30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط
مزارات پر حاضری کا طریقہ ([1])
شیطان لاکھ سُستی دِلائے یہ رِسالہ(۲۴صَفحات) مکمل پڑھ لیجیے اِنْ شَآءَ اللّٰہ معلومات کا اَنمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔
فَرمانِ مصطفےٰصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہے: جس نے مجھ پر صبح شام دَس دَس بار دُرُودِ پاک پڑھا اُسے قىامت کے دِن مىرى شَفاعت ملے گى۔ ([2])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
سُوال: اَولىائے کِرام رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِم کے مَزارات پر حاضرى کا طرىقہ کىا ہونا چاہىے؟ (نگرانِ شُوریٰ کا سُوال)
جواب: کسى ولى کے مزار شریف پر حاضرى کا طرىقہ ىہ ہے کہ اگر ممکن ہوتو پائنتى یعنی قدموں کى طرف سے آئے۔ چہرۂ مُبارَکہ کى طرف مُنہ اور کعبے کى طرف پىٹھ کر کے کھڑا ہو۔ کم و بىش چار ہاتھ ىعنى دو گز دور رہے۔ اگر کوئى بالکل قرىب چلا گىا ىا زىادہ دُور رہ گىا تب بھى کوئى گناہ نہىں ہے۔ تلاوت اور دِیگر عبادات کرنے والے کو تشویش نہ ہو اِس لیے دَرمىانی آواز میں اِس طرح سلام عرض کرے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدِ ىْ ىعنى اے مىرے آقا! آپ پر سَلام ہو۔ ([3])اب اىک بار سُورۂ فاتحہ ، 11 مَرتبہ قُلْ ھُوَ اللہ شرىف اَوّل وآخر تىن تىن بار دُرُودِ پاک پڑھ کر اِىصالِ ثواب کرىں۔ اِیصالِ ثواب کے لیے یہی پڑھنا لازمی نہیں ہے بلکہ کچھ بھی پڑھ سکتے ہیں مثلاً اىک بار دُرُود شرىف پڑھ کر بھى اِىصالِ ثواب ہو سکتا ہے بلکہ نمازىں ، روزے ، حج ، عمرہ ، نیکی کى دعوت ، اِنفرادى کوشش، راستے سے کوئى پتھر وغىرہ ہٹا دىا تاکہ مسلمانوں کو تکلىف نہ ہو، سُنَّتوں بھرے اِجتماع اور مَدَنی مذاکرے میں شرکت اَلغرض کسی بھی نیک کام کا اِیصالِ ثواب کیا جا سکتا ہے لہٰذا اِس طرح کے نیک کاموں کا ثواب صاحبِ مزار کى بارگاہ مىں نذر کر دىں۔ پھر واپس ہوتے ہوئے اُلٹے قدموں پلٹیں تاکہ مزار شریف کو پیٹھ نہ ہو۔
مزارات کا اَدب و اِحترام کس حَد تک کیا جائے؟
سُوال: مزارات کا اَدب و اِحترام کس حَد تک کیا جا سکتا ہے ؟ ([4])
جواب: مزارات کے اَدب و اِحترام اور کسی سے عقىدت و محبت اور نسبت کے سبب اُس کے اَدب و اِحترام میں اِس حَد تک بڑھنے کى اِجازت ہے جب تک شرىعت کا کوئى اسپىڈ برىکر نہ آجائے مثلاً اَدب وتعظیم کے پیشِ نظر کسی کو سجدہ نہیں کر سکتے کہ یہاں شریعت کی طرف سے ممانعت موجود ہے۔ ([5])باقی اَدب و تعظیم کا ہر وہ کام جس سے شریعت نے منع نہیں کیا وہ خودبخود جائز ہے اگرچہ قرآنِ پاک اور اَحادیثِ مُبارَکہ میں اس کی صَراحت نہ ملتی ہو ۔ بزرگانِ دِین رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہم نے ایسے کام کیے بھی ہیں مثلاً مىرے مُرشِد اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِسنَّت، مُجَدِّدِ دِین ومِلَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خانرَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہىں کہ مىں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اور مجھے بغداد شرىف کی سَمت کا پتا چلا ہے تو میں نے اس طرف کبھى جان بوجھ کر پاؤں نہىں کىے کہ مىرے پىر و مُرشِد کا مزار اس طرف ہے اور آپ قادریوں کے مُرشِد ہیں۔ ([6])اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ حضور غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِکے اَدب کی وجہ سے اس سَمت پاؤں نہیں کرتے تھے۔ اِس سے وہ لوگ عبرت حاصل کریں جو کَعْبَۂ مُعَظَّمَہ اور مدىنہ شریف کى طرف پاؤں پھیلانے سے بھی نہیں چونکتے ، انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ باادب بانصىب۔ ایسا ہی اَدب و اِحترام پر مشتمل ایک واقعہ حضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم اَبُوحنىفہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِکے بارے میں بھی منقول ہے چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کے اُستادِ گرامی کا مکانِ عالیشان سات گلىاں چھوڑ کر تھا لیکن پھر بھی آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ اَدب کی وجہ سے اُس طرف پاؤں نہیں پھیلاتے تھے۔ ([7])اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان اور امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِما تو اتنی دور سے بھی اپنے بزرگوں کی طرف پاؤں نہ کریں اور ہم اتنے قریب سے مزار شریف کی طرف پیٹھ کرلیں تو یہ مُناسب نہیں ہے۔
[1] یہ رِسالہ۲ رَجَبُ الْمُرَجَّب ۱۴۴۰ھ بمطابق 09 مارچ 2019 کو عالمی مَدَنی مَرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ(کراچی) میں ہونے والے مَدَنی مذاکرے کا تحریری گلدستہ ہے، جسے اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَّۃ کے شعبے’’فیضانِ مَدَنی مذاکرہ‘‘نے مُرتَّب کیا ہے۔ (شعبہ فیضانِ مَدَنی مذاکرہ)
[2] مجمع الزوائد، کتاب الاذکار، باب ما یقول اذا اصبح و اذا امسی، ۱۰/ ۱۶۳، حدیث: ۱۷۰۲۲ دار الفکر بیروت
[3] فتاویٰ رضویہ، ۹/ ۵۲۲ ماخوذاً رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیا لاہور
[4] یہ سُوال شعبہ فیضانِ مَدَنی مذاکرہ کی طرف سے قائم کیا گیا ہے جبکہ جواب امیر اہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا عطا فرمودہ ہی ہے ۔ (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ)
[5] فتاویٰ رضویہ، ۲۲/ ۴۷۶-کفریہ کلمات کے بارے میں سُوال جواب، ص۶۰۳ماخوذاً مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
[6] سوانح امام احمد رضا، ص۱۱۷ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر
[7] حضرت سیدنا امام اعظم، ص۹۲ زاویہ پبلشرز مرکز الاولیا لاہور
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع