Misli Aur Qimi Ashiya Ki Pehchan Aur Sharai Ahkam
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
Type 1 or more characters for results.
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Misli Aur Qimi Ashiya Ki Pehchan Aur Sharai Ahkam | مثلی اور قیمی اشیاء کی پہچان اور شرعی احکام

misli aur qeemi ashiya ki janib taqseem ke bare me bayan

مثلی اور قیمی اشیاء کی پہچان اور شرعی احکام
            
مقدمہ مال کوانسانی زندگی میں خاص اہمیت حاصل ہے،عام طور پر ضروریاتِ زندگی اورخواہشات کا حصول اسی کے ذریعہ ممکن ہوتاہے۔مال کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:) وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا (ترجمہ کنز العرفان:’’اور کم عقلوں کو ان کے وہ مال نہ دو، جسے اللہ نے تمہارے لئے گزر بسر کا ذریعہ بنایا ہے۔‘‘ ( پ4،س النساء،آیت5 ) یہی وجہ ہے کہ انسان فطرتاً مال سے محبت کرتا اور اسے جمع کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔انسانی زندگی کے ساتھ مال کے اس گہرے تعلق کے پیشِ نظر شریعتِ مطہرہ نے اسے حاصل کرنے کےاصول و ضوابط مقرر کیے اور ان پر عمل کرنے کی تاکید بھی فرمائی،تاکہ معاشرے میں بگاڑ پیدا نہ ہو۔ ناحق طریقے سے دوسروں کا مال کھانے کے متعلق اللہ پاک ارشادفرماتا ہے: ) وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (ترجمہ کنز العرفان:’’ اور آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاؤ ۔‘‘ ) پ2،س البقرۃ،آیت188 ( اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ لا یحل لامرء ان یاخذ مال اخیہ بغیر حقہ وذلک لما حرم اللہ مال المسلم علی المسلم ‘‘ترجمہ:کسی مرد کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کا مال ناحق طریقے سے حاصل کرے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا مال حرام فرمایا ہے۔ ) مسند امام احمد بن حنبل، جلد39،صفحہ19،مؤسسۃ الرسالہ،بیروت ( شرعی اصول و قوانین موجود ہونےکے باوجود بھی بعض افراد حق اللہ یاحق العبد کو پسِ پشت ڈال کر ممنوع طریقے سے مال حاصل کرلیتے ہیں ،مثلاً: کسی کی کوئی چیز چُرا لی یا چھین لی وغیرہ،تو یوں مال حاصل کرلینے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اب وہ مال انہیں کے پاس رہے گا،بلکہ اس بارے میں بھی شرعی احکام موجود ہیں اور وہ یہ کہ اگر وہ چیز اسی حالت میں موجود ہو،تو بعینہ وہی چیز مالک کو لوٹا دی جائے ۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مختلف وجوہات کی بنیاد پہ اس چیز کو واپس کرنا ، ممکن نہیں ہوتا،مثلاً: وہ چیز ہلاک/ ضائع ہو گئی ،تو اب اگر اسے یہ کہہ دیا جائے کہ تمہاری چیز تو اب فنا ہو چکی ہے اور بعینہ وہی چیز تمہیں لا کر دینا ممکن نہیں رہا، لہذا اب تمہارے نقصان کی تلافی نہیں ہو سکتی ، تو یہ ایک غیرمعقول بات ہو گی اور یہ چیز معاشرے میں فساد کا باعث بنے گی ، لہذا ہماری شریعت نے ایسی صورت میں بھی مالک کا نقصان پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے لیے حتی الامکان وہ متبادل حل اختیار کرنے کا کہا، جو نقصان پورا کرنے کے زیادہ سے زیادہ قریب ہو، مثلاً: ایک حل یہ ہے کہ اگر اسی طرح کی ملتی جلتی چیز مارکیٹ سے لا کر اس کو دینا ممکن ہے، تو نقصان پورا کرنے کی یہ صورت اختیار کی جائےاور دوسرا حل یہ ہے کہ جو چیز ضائع ہو ئی، اس کی قیمت لگا کر اتنی رقم اسے دے دی جائے،تاکہ حتی الامکان نقصان کی تلافی ہو سکے۔پہلا حل اس طرح کی چیزوں میں ممکن ہوتا ہے جن کو” مثلی “ کہا جاتا ہےاور دوسرا حل وہاں اختیار کیا جاتا ہے ،جہاں ضائع ہونے والی چیز مثلی نہ ہو ، بلکہ ’’قیمی “ ہو ۔ ایسے مواقع پر یہ معلومات بہت اہم ہوتی ہے کہ وہ کونسی چیزیں ہیں جنہیں ”مثلی “کہا جائے اور وہ کونسی ہیں جنہیں” قیمی“ کہا جائے؟ اگر اس فرق کا علم نہیں ہوگا،تو ممکن ہے کہ اس چیز کو ہلاک کرنے والامثلی چیزوں میں بھی مالک کو ہلاک شدہ چیز کی قیمت لینے پر مجبور کرے یا مالک قیمی چیزوں میں بھی دوسرےکو مجبور کرے کہ وہ اس کی مثل لا کر دے ،حالانکہ اس طرح کا تقاضا عقلی و شرعی اصولوں کے برخلاف ہو گا۔ مذکورہ بالا تناظر سے ہٹ کر فقہی و شرعی احکا م میں کئی جگہ پر عمل کے جائز ہونے یا نہ ہونے کی بنیاد ہی چیز کے” مثلی “یا ”قیمی “ہونے پر ہوتی ہے، مثلا: ایک عام اور کثیر پیش آنے والا معاملہ ’’ قرض کا لین دین ‘‘ ہے ۔ اس میں فقہ حنفی کا اصول ہی یہی ہے کہ” مثلی اشیاء“ بطور قرض لی جاسکتی ہیں اور ”قیمی اشیاء“ کو بطور قرض لینا درست نہیں۔تو مثلی اور قیمی اشیاء کی پہچان نہ ہونے کی وجہ سے غلطی اور گناہ میں مبتلا ہونے کا قوی امکان باقی رہے گا۔ الغرض شریعت مطہرہ کے کثیر مسائل کو درست طریقہ سے سمجھنے ، حل کرنےاور ان پر عمل کرنے کے لیے چیز کے مثلی اور قیمی ہونے کی پہچان ہونا بہت ضروری ہے ۔علاوہ ازیںعام طور پرکتبِ فقہ میں مثلی اور قیمی اشیاء کے متعلق ایک ہی مقام پر مختلف احکام اور ان کی تفصیل نہیں ملتی اور بعض مقامات پر تو فقہاء فقط اتنا فرما دیتے ہیں کہ ’’فلاں معاملہ مثلی اور فلاں معاملہ قیمی چیزوں ہی میں درست ہے“،”اس کی مثل لازم ہوگی۔“،”اس کی قیمت دینی ہوگی۔“ ،”فلاں چیز مثلی یا ذوات الامثال میں سے اور فلاں قیمی یا ذوات القِیَم میں سے ہے۔“وغیرہ اور بسا اوقات تو ایک چیز کو ایک جگہ مثلی کہا جاتا ہے اور دوسری جگہ اسی کو قیمی کہہ دیاجاتا ہے،پھر زمانے کے بدلنے سے بھی بعض چیزوں کے حکم میں فرق آجاتا ہے،جس کی وجہ سے ذہن میں تشویش پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس تمام تر صورتِ حال کے پیشِ نظر استادِ محترم،شیخ الحدیث والتفسیر،حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قاسم عطاری دامت برکاتہم العالیہ نے مثلی اور قیمی اشیاء سے متعلق مختلف اعتبار سے کام کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس پر کام شروع کیاگیا،جو بحمداللہ تعالی پایہ تکمیل تک پہنچااوراب کتاب کی صورت میں آپ کے سامنے موجود ہے۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ نئے موضوع پر مشتمل مواد کی تفتیش کرنا انتہائی مشکل اور محنت طلب کام ہوتا ہے،بالخصوص اس موضوع کے کئی مسائل میں فقہاء کے ایک سے زائد اقوال اور مختلف عبارات ملتی ہوں،ایسے میں ان اقوال و عبارات اور تمام تر شرعی احتیاطوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مسائل کی تنقیح کرنا یقیناً اہلِ علم کا حصہ ہے۔اللہ پاک اس کتاب کے اصل محرّک استادِ محترم ،مفتی محمد قاسم عطاری دامت برکاتہم العالیہ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آسانی کے پیشِ نظر اس کتاب کو ابواب اوران کے تحت فصلوں میں تقسیم کردیاہے،پھر ان میں مثلی اور قیمی اشیاء سے متعلق مختلف امور،مثلاً:اشیاء کی مثلی اور قیمی کی جانب تقسیم،مثلی اور قیمی اشیاء کی تعریف ، ان کی پہچان ،ان میں تبدیلی واقع ہونے ،نیزان سے متعلق متفرق احکام ومسائل پر بحث کی گئی ہے۔اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اس ادنی سی کاوش کو اپنی پاک بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور اسے امت کے لیے نفع بخش بنائے۔آمین فرحان افضل عطاری دار الافتاء اہلسنت، راولپنڈی 12 جنوری 2022

پہلا باب

(مثلی اور قیمی اشیاءکی بنیادی معلومات کے بارے میں) پہلی فصل (اشیاء کی مثلی اور قیمی کی جانب تقسیم کے بارے میں) کتبِ فقہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے افراد بخوبی جانتے ہیں کہ شریعتِ مطہرہ کے کثیر مسائل میں اشیاء کی دو قسمیں کی جاتی ہیں :مِثلی اور قِیمی۔پھر اس اعتبار سے ان پر احکام مرتب ہوتے ہیں۔عام طور پر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فقہاء نے یہ تقسیم کہاں سے لی ہے؟کیا اس تقسیم کا ماخذ قرآن و حدیث سے ملتا ہے ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ اشیاء کے مثلی اور قیمی ہونے کی یہ تقسیم قرآن و حدیث سے ماخوذ( لی گئی) ہے،جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

اشیاءکے مثلی اور قیمی ہونے کی تقسیم پر قرآنی آیات:

پہلی آیت:

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:) فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ۪(ترجمہ: کنز العرفان:’’ توجو تم پر زیادتی کرے، اس پر اتنی ہی زیادتی کرو،جتنی اس نے تم پر زیادتی کی ہو۔‘‘ ) پ2،س البقرہ،آیت194 (

اس آیت سے استدلال:

اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ جو تم پر زیادتی کرے،تم اس پر اس کی’’ مِثل‘‘ہی زیادتی کرو، یعنی اس سے بڑھ کر نہ کرو۔حقیقت میں یہ آیت کفار سے (ان کی مسلمانوں پر کی گئی زیادتیوں کا)بدلہ لینےکے متعلق نازل ہوئی،لیکن فقہاء نے اس میں موجود لفظِ ’’مِثل ‘‘سے اس چیز پر بھی استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی کوئی چیز ہلاک کر دے،تو چیز کا مالک اس سے اپنی چیز کی مثل ہی وصول کرے،اس سے بڑھ کر نہ لے۔یہاں چیز کا متبادل اس کی ”مثل“ کو قرار دیا گیا ہے۔ پھر مثل دو طرح کی ہوتی ہے: (1)مثلِ کامل :جو صورتاً اور معناً یعنی جنس اور قیمت کے اعتبار سے بھی دوسری چیز کی مثل ہو،مثلاً کسی کی گندم ہلاک کی اوربدلے میں بالکل اسی طرح کی اسے گندم دے دی،تو اب گندم جنس کے اعتبار سے اور قیمت کے اعتبار سے بھی ہلاک شدہ گندم کی مثل ہے۔جنس کے اعتبار سے اس طرح کہ دونوں طرف گندم ہے اورقیمت کے اعتبار سے یوں کہ ان دونوں کی قیمت بھی ایک جیسی ہے۔ (2)مثلِ قاصر:وہ جو صورتاًتو دوسری چیز کی مثل نہ ہو،لیکن معناً ہو،مثلاًکسی کا کوئی جانور ہلاک کر دیااور اس کے بدلے میں اس جانور کی قیمت مالک کو دے دی،تو اب قیمت جنس کے اعتبار سے تو جانور کی مثل نہیں،کہ وہ جانور ہے اور یہ رقم وغیرہ، لیکن معناًاس کی مثل ضرور ہے،کہ اس جانور کی قیمت اتنی ہی بنتی ہے۔(1) فقہائے کرام نے فرمایا کہ آیت میں موجود لفظِ ’’مثل‘‘ مطلق ہے اور یہ دونوں طرح کی مثل کو شامل ہے،کیونکہ کئی چیزوں کی مثلِ کامل موجود ہوتی ہے اور کئی چیزوں کی نہیں ہوتی ،جن چیزوں کی مثلِ کامل موجود نہیں ہوتی ،ان میں مثلِ قاصر دی جاتی ہے،لہذا یہ دونوں کو شامل ہے۔(2) اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے محقق علی الاطلاق علامہ کمال ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالی علیہ(سالِ وفات:861ھ) لکھتے ہیں : ’’ المعهود فی الشرع فی اطلاق لفظ المثل ان يراد المشارك فی النوع او القيمة، قال تعالى فی ضمان العدوان: ) فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ۪( والمراد الاعم منهمااعنی: المماثل فی النوع اذا كان المتلف مثليا والقيمة اذا كان قيميا بناء على انه مشترك معنوی ‘‘ترجمہ:اور لفظِ مثل کو مطلق ذکر کرنےمیں شرع میں یہ معروف ہے کہ اس سے نوع یا قیمت میں مماثلت مراد لی جائےگی۔اللہ پاک زیادتی کے ضمان میں فرماتا ہے: توجو تم پر زیادتی کرے، اس پر اتنی ہی زیادتی کرو،جتنی اس نے تم پر زیادتی کی ہواورمراد یہ ہے کہ جو دونوں کو عام ہو ،یعنی نوع میں ہم مثل چیز کو، جبکہ ہلاک شدہ چیز مثلی ہواور قیمت میں ہم مثل چیز کوبھی،جبکہ ہلاک شدہ چیز قیمی ہو،بناء کرتے ہوئے اس چیز پر کہ لفظِ مثل مشترک معنوی ہے۔ ) فتح القدیر،ج3،ص75،مطبوعہ دار الفکر ( مزید اسی کتاب میں کافی کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’ ان المثل نوعان: كامل وهو المثل صورة ومعنى وهو الاصل فی ضمان العدوان حتى صار بمنزلة الاصل وقاصر وهو المثل معنى وهو القيمة، والقاصر لا يكون مشروعا مع احتمال الاصل، لانه خلف عن المثل الكامل ‘‘ترجمہ:بے شک مثل دوطرح کی ہوتی ہے۔مثلِ کامل:یہ وہ ہے جو صورتاً (یعنی دیکھنے کے اعتبار سے)اور معناً(یعنی قیمت کے اعتبار سے)ایک جیسی ہواور مختلف کوتاہیوں کے ضمان میں یہی اصل ہے،یہاں تک کہ ایسی مثل اصل کی منزلت میں ہوجائے گی۔مثلِ قاصر:یہ وہ ہے جو معناً ہم مثل ہواوریہ قیمت ہےاور مثل ِ قاصر اصل(یعنی مثلِ کامل ) کی موجودگی میں مشروع نہیں ،کیونکہ یہ مثلِ کامل کا خلیفہ ہے۔ ( فتح القدیر،ج9،ص321،مطبوعہ دار الفکر ) امام سرخسی رحمۃ اللہ تعالی علیہ(سالِ وفات:483ھ)اسی آیت کے تناظر میں کسی دوسرے کی چیز غصب(چھین) کر کے ہلاک کر دینے کا ایک مسئلہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ ان المغصوب اذا كان من ذوات الامثال كالمكيل والموزون فعليه المثل عندنا۔۔ قال اللہ تعالى: ) فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ۪( ولان المقصود هو الجبران وذلك فی المثل اتم، لان فيه مراعاة الجنس والمالية وفی القيمة مراعاة المالية فقط، فكان ايجاب المثل اعدل،الا اذا تعذر ذلك بالانقطاع من ايدی الناس فحينئذ يصار الى المثل القاصر وهو القيمة للضرورة ‘‘ترجمہ:غصب شدہ چیز جب ذوات الامثال (مثلی چیزوں)میں سے ہو،جیسا کہ مکیلی اور موزونی چیزیں،تو ہمارے نزدیک غصب کرنے والے پر اس کی مثل لازم ہوگی۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:” توجو تم پر زیادتی کرے، اس پر اتنی ہی زیادتی کرو،جتنی اس نے تم پر زیادتی کی ہو۔“اور مثل لازم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مقصود نقصان کو پورا کرنا ہے اور یہ مثل دینے کی صورت میں زیادہ کامل طریقہ سے پورا ہوگا،کیونکہ اس میں جنس اور مالیت دونوں کی رعایت ہے اور قیمت میں فقط مالیت کی رعایت ہے،تو چیز کی مثل ، لازم کرنے میں زیادہ عدل ہے،مگر جب لوگوں کے ہاتھوں سے مثل منقطع ہوجانے کے سبب اس کی ادائیگی متعذر ہو،تو اس وقت ضرورت کے پیشِ نظر مثلِ قاصر کی طرف رجوع کیا جائے گا اور وہ قیمت ہے۔ ( مبسوطِ سرخسی، ج11،ص50،مطبوعہ دار المعرفہ،بیروت ) دوسری آیت: ایک اور آیت میں موجود لفظِ ’’مِثل ‘‘سے علماء نے استدلال کیا ہے۔اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے) وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ(ترجمہ کنز العرفان:’’اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے۔‘‘ ) پ25،س الشوریٰ ،آیت40 ( اس آیت سے استدلال: اس آیت میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی برائی ( جرم) کرتا ہے،تو اس کی برائی ( جرم) کی’’مِثل‘‘ہی اس کا بدلہ ہے۔یعنی بدلے میں اس سے بڑھ کر سزا نہیں دی جا سکتی۔علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں دین کا بہت بڑا اصول بیان فرمایا گیا ہے اور اس سے دین کے بہت سے مسئلے معلوم ہوتے ہیں،بالخصوص یہ رہنمائی ملتی ہے کہ ہر طرح کے جرم ، زیادتی اور ظلم کے بدلے میں برابری اور ”مثل “کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ اسی آیت کے تحت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ(سالِ وفات:606ھ)ارشاد فرماتے ہیں:’’ هذه الآية اصل كبير فی علم الفقه، فان مقتضاها ان تقابل كل جناية بمثلها، وذلك لان الاهدار يوجب فتح باب الشر والعدوان، لان فی طبع كل احد الظلم والبغی والعدوان، فاذا لم يزجر عنه اقدم عليه ولم يتركه، واما الزيادة على قدر الذنب،فهو ظلم والشرع منزه عنه، فلم يبق الا ان يقابل بالمثل، ثم تاكد هذا النص بنصوص آخر، كقوله تعالى: )وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوۡا بِمِثْلِ مَا عُوۡقِبْتُمۡ بِہ( وقوله تعالى: )مَنْ عَمِلَ سَیِّئَۃً فَلَا یُجْزٰۤی اِلَّا مِثْلَہَا(ترجمہ:یہ آیت علم فقہ میں(کئی مسائل کی)بہت بڑی دلیل ہے،کیونکہ اس کا مقتضی یہ ہے کہ ہر جُرم کامقابلہ اس کی مثل کے ساتھ کیا جائے گااور یہ اس وجہ سے ہے ،کہ جُرم کو ویسے ہی چھوڑ دینا برائی اور ظلم کا دروازہ کھولنے کا سبب بنے گا،اس لیے کہ ہر انسان کی طبیعت میں ظلم،فساد اور زیادتی کا پہلو موجود ہوتا ہے،پس جب اسے اس سے روکا نہیں جائے گا،تو وہ اس پر دلیرہو جائے گا اور اسے نہیں چھوڑے گا۔بہرحال (بدلے میں )جرم کی مقدار سے اضافہ کرنا ،تویہ بھی ظلم ہے اور شریعتِ مطہرہ اس سے پاک ہے،پس یہی صورت باقی بچی کہ اس جرم کا مقابلہ مثل کے ساتھ ہو،پھر اس آیت کو دیگر آیات سے بھی تائید حاصل ہے،جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:اور اگر تم (کسی کو)سزا دینے لگو، تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہواور اللہ پاک کا فرمان ہے:جو بُرا کام کرے،تو اسے بدلہ نہ ملے گا، مگر اتنا ہی۔ ( تفسیرِ کبیر،ج27،ص605،مطبوعہ دار احیاء التراث،بیروت ) تیسری آیت: جن چیزوں کی ہو بہو مثل نہیں ملتی، ان چیزوں کا بدلہ دینے کے لیے ان چیزوں کی قیمت(مارکیٹ ویلیو کے حساب سے) دی جاتی ہے۔ اس حکم پر دلیل کے طور پر فقہائے کرام درج ذیل آیت کو پیش کرتے ہیں ۔ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌؕ-وَ مَنْ قَتَلَهٗ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْكُمُ بِهٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ (ترجمہ کنز العرفان:’’اے ایما ن والو!حالتِ احرام میں شکار کو قتل نہ کرو اور تم میں جو اسے قصداً قتل کرے، تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ مویشیوں میں سے اسی طرح کا وہ جانور دیدے جس کے شکار کی مثل ہونے کا تم میں سے دو معتبر آدمی فیصلہ کریں ۔ ) پ7،س المائدہ،آیت95 ( اس آیت سے استدلال: اس آیت کے تحت علماء نے فرمایا کہ اگر کسی نے احرام کی حالت میں خشکی کے وحشی جانور کا شکار کیا ،تو اس پر کفارہ واجب ہے اور کفارہ میں اس جانور کی قیمت دینی ہوگی(3)۔ اس مسئلہ میں شکار کی قیمت لازم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:احرام کی حالت میں شکار کرنے کا کفارہ اس کی ’’مِثل ‘‘کے ساتھ ادا ہو گا ۔یہاں لفظِ ’’مِثل‘‘مطلق ہے اور جب اسے مطلق بولا جائے،تو یہ دونوں طرح کی ’’مثل‘‘یعنی ’’مثلِ کامل‘‘ اور ’’مثل ِ ناقص(4)‘‘ کو بھی شامل ہوتا ہے۔جہاں ’’مثلِ کامل ‘‘ادا کرنا ، ممکن ہو،تو وہاں وہی ادا کی جاتی ہے اور جہاں ’’مثلِ کامل ‘‘ادا کرنا ، ممکن نہ ہو،تو وہاں ’’مثلِ قاصر‘‘یعنی اس چیز کی قیمت ادا کی جاتی ہے۔اس مسئلہ میں مثلِ کامل یعنی شکار جیساکوئی دوسرا جانور کفارے میں دینا ممکن نہیں،کیونکہ ایک ہی جنس کے جانور بھی قدرتی طور پر ایک دوسرے سےضرور مختلف ہوتے ہیں، جیسے ایک ہرن دوسرے ہرن سے اپنے اوصاف(رنگ،نسل اورقدوغیرہ) کے اعتبار سے لازمی طور پر مختلف ہوگا۔پس جب ایک ہی جنس کے جانور ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں،تو جنس تبدیل ہوجانے کی صورت میں ان کے درمیان مماثلت اور مشابہت بدرجہ اولیٰ باقی نہیں رہے گی،جیسے اگر ہرن کے شکار کے کفارے میں بکری لازم کریں گے،تو یہ مثل کے ساتھ کفارہ نہیں ہوگا،حالانکہ ہمیں مثل کے ساتھ کفارہ ادا کرنے کا حکم دیاگیاہے۔ لہذایہاں ’’مثلِ کامل ‘‘ کی ادائیگی ممکن نہ ہونے کی وجہ سے ثابت ہوا کہ اس آیت میں ’’مثل ‘‘سے مراد’’مثل قاصر‘‘یعنی اس شکار کی قیمت ہے۔ اس مسئلہ کی مکمل تفصیل کنز الدقائق اور اس کی شرح تبیین الحقائق میں یوں بیان کی گئی ہے:’’( ان قتل محرم صيدا او دل عليه من قتله فعليه الجزاء ) ۔۔۔ الجزاء قيمة الصيد ۔۔ وهذا عند ابی حنيفة وابی يوسف ۔۔۔ ولابی حنيفة وابی يوسف:ان الواجب هو المثل، والمثل المطلق هو المثل صورة ومعنى وعند تعذره يعتبر المثل معنى، واما المثل صورة بلا معنى فلا يعتبر شرعا، مثاله اذا اتلف مال انسان يجب عليه مثله ان كان مثليا، لانه المثل صورة ومعنى، والا فقيمته، لانه مثله معنى ويقوم مقامه، ولا يعتبر مثله صورة فی الشرع حتى لو اتلف دابة لا يجب عليه دابة مثلها مع اتحاد الجنس، لعدم امكان المماثلة، لاختلاف المعانی فيها، فما ظنك مع اختلاف الجنس، فاذا لم تكن البقرة مثلا للبقرة، فكيف تكون مثلا لحمار الوحش؟ وكيف تكون الشاة مثلا للظبی؟ وهی لا تكون مثلا للشاة مع اتحاد الجنس، وفساد هذا لا يخفى على احد، وهنا تعذر حمله على المثل صورة ومعنى فوجب حمله على المثل معنى، وهو القيمة،لكونه معهودا فی الشرع او لكونه مرادا بالاجماع، لان ما لا نظير له تجب فيه القيمة ‘‘ترجمہ:اگر محرم نے خودشکار کو قتل کیایا جس نے قتل کیا اس کی شکار کرنے پر رہنمائی کی،تو اس پر کفارہ لازم ہے اور کفارہ اس شکار کی قیمت ہے اور یہ امام اعظم اور امام ابو یوسف علیہما الرحمۃ کے نزدیک ہے۔ان ائمہ کی دلیل یہ ہے کہ یہاں مثل دینا واجب ہے اور مطلق مثل وہ صورتاً اور معناً مثل ہے اور اس کے متعذر ہونے کے وقت معناً مثل کا اعتبار کیا جاتا ہے۔بہر حال معناً مثل کے بغیر فقط صورتاًمثل کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا۔اس کی مثال یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی مال ضائع کر دیا ،تو اس کی مثل لازم ہے،جبکہ وہ مثلی ہو،کیونکہ یہ صورتاً اور معناً مثل ہے ،ورنہ (اگر مثلی نہ ہو،تو)اس کی قیمت لازم ہے،کیونکہ یہ معناً مثل ہے اور اس چیز کے قائم مقام ہے اور شریعت میں فقط صورتاً اس کی مثل کا اعتبار نہیں کیا جائے گا،یہاں تک کہ اگر کسی کا کوئی جانور ہلاک کر دیا،تو اس پر اس کی مثل جانور لازم نہیں ہوگا،حالانکہ دونوں کی جنس ایک ہے،کیونکہ یہاں مماثلت ممکن نہیں ،کہ ان میں معانی مختلف ہیں۔ پس جہاں جنس ہی مختلف ہو،تو وہاں مثل لازم کرنے کے معاملہ میں تیرا کیا گمان ہے(جیسا کہ امام شافعی نے کیا ہے،کیونکہ ان کے نزدیک اگر محرم نے ہرن کا شکار کیا،تو اس کے بدلہ میں اس کی مثل جانور یعنی بکری لازم ہے۔) پس جب ایک گائے دوسری گائے کی مثل نہیں،تو وہ حمارِ وحشی کی مثل کیسے ہوگی؟اور بکری کیسے ہرن کی مثل ہوگی،حالانکہ جنس ایک ہونے کے باوجود یہ دوسری بکری کی بھی مثل نہیں؟اور اس (ہرن کے مقابلہ میں بکری لازم کرنے وغیرہ )کا فساد کسی پر مخفی نہیں اوریہاں (آیت میں موجود لفظِ مثل کو)صورتاً اور معناً مثل پر محمول کرنا متعذر ہے،تو اسے فقط معناً مثل پر محمول کیا جائے گا اور وہ قیمت ہے اور شرع میں یہ معروف بھی ہے یا معناً مثل مراد ہونے پر اجماع ہے،کیونکہ جس کی مثل نہیں ہوتی،اس میں قیمت واجب ہوتی ہے۔ ( تبیین الحقائق،ج2،ص64،مطبوعہ ملتان )

اشیاءکے مثلی اور قیمی ہونے کی تقسیم پر حدیثِ پاک:

احادیثِ طیبہ میں بھی جہاں دوسرے کی چیز کےتاوان میں اسے قیمت دینے کا کہاگیاہے،توفقہاء نے اس سے یہ استدلال کیا کہ جو چیز مثلی نہیں اس کی قیمت مالک کو دی جائے گی۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’
من اعتق شقصا له فی عبد فخلاصه فی ماله ان كان له مال، فان لم يكن له مال، استسعی العبد غير مشقوق عليه ‘‘ترجمہ:جس نے مشترکہ غلام میں سے اپنے حصہ کو آزاد کر دیا،تو غلام کی مکمل آزادی اسی کے مال سے ہوگی،اگر اس کے پاس مال ہواور اگر اس کے پاس مال نہ ہو،تو غلام سے کمائی کروائی جائے گی،مگر غلام پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ ) صحیح مسلم،ج2،ص1140،مطبوعہ داراحیاء التراث ( اس حدیثِ پاک سے استدلال: اس حدیثِ پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اگر کوئی شخص مشترکہ غلام کو آزاد کردیتا ہے،توآزاد کرنے والااپنے شریک کو (غلام میں موجود) اس کے حصے کی قیمت دے گا۔فقہاء نے فرمایا کہ یہاں شریک کو اس کے حصے کی ’’مثل‘‘یعنی کسی اور غلام میں اتنا حصہ دینا ممکن نہیں، کیونکہ ہر غلام دوسرے غلام سے قدرتی طور پر مختلف اسباب کی وجہ سے مختلف ہوتا ہے اور پھر اس کے سبب قیمت میں بھی فرق ہوتا ہے،لہذا کسی اور غلام میں اتنا حصہ دینے کے بجائے اسے قیمت دینے کا فرمایاگیااور یہ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ قیمی چیزوں میں قیمت ادا کی جائے گی۔ اس جیسی احادیث سے دلیل پکڑتے ہوئے مبسوطِ سرخسی میں یوں بیان ہوا:’’ نحتج بحديث معروف عن النبی صلى اللہ عليه وسلم انه قال فی عبد بين شريكين يعتقه احدهما: ’’ فان كان موسرا ضمن قيمة نصيب شريكه وان كان معسرا سعى العبد فی قيمة نصيب شريكه غير مشقوق عليه ‘‘ فهذا تنصيص على اعتبار القيمة فيما لا مثل له ‘‘ترجمہ:ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی معروف حدیث سے دلیل پکڑتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کے بارے میں ارشاد فرمایا،جو دو بندوں کے درمیان مشترک ہو اور ان میں سے ایک اسے آزاد کر دے:پس اگر آزاد کرنے والا خوشحال ہو،تو وہ اپنےشریک کے حصہ کی قیمت کا ضامن ہوگااور اگر تنگ دست ہو،تو غلام سے اس شریک کے حصہ کی قیمت کے برابر کمائی کرائی جائے گی،مگر اس کو مشقت میں نہیں ڈالا جائے گا۔پس یہ حدیث ان چیزوں میں قیمت کا اعتبار کرنے پر واضح دلیل ہے کہ جن کی مثل(کامل)نہیں ملتی۔ ( مبسوطِ سرخسی،ج11،ص51،مطبوعہ دار المعرفہ،بیروت )

قاضی شریح رضی اللہ تعالی عنہ کے فرمان سے استدلال:

فقہاء قاضی شریح رضی اللہ تعالی عنہ کے اس فرمان سے بھی دلیل پکڑتے ہیں کہ جس میں آپ نے قیمی چیزوں کی قیمت لازم ہونے کا فرمایا۔چنانچہ تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے:’’
قال شريح رضی اللہ عنه: من كسر عصا فهی له وعليه قيمتها ‘‘ترجمہ: حضرتِ شریح رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:جس نے کسی کا عصا توڑا ،تو وہ اسی کا ہوگا اور توڑنے والے پر اس کی قیمت لازم ہوگی۔ ( تبیین الحقائق،ج5،ص223،مطبوعہ ملتان ) نتیجہ بحث: مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ فقہائے کرام شرعی احکام میں اشیاء کے مثلی اور قیمی ہونے کی جو تقسیم کرتے ہیں،وہ قرآن و حدیث سے ہی ماخوذ (لی گئی)ہےاور یہ تقسیم نہ صرف عقلی ہے، بلکہ مختلف آیات و احادیث میں اس تقسیم کی طرف واضح رہنمائی موجود ہے۔ دوسری فصل (مثلی اور قیمی اشیاء کی تعریف کے بارے میں) کسی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اس کی تعریف جاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔اس لیے اس فصل میں مثلی اور قیمی اشیاء کی لغوی اور اصطلاحی تعریفات بیان کی جا رہی ہیں ۔ مِثلی کے بارے میں لغوی بحث: لفظِ’’مِثلی‘‘مِثل کی طرف منسوب ہے،یعنی’’مِثل‘‘ کی طرف نسبت کی وجہ سے اسے ’’مثلی‘‘ کہا جاتا ہے، جیسے شہر میں رہنے والے کو شہر کی طرف نسبت کی وجہ سے شہری کہتے ہیں۔اس کا اعراب دو طرح سے آتا ہے:ایک’’میم‘‘کے کسرہ(زیر)اور’’ثا‘‘کے سکون کے ساتھ یعنی ’’ مِثْل ‘‘اور دوسرا’’میم‘‘اور’’ثا‘‘دونوں کے فتحہ(زبر)کے ساتھ یعنی’’ مَثَل ‘‘لیکن دونوں کا معنی ایک ہی ہے اور وہ مشابہ، ملتی جلتی ، ہم مثل،نظیر وغیرہ ہے،جیسے’’ شِبْہ ‘‘ اور’’ شَبَہ ‘‘ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ اور’’مثل‘‘ کی جمع ’’امثال‘‘ آتی ہے،جبکہ ’’مثلی‘‘ کی جمع ’’مثلیات‘‘ آتی ہے۔کتبِ فقہ کے اندرمثلی چیزوں کے بارے میں ذوات الامثال کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں ۔ مثلی اشیاء کی اصطلاحی تعریف: اصطلاح میں مثلی سے مراد وہ اشیاء ہیں کہ جن کی مثل بازار سے مل سکےاور ان کی قیمت میں معتدبہافرق نہ ہو( یعنی بہت زیادہ فرق نہ ہو،بلکہ اگر فرق ہے، تو معمولی سا۔) جیسے گندم ایک مثلی چیز ہے ،کیونکہ گندم کی طرح کی مزید گندم مارکیٹ سے مل جاتی ہے ۔ یونہی چینی مثلی چیز ہے،کیونکہ مارکیٹ سے مزید اسی طرح کی چینی مل جاتی ہے۔انڈے بھی مثلی ہیں کہ اگرچہ انڈے کا سائز دوسرے انڈے سے مختلف ہو سکتا ہے، لیکن یہ فرق اتنا معمولی ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے قیمت میں فرق نہیں کیا جاتا۔ ”قِیمی“ کے حوالہ سے لغوی بحث: لفظِ’’قِیمی ‘‘قیمت کی جانب منسوب ہے۔اس کا اعراب’’قاف‘‘کے کسرہ(زیر)اور ’’یا‘‘کے سکون کے ساتھ یعنی’’ قِیْمت ‘‘ہے۔ کسی چیزکا اندازے سے ریٹ مقرر کیا جائے، وہ قیمت کہلاتا ہے، یعنی وہ رقم جو سامان کے قائم مقام ہو اسے قیمت کہا جاتا ہے۔’’قیمت‘‘ کی جمع’’ قِیَم ‘‘ آتی ہے،جبکہ ’’قیمی‘‘ کی جمع ’’قیمیات‘‘ آتی ہے۔کتبِ فقہ میں قیمی چیزوں کے لیے ذوات القِیَم کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ قیمی اشیاء کی اصطلاحی تعریف: قیمی سے مراد وہ اشیاء ہیں، جو مثلی کے برخلاف ہوں، یعنی ان کی مثل بازار میں موجود نہ ہو یا اس چیز کے مختلف افراد (pieces) کے درمیان معتد بہا فرق ہو یعنی معمولی نہیں، بلکہ بہت زیادہ فرق ہو۔ جیسے بکری ایک قیمی چیز ہے ،کیونکہ مارکیٹ سے اگرچہ دوسری بکری مل سکتی ہے ،لیکن ہر بکری دوسری بکری سے اپنے اوصاف(رنگ، نسل، قد، عمر ، وغیرہ )کی وجہ سےکافی مختلف ہوتی ہے اور ان کی قیمتوں میں کافی فرق ہوتا ہے۔زمین یا گھر بھی قیمی چیز ہے کہ ہر زمین دوسری زمین سے اور ہر گھر دوسرے گھر سے مختلف ہوتا ہے اورمختلف اسباب و اوصاف کی بناء پر ان کی قیمتوں میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا تعریفات کے بارے میں جزئیات:

دررالحکام شرح غرر الاحکام اور در مختار وغیرہ میں مثلی اور قیمی اشیاء کے بارے میں ہے:’’ والحاصل کما فی الدرر وغیرھا:ان کل ما يوجد له مثل فی الاسواق بلا تفاوت بين اجزائه يعتد به وما لا يكون كذلك فهو قيمی ‘‘ترجمہ:اور حاصل کلام یہ ہے جیسا کہ درر وغیرہ میں ہے:بیشک ہر وہ چیز جس کی مثل اس کے افراد میں معتد بہا(بہت زیادہ )فرق کے بغیر بازار میں پائی جاتی ہو(وہ مثلی ہے)اور جو ایسی نہ ہو وہ قیمی ہے۔ ( در مختارمع رد المحتار،ج6،ص185،مطبوعہ دارالفکر،بیروت ) موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں مثلی اور قیمی چیزوں کے بارے میں ہے:’’ المثليات فی اللغة: جمع المثلی والمثلی منسوب الى المثل بمعنى الشبه قال ابن منظور: المثل كلمة تسوية، يقال: هذا مِثْلُهُ و مَثَلُهُ كما يقال: شِبْهُهُ و شَبَهُهُ بمعنى وفی الاصطلاح المثلی: كل ما يوجد له مثل فی الاسواق بلا تفاوت يعتد به بحيث لا يختلف بسببه الثمن ..... القيميات جمع القيمی والقيمی منسوب الى القيمة وهی ثمن الشیء بالتقويم،قال الفيومی: القيمة: الثمن الذی يقاوم به المتاع ای يقوم مقامه والقيمی فی الاصطلاح ما لا يوجد له مثل فی الاسواق او يوجد لكن مع التفاوت المعتد به فی القيمة وعلى ذلك فالقيميات مقابل المثليات من الاموال ‘‘ترجمہ:مِثلیات لغوی اعتبار سے مِثلی کی جمع ہے اور مثلی لفظِ مثل کی جانب منسوب ہے بمعنی مشابہت کے۔ابن منظور نے کہا:مثل برابری کا کلمہ ہے ،کہا جاتا ہے:( ھذامِثْلُهُ اور ھذامَثَلُهُ )یہ اس کی مثل ہے،جیسا کہ ایک ہی معنی میں یہ الفاظ بولے جاتے ہیں:( ھذاشِبْهُهُ اور شَبَهُهُ )یہ اس کے مشابہ ہےاور اصطلاح میں مثلی :ہر وہ چیز جس کی مثل بغیر معتد بہا فرق کے بازار میں پائی جاتی ہو،اس حیثیت سے کہ اس کے سبب قیمت مختلف نہ ہو۔ قیمیات قیمی کی جمع ہے اورقیمی قیمت کی جانب منسوب ہےاور قیمت اندازے سے چیز کا مقرر کیا گیا ثمن ہےاور فیومی نے کہا:قیمت وہ ثمن ہے جو سامان کے قائم مقام ہوتا ہےاور اصطلاح میں قیمی اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس کی مثل بازار میں نہ پائی جاتی ہو یا پائی جاتی ہو،لیکن قیمت میں معتد بہا فرق کے ساتھ ۔اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ قیمی اشیاء مثلی اموال کے مقابلے میں ہوتی ہیں۔ ( موسوعہ فقھیہ کویتیہ،ج36،ص110تا111،مطبوعہ کویت ) اورصدر الشریعہ مفتی محمد امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:1367ھ) ارشاد فرماتے ہیں:’’مثلی اور قیمی کے متعلق قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جس چیز کی مثل بازار میں پائی جاتی ہو اور اس کی قیمتوں میں معتدبہ فرق نہ ہو،وہ مثلی ہے، جیسے انڈے، اخروٹ اور جن کی قیمتوں میں بہت کچھ تفاوت ہوتا ہے، جیسے گائے، بھینس،آم، امرود وغیرہا، یہ سب قیمی ہیں۔‘‘ ( بھارِ شریعت،ج3،ص213،مکتبۃ المدینہ،کراچی )
(1) فقہاء اپنی اصطلاح میں مثلِ کامل کو فقط’’مثل‘‘اورمثلِ قاصر کو ’’قیمت ‘‘سے تعبیر کرتے ہیں۔فقہاء کی پیروی کرتے ہوئے ہم بھی آگےرسالہ میں مثلِ کامل اور مثلِ قاصر کے بجائے’’مثل ‘‘اور ’’قیمت‘‘والی اصطلاح ہی استعمال کریں گے۔ (2)لیکن یاد رہے کہ کسی چیز کی مثلِ کامل موجود ہونے کی صورت میں مالک کو یہی دی جائے گی،کیونکہ یہ نقصان کو پوراکرنے میں زیادہ کارآمد ہے ،اگر مثل کامل موجود نہیں ہوگی،تب مالک کو نقصان سے بچانے کے لیے مجبوراًمثل ِ قاصر دی جائے گی۔ (3) احرام کی حالت میں شکار کرنے اور پھر اس پر مرتب ہونے والے احکام تفصیل کے ساتھ جاننے کے لیے کتبِ فقہ سے کتاب الحج کا مطالعہ فرمائیں۔ (4)مثلِ کامل اور مثلِ ناقص کی بحث پہلی آیت کے ضمن میں صفحہ 9 پر بیان ہوچکی ہے۔

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن