرت بیداری ( کا مقام) ہےاور ہم ان کے درمیان خوابِ پریشان کی طرح ہیں۔(ربیع الابرار،1/37،رقم:47)
حضرت علی بن حسین (یعنی امام زین العابدین )رحمۃُ اللہِ علیہ سے زاہد(یعنی دنیا سے بے رغبت شخص) کی صفت کے بارے میں پوچھا گیاتوآپ نے فرمایا: جو زادِ راہ کے بغیر(منزل تک) پہنچے ، اپنی موت کے دن کی تیاری رکھے اور (آخرت کے شوق میں) اپنی زندگی سے اُکتا جائے۔ (المنتخب من کتاب الزہد والرقائق ، ص83 ، رقم:44)
غوروفکر ایک ایسا آئینہ ہے جو مؤمن کو اس کی اچھائیاں اور برائیاں دکھاتا ہے۔
(تاریخ ابن عساکر، 41/408)
مجھے اُس اِترانے والے مُتَکَبِّر شخص پر تعجب ہے جو کل تک صرف (ناپاک)پانی کا قطرہ تھا اور کچھ عرصے بعد (قبر میں) سڑی ہوئی لاش بن جائے گا، اور مجھے ایسے شخص پر بھی بہت تعجب ہے ، جو اللہ پاک کے (وجود کے )بارے میں شک کر تا ہے حالانکہ وہ اپنے پیدا کیے جانے کو دیکھ رہا ہے (جو پیداکرنےوالے کے وجود کی روشن دلیل ہے )۔ اور مجھے ایسے شخص پر بھی حیرانی ہے جو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیے جانے کا انکار کرتا ہے حالانکہ وہ پہلی مرتبہ پیدا کیے جانے کو دیکھ رہاہے ( کیونکہ جو رب پہلی مرتبہ پیدا کر سکتا ہے ، وہ دوبارہ بھی زندہ کرسکتا ہے ) اور مجھے ایسے شخص پر بھی تعجب ہے جو فنا ہونے والی دنیا کے لیے تو کام کر تا ہے لیکن ہمیشہ رہنے والے گھر (آخرت) کو چھوڑے رکھتا ہے۔( اور صاحبِ روح البیان شیخ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ اضافہ کیا ہے:)
عقلمند پر لازم ہے کہ وہ ان کاموں سے عبرت حاصل کرے ، اس سے پہلے کہ موت اس کے سر پر آجا ئے اُسے چاہیے کہ اللہ پاک کو یادر کھتے ہوئے حق کے راستے میں صبح و شام کوشش کرے اور موت سے پہلے اس کی تیاری کر رکھے کیونکہ وقت ہوا کی تیزی کی طرح گزر رہا ہے۔ وہ لوگ کہاں ہیں! جو نبیوں اوررسولوں کا انکار کر تے اور اُنہیں جھٹلاتے رہے، خدا کی قسم !وہ مرچکےاور عنقریب یہ ساری کائنات ختم ہونے والی ہے ، پس اس کائنات میں فرشتے ، جنات اور انسانوں میں سے کوئی باقی نہیں بچے گا، اعمال نامے لپیٹ دیے جائیں گے اور قیامت قائم ہو گی ،اس میں ہر چھوٹابڑاعمل ظاہر ہو جائے گا، ہائے افسوس! بد بختوں کی رسوائی اور آفریں ! نیک لوگوں کی سعادت مندی۔ اے ہمارے ربّ ! ہم تجھ سے موت کی یاد ، نیکیوں پر استقامت اور ظاہری و باطنی طور پر سیدھے راستے پرچلتے رہنے کا سوال کرتے ہیں ، اے قوی(یعنی طاقت والے)! اے معین (یعنی مدد فرمانے والے)!ہم کمزوروں کی مدد فرما، آمین۔(تفسیر روح البیان،پ 8، الاعراف،تحت الآیۃ:8 ،3/136)
بیشک بدن جب بیمار نہ ہو ، تو شریر ہو جاتا ہے اور شریر بدن سے خیر کی توقع نہیں رہتی۔ (سیر اعلام النبلاء،5/338)
کوئی شخص کسی دوسرے کے بارے میں بھلائی کی کوئی ایسی بات نہ کہے جو اُ سے خود معلوم نہ ہو کیونکہ پھر قریب ہے کہ وہ اُس کے بارے میں بُرائی کی کوئی ایسی بات بھی کہہ دے گا جو اسے معلوم ہی نہ ہو۔ اورجب تم میں سے دولوگ اللہ پاک کی نافرمانی پر دوستی اختیار کرتے ہیں تووہ دونوں اللہ پاک کی نافرمانی پر ہی جُد اہوتے ہیں ۔
(تہذیب الکمال،20/398)
آپ نے ایک شخص سے دریافت کیا: کیا تم اپنے (دینی ) بھائی کی جیب سے ہاتھ ڈا ل کر اُس کی اجازت کے بغیر بھی اپنی مرضی سے کوئی چیز نکال سکتے ہو ؟ اس نے جواب دیا: نہیں ۔ تو آپ نے فرمایا: (اگر ایسا ہے ) تو تم دونوں میں (ابھی تک حقیقی)بھائی چارہ نہیں۔
(قوت القلوب ،2/374 )
کسی بھی شخص سے ہر گز دشمنی نہ رکھو اگر چہ تمہارا خیال ہو کہ وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا ئے گا اور کسی کے تحفہ کو ہر گز گھٹیا نہ جانو اگر چہ تمہارے خیال میں وہ تمہیں کوئی نفع نہیں دے گا کیونکہ تم نہیں جانتے کہ کب تمہیں اپنے دوست کی ضرورت پڑ جائے اور تم نہیں جانتے کہ کب اپنے دشمن سے ڈرناپڑے اور جب کوئی تمہارے پاس عذر(معافی مانگنے کا کوئی سبب) لے کر آئے تو اس کا عذر قبول کرو اگر چہ تم جانتے ہو کہ وہ شخص جھوٹا ہے۔
(التذکرۃ الحمدونیۃ،4/357،رقم:901)
تقسیمِ الٰہی پر رضامندی ہی حقیقت میں ”غِنیٰ“ ہے جو اپنے لیے اللہ پاک کی تقسیم پر راضی رہا تو وہ لو گوں میں سب سے زیادہ غنی ہے ۔ (حلیۃ الاولیاء، 3/159،رقم: 3543)
تقدیر کے ناپسندیدہ اُمور (یعنی سختیوں) پر راضی رہنا، یقین کے اعلیٰ درجات میں سے ہے۔ (عیون الاخبار ، 2/403)
اے میرے بیٹے ! سختیوں پر صبر کرو کسی کے حقوق ضائع نہ کرو اور اپنے بھائی کو ایسے کام میں نہ ڈالوجس کا نقصان تمہارے لیے اس کے (عارضی ) نفع سے زیادہ ہو۔
(تاریخ ابن عساکر ، 41/408)
بیشک اُس نے تمہیں اپنی محبّت کا قیدی بنالیا جس نے تمہارا اِحسان ماننے میں پہل کی۔
(تاریخ ابن عساکر ، 41/409)
سخی وہ نہیں جو مانگنے والوں کو دیتا ہے بلکہ سخی وہ ہے جو اللہ پاک کے فرمانبرداروں کے حقوق کی ادائیگی میں پہل کرتا ہےاور اپنی تعریف کا خواہشمند نہیں ہوتا بشرطیکہ وہ بارگاہِ خداوندی سے کامِل ثواب کا یقین رکھے۔ (احیاء العلوم، 3/304)