اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
مدینے کی برکتیں
یاربَّ المصطفٰے!جوکوئی 14 صفحات کا رسالہ ’’ مدینے کی برکتیں ‘‘پڑھ یا سُن لے، اُسےاپنے پیارے پیارے سب سےآخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتوں کا پابند بنا اور اسے بے حساب بخش دے ۔اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّم
قیامت کے دن کسی مسلمان کی نیکیاں میزان(یعنی ترازو) میں ہلکی ہو جائیں گی تو گناہ گاروں کی شفاعت فرمانے والے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایک پرچہ اپنے پاس سے نکال کرنیکیوں کے پَلڑے میں رکھ دیں گے، تو اس سے نیکیوں کاپَلڑا وزنی ہو جائے گا۔ وہ عرض کرے گا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ کون ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرمائیں گے:میں تیر ا نبی محمد ( صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ) ہوں اور یہ تیرا وہ دُرُود ہے جو تو نے مجھ پر بھیجا تھا۔ (موسوعہ ابن ابی دنیا، 1/92، حدیث: 79 ملخصاً)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
بُخاری شریف، حدیث نمبر3926 میں ہے: تمام مسلمانوں کی پیاری پیاری امی جان، حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہ ا فرماتی ہیں:جب حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہجرت (Migrate) فرماکر مدینۂ پاک تشریف لائے تو حضرتِ ابوبکرصدیق اور (مؤذّنِ رسول) حضرتِ بلال رضی اللہُ عنہ ما کو بُخار ہوگیا۔ میں اِن دونوں کے پاس آئی اور میں نے اپنے والدِ محترم سے عرض کی: ”ابوجان! آپ کیسا محسوس فرمارہے ہیں؟“آپ یہ شعر پڑھتے:
كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِیْ اَهْلِهٖ وَالْمَوْتُ اَدْنٰى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهٖ
ترجمہ: ہر شخص اپنے گھروالوں کے دَرمیان صبح کرتا ہے ۔
جبکہ موت اُس کے جوتے کے تسمے سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔
اورحضرت بلال رضی اللہُ عنہ یوں کہتے:
ترجمہ: (1) کاش! میں پھر کبھی ایک رات (مکے کی)وادی میں گُزاروں اور میرے اِردگرد اِذخِر اور جَلیل نامی گھاس ہو۔ (2)کاش! پھر ایک روز (مکے میں)مَجَنَّہ نامی مقام کے چشمے پر جاؤں اور شَامَّہ اور طَفِیل نامی پہاڑیاں دیکھنا نصیب ہوں۔
حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہ ا فرماتی ہیں:جب میں نےسرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سےاِس بارے میں عرض کیا تو آپ نے یوں دُعا فرمائی:”اَللّٰهُمَّ حَبِّبْ اِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَامَكَّةَ اَوْ اَشَدَّ،وَصَحِّحْهَاوَبَارِكْ لَنَافِیْ صَاعِهَاوَ مُدِّهَاوَانْقُلْ حُمَّاهَا فَاجْعَلْهَا بِالْجُحْفَةِ یعنی اے اللہ پاک! تُو مدینےکو بھی ہمارے لیے مکے کی طرح پیارا بنادے بلکہ اُس سے بھی زیادہ اور ہمارے لئے مدینہ کو صحت افزا بنا دے۔ہمارے لئےیہاں کے صاع اور مُد (یعنی ناپ تول کے پیمانوں ) میں بھی برکت عطا فرما اوربُخار کو یہاں سے جُحفہ (ایک مقام کانام) کی طرف منتقل فرما۔ “ (بخاری،2/601، حدیث: 3926)
مدینہ اِس لیے عطارؔ جان و دل سے ہے پیارا
کہ رہتے ہیں مِرے آقا مِرے سَرْوَر مدینے میں
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
مفتی احمدیارخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے،مدینہ منورہ وَباؤں اور بیماریوں کا گھر تھا،آپ( صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )کے قدمِ پاک نے وہاں سے وباؤں(یعنی بیماریوں) کو نکال کر وہاں کی مٹی کو بھی شفا بنادیا،(پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )فرماتےہیں: ہمارے مدینے کی مٹی بیماروں کو شفا دیتی ہے۔
(وفاء الوفاء، 1/69۔ مراٰۃ المناجیح، 2/178)
برادرِ اعلیٰ حضرت ، مولانا حسن رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے اُٹھالے جائے تھوڑی خاک اُن کے آستانے سے
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولاناشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مدینۂ طَیّبہ کو یثرب کہنا ناجائز و مَمنوع وگُناہ ہےاور کہنے والا گناہ گار۔رسولُ الله صلی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلم فرماتے ہیں:جو مدینہ کو یثرب کہے اُس پر توبہ واجب ہے۔مدینہ طابہ ہے،مدینہ طابہ ہے۔
( مسند امام احمد، 6/409، حدیث: 18544۔ فتاویٰ رضویہ، 21/116)
علامہ مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدینۂ طیبہ کا یَثْرِب نام رکھنا حرام ہے کہ یثرب کہنے سے اِستِغْفار کاحکم فرمایا اور اِستغفار گناہ ہی سے ہوتی ہے۔(التیسیر شرح جامع الصغیر، 2/424)
امام بُخاری رحمۃ اللہ علیہ نےاپنی تاریخ میں فرمایاکہ جومدینے کو ایک بار ”یثرب “ کہے وہ بطورِ کفّارہ دَس بار ”مدینہ “ کہے۔(تاریخ کبیر، 6/62، حدیث: 8282)خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا جَمیلُ الرحمٰن رضوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی نعتیہ کتاب ”قبالۂ بخشش “ میں کتنے خوبصورت انداز میں ذکرِ مدینہ فرماتے ہیں:
یارب مِرے دِل میں ہے تمنائے مدینہ اِن آنکھوں سے دِکھلا مجھے صحرائے مدینہ
کیوں طیبہ کو یثرب کہو ں ممنوع ہے قطعاً موجود ہیں جب سیکڑوں اَسمائے مدینہ
یاد آتا ہے جب روضۂ پُرنور کا گنبد دِل سے یہ نکلتی ہے صدا ہائے مدینہ
ایسا مِری نظروں میں سما جائے مدینہ جب آنکھ اُٹھاؤں تو نظر آئے مدینہ
بُلوا کے مدینے میں جمیلِ رَضوی کو
سگ اپنا بنالو اِسے مولائے مدینہ
(قبالہ ٔ بخشش، ص 233 تا 235)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد