Kya Har Chamakne Wali Cheez Sona Hoti Hai?
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Maqsad e Hayat | مقصد حیات

    Kya Har Chamakne Wali Cheez Sona Hoti Hai?

    book_icon
    مقصد حیات
                
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط مقصد حیات(1)

    ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی

    رَحْمَتِ عَالَم، نُورِ مُجَسَّم، شاہِ بنی آدَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عَالیشان ہے : ’’تم اپنی مجلسوں کو مجھ پر دُرود ِپاک پڑھ کر آراستہ کرو ، تمہارا درود پڑھنا قیامت کے روز تمہارے لیے نُور ہوگا۔‘‘ (2) صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

    ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی

    جنگل میں ایک بارہ سنگھا (Stag) پیاس سے بے تاب ہو کر پانی کے تالاب پر آیا اور پانی پیتے ہوئے جب اسے پانی میں اپنے خوبصورت سینگوں (Horns) کا عکس نظر آیا تو فخر و اِنْبِسَاط سے وہ پھولا نہ سمایا مگر جب اس کی نِگاہیں اپنی پَتْلی اور سُوکھِی ہوئی ٹانگوں پر پڑیں تو اس کی ساری خُوشی کافور (خَتْم) ہو گئی اور وہ حسرت سے سوچنے لگا کہ اے کاش! اس کی ٹانگیں بھی اس کے سینگوں کی طرح خوبصورت اور موٹی ہوتیں تو کتنا اچھا ہوتا۔ ابھی وہ انہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ اسے شکاری کتوں (Hounds) کے بھونکنے کی آواز سنائی دی، خطرہ محسوس کرتے ہی وہ بھاگ کھڑا ہوا اور چھپنے کے لیے جنگل کی راہ لی۔ شکاری کتوں نے بھی اسے دیکھ لیا لہٰذا وہ بھی اس کے پیچھے بھاگے ، بارہ سنگھا اس تیزی سے بھاگا کہ اس نے مڑ کر بھی نہ دیکھا اور سیدھا جنگل میں جا گھسا مگر اس کی بدقسمتی (Bad luck) کہ جن سینگوں پر تھوڑی دیر قبل فخر کر رہا تھا وہ ایک جھاڑی میں پھنس گئے ۔ اس نے سینگوں کو جھاڑی سے نکالنے کی کافی کوشِش کی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا اور آخر کار شکاری کتے اس کے سر پر جاپہنچے اور یوں وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

    کوئی چیز بے مقصد نہیں

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حکایت سے دو باتیں معلوم ہوئیں : پہلی یہ کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی (All that glitters is not gold) اور دوسری یہ کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے دُنیا میں ہر شے کو ایک خاص حکمت کے تحت پیدا فرمایا ہے ، وہ بارہ سنگھا اپنی جِن ٹانگوں کو پَتْلی و بدصُورَت دیکھ کر افسوس کر رہا تھا وہی اس کی زِنْدَگی بچانے کے کام آئیں اور جن سینگوں پر اسے ناز تھا وہ اس کی جان کے خاتمے کا سَبَب بن گئے ۔ یاد رکھئے ! جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے دُنیا میں ہر شے کو اپنی حکمت کے تحت ایک خاص مقصد کے لیے پیدا فرمایا ہے تو ہمیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا کردہ ہر نعمت کی قدر کرنی چاہئے اور کبھی بھی کسی نعمت کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے خواہ وہ ایک پتھر ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ مذکورہ بارہ سنگھے کی طرح جو شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا کردہ کسی نعمت کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے یا اس کی قدر نہیں کرتاوہ ہمیشہ نقصان اٹھاتا ہے اور بعد میں پچھتاتا ہے مگر اب پچھتائے کیا ہَوت جب چِڑیاں چُگ گئیں کھیت(It is useless to cry over spilt milk) ۔ چنانچہ،

    اَنْمَول ہیرے

    دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ 26 صَفحات پر مشتمل رسالے انمول ہیرے صَفْحَہ 2پر پندرھویں صدی کی عظیم علمی و روحانی شخصیت، شیخ طریقت، امیر اہلسنت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں : ایک بادشاہ اپنے مَصاحبوں کے ساتھ کسی باغ کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا باغ میں سے کوئی شخص سنگریزے (یعنی چھوٹے چھوٹے پتھر) پھینک رہا ہے ، ایک سنگریزہ خود اس کو بھی آکر لگا۔ اس نے خُدّام کو دوڑایا کہ جا کر سنگریزے پھینکنے والے کو پکڑکر میرے پاس حاضِر کرو۔ چُنانچِہ خُدّام نے ایک گنوار کو حَاضِر کر دیا۔ بادشاہ نے کہا : یہ سنگریزے تم نے کہاں سے حاصل کئے ؟ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا : میں ویرانے میں سیر کر رہا تھا کہ میری نظر ان خوبصورت سنگریزوں پر پڑی، میں نے ان کو جھولی میں بھر لیا، اس کے بعد پِھرتا پِھراتا اس باغ میں آنکلا اور پھل توڑنے کے لئے یہ سنگریزے استعمال کرلئے ۔ بادشاہ نے کہا : تم ان سنگریزوں کی قیمت جانتے ہو؟ اس نے عَرْض کی : نہیں ۔ بادشاہ بولا : یہ پتھر کے ٹکڑے دراصل اَنْمَول ہِیرے تھے ، جنہیں تم نادانی کے سبب ضائِع کرچکے ۔اس پر وہ شَخْص افسوس کرنے لگا ۔مگر اب اس کا افسوس کرنا بے کار تھا کہ وہ انمول ہیرے اس کے ہاتھ سے نِکَل چُکے تھے ۔(3)

    زِنْدَگی کے لمحات انمول ہیرے ہیں

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہ حِکایَت ہمیں اپنی زِنْدَگی کے قیمتی لمحات کی قَدْر دَانی کا سَبَق دے رہی ہے کہ گزرتے وَقْت کا ہر لمحہ ایک قیمتی ہیرا ہے ، اگر اسے یُونْہی بے کار ضائع کردیا تو سِوائے حسرت و ندامت کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا جس طرح اس دیہاتی شخص کا حال ان انمول ہیروں کو ضائع کرکے ہوا۔ یقیناً جو لوگ اپنی زِنْدَگی کے ان انمول ہیروں کی قدر کرتے ہیں انہیں کل بروزِ قیامت بارگاہِ رب العزت میں پیش ہوتے ہوئے کوئی شرمساری نہ ہوگی۔ چنانچہ،

    چالیس برس تک پہلو زمین سے نہ لگایا

    حضرت سیدنا ابوبکر بن عَیَّاش رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ اپنی حیاتِ مُسْتَعار کے قیمتی لمحات فُضولِیات میں برباد کرنے کے بجائے گھر کے بالا خانے (اوپر کی منزل کے کمرے ) میں 60سال تک روزانہ دن اور رات میں ایک ایک قرآنِ کریم پڑھا کرتے ، جب کمزوری و ضعف کی وجہ سے بالا خانے پر بار بار اترنا چڑھنا دُشْوار ہو گیا تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے اُترنا ہی چھوڑ دیا یہاں تک کہ اپنی آخِرَت سَنْوارنے اور رَبّ کو راضی کرنے کے لیے عِبادَت و رِیاضَت میں اس قدر مشغول ہوئے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے 40 برس تک زمین پر پَہْلُو نہ لگایا یعنی مسلسل عِبادَت کے باعِث آرام کو ترک فرما دیا اور جب آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ کا اس جہانِ فانی سے کُوچ کا وَقْت قریب آیا تو آپ کے صاحبزادے اِبراہیم بن ابو بکر رونے لگے ، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے اُن سے ارشاد فرمایا : کیاتمہارے خیال میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ تمہارے باپ کے وہ 40 سال ضائع فرمادے گا جن میں اُس نے ہر شب میں ایک قرآن کریم پڑھا ہے ؟(4)

    وَقْت کی قَدْر کیجئے

    سُبْحٰنَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! پیارے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے ! جو لوگ دنیا میں اپنے وقت کی قدر کرتے ہیں اور منزلِ حقیقی تک پہنچنے کے لیے وافر مقدار میں زادِ راہ اکٹھا کر لیتے ہیں تو اس جہانِ فانی سے کوچ کرتے وقت انہیں کوئی افسوس نہیں ہوتا بلکہ وہ تو بخوشی خود آگے بڑھ کر موت کو بھی اس لیے گلے سے لگاتے ہیں کہ فانی لذتوں سے جان چھڑا کر ابدی نعمتوں کے سائے میں جلد از جلد جا پہنچیں ۔ لہٰذا آپ کا تعلق زِنْدَگی کے کسی بھی شعبے سے ہویہ بات بخوبی جان لیجئے کہ جس مقصد (Aim) کے تحت آپ نے یہ شعبہ اختیار کیا ہے وہ اُسی صُورَت میں حاصِل ہوگا جب آپ اپنے اوقاتِ کار کا دُرُست اِسْتِعمال کرتے ہوئے بھر پُور مِحنَت اور لگن کے ساتھ کوشاں رہیں گے ۔ اس لیے کہ جو اپنے مقصد کو جس قدر زیادہ اہمیت دے گا اور اس کے حصول کے لیے کوشش کرے گا اس کی کامیابی کے اِمْکانات اتنے ہی زیادہ روشن ہوں گے اورجو اس کے برعکس اپنے اَوقات کو فُضُولیات میں برباد کرے گا ناکامی ونامُرادی اس کا مُقَدَّر ٹھہرے گی۔ وقت کی قدر کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بلکہ ہر کوئی اس کی اہمیت کو جانتا ہے مثلاً کوئی طالِب عِلْم چھٹیاں کرتا یا پڑھائی میں سُستی کا مُظاہَرہ کرتا ہے تو اسے ضرور کہا جاتا ہے : ’’یہاں وَقْت کیوں ضائع کررہے ہو؟کوئی کام کاج ہی کرلو، ہوسکتا ہے وہاں کامیاب ہوجاؤ۔‘‘ اسے یہ مشورہ اس لئے دیا جاتا ہے کہ سب جانتے ہیں کہ یوں وَقْت برباد کرکے وہ کبھی عِلْم حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ جو طالِب عِلْم وقت برباد کرتا ہے اس کا مقصود علم حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ وہ تو وقت گزاری کے لیے تعلیمی اداروں میں آتا جاتا ہے اور اپنی زِنْدَگی کے انمول لمحات کو بے مقصد کاموں میں برباد کرتا رہتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جب دنیا میں کوئی بھی حقیر سی شے خواہ وہ پتھر ہی کیوں نہ ہو، بے مقصد پیدا نہیں کی تو کیا انسان کو کسی مقصد کے بغیر ہی پیدا کر دیا ہوگا؟جیسا کہ پارہ 18 سورۃُ المومنون آیت نمبر 115 میں ارشاد ہوتا ہے : اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(۱۱۵) (پ۱۸، المومنون : ۱۱۵) ترجمۂ کنزالایمان : تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں ۔ صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی خزائنُ العرفان میں اس آیتِ مقدّسہ کے تحت فرماتے ہیں : اور (کیا تمہیں ) آخِرت میں جزا کیلئے اُٹھنا نہیں بلکہ تمہیں عِبادَت کیلئے پیدا کیا کہ تم پر عِبادَت لازِم کریں اور آخِرَت میں تم ہماری طرف لوٹ کر آؤ تو تمہیں تمہارے اَعْمال کی جَزا دیں ۔ (5)

    ہمارا مقصدِحَیات

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہمیں عبادت واطاعت کے ذریعے اپنی رضا حاصِل کرنے کے لیے زِنْدَگی کی اَنْمَول نعمت سے نوازا ہے ، پس جس شخص کی زِنْدَگی میں بندگی نہ ہو بھلا وہ بھی بندہ ہے ؟ کیونکہ بے بندگی رِضائے خداوندی کے حصول میں سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ چنانچہ موت وحَیات کی پیدائش کا سَبَب پارہ29سورۃُ الملک کی آیت نمبر 2 میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے : الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ- (پ۲۹، الملک : ۲) ترجمۂ کنزالایمان : وہ جس نے موت اور زِنْدَگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے ۔ صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں (کس کا کام اچھا ہے سے مُراد یہ ہے ) کہ کون زیادہ مُطِیع اور مخلص ہے ۔ (6) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا دُنیا ایک امتحان گاہ ہے جس میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہمیں آخرت میں ہونے والے امتحان کی تیاری کے لئے پیدا فرمایا ہے تاکہ بروزِ قیامت یہ معلوم ہو سکے کہ ہم میں سے کون اطاعتِ خداوندی کا پیکر بنا رہا اور کس کا شمار نافرمانوں میں رہا۔ ہمیں اس امتحان کی تیاری کے لیے پیدائش سے لے کر موت تک کا جو مخصوص وَقْت دیا گیا ہے ہمیں اِسی دورانیے (Duration) میں اپنی اجتماعی اور اِنْفِرادِی زِنْدَگی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے بسر کرنی ہے اور یہی ہمارا ’’مقصدِ حیات ‘‘ہے ۔
    1 مبلغ دعوتِ اسلامی و نگرانِ مرکزی مجلسِ شوریٰ حضرت مولانا حاجی ابو حامد محمد عمران عطاری مَدَّ ظِلُّہُ الْعَالِی نے یہ بیان ۱۲شوال المکرم ۱۴۲۹؁ھ بمطابق 13 اکتوبر 2008 ؁ء کو تبلیغ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ باب المدینہ (کراچی) میں میڈیکل کے طالب علم اسلامی بھائیوں کے سنتوں بھرے اجتماع میں فرمایا۔ ۱۶ رمضان المبارک ۱۴۳۳ ھـ بمطابق 05 اگست 2012ء کو ضروری ترمیم و اضافے کے بعد تحریری صورت میں پیش کیا جا رہا ہے ۔ (شعبہ رسائل دعوتِ اسلامی مجلس المدینۃ العلمیہ ) 2 کنزالعمال ، کتاب الصحبۃ ، الباب الرابع ، حق المجالس والجلوس ، الجزء التاسع ، ۵ / ۶۰، حدیث : ۲۵۴۱۰ 3 انمول ہیرے ، ص ۲ 4 صفۃ الصفوۃ ، ومن الطبقۃ السابقہ ، ابو بکر بن عیاش ، الجزء الثالث ، ۲ / ۱۰۹ ملتقطاً 5 خزائن العرفان ، پ۱۸، المومنون ، تحت الآیۃ ۱۱۵ 6 خزائن العرفان ، پ۲۹، الملک ، تحت الآیۃ ۲

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن