30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیّٖن ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط (1)موت کا ذائقہ
دعائے خلیفۂ امیرِ اہلِ سنّت: یا ربَّ المصطفےٰ! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ” موت کا ذائقہ“پڑھ یا سُن لے، اُس کی قبر و آخِرت کی مَنْزِلیں آسان فرما اور اس کی ماں باپ سمیت بِلاحساب مغفرت فرما ۔ اٰمین بِجاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہُ علیهِ واٰلِهٖ وسلّمدُرودِ پاک کی فضیلت
فرمانِ آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : مجھ پر کثرت سے دُرُود پاک پڑھو بے شک تمہارا مجھ پر دُرُود پاک پڑھنا تمہارے گناہوں کیلئے مغفرت ہے۔ (جامع صغیر،ص87، حدیث :1406) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد پیارے پیارے اسلامی بھائیو!جس نے زندگی کا لُطف اُٹھایا اسے موت کا مزہ بھی چکھنا ہے، جو یہاں آیا ہے اسے ایک دِن یہاں سے رُخصت بھی ہونا ہے اور جس نے اس دُنیا کی رنگینیوں کو دیکھا ہے اسے موت کا مَنْظَر بھی دیکھنا ہے۔موت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ”اَلْمَوْتُ بَابٌ کُلُّ نَفْسٍ دَاخِلُھَا، اَلْمَوْتُ قَدَحٌ کُلُّ نَفْسٍ شَارِبُھَا یعنی موت ایک ایسا دروازہ ہے جس میں سے ہر جاندار نے گزرنا ہے،موت ایک ایسا جام ہے جسے ہر شخص نے پینا ہے۔“واقعی حقیقت بھی یہی ہے کہ موت ایک ایسا جام ہے جس کا ذائقہ ہر ایک نے چکھنا ہے، جیساکہ پارہ4سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 185 میں اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے: ﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ؕ﴾ ترجَمۂ کنز الایمان:” ہر جان کو موت چکھنی ہے۔“ اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیر صِراطُ الْجِنان میں ہے:اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے ہر جاندار پر موت مُقرَّر فرما دی ہے اور اس سے کسی کو چُھٹکارا ملے گا اور نہ کوئی اس سے بھاگ کر کہیں جا سکے گا۔ موت رُوح کے جسم سے جُدا ہونے کا نام ہے اور یہ جُدائی اِنتہائی سخت تکلیف اور اَذیت کے ساتھ ہو گی اور اس کی تکلیف دنیا میں بندے کو پہنچنے والی تمام تکلیفوں سے سخت تر ہو گی۔ (تفسیر صراط الجنان،پ4،آلِ عمران،تحت الآیۃ:185، 2/122) پیارے پیارے اسلامی بھائیو!انسان کو موت کے وقت پہنچنے والی تکلیف سے مُتعلّق چند واقعات پڑھئے اور اپنے لیے عبرت کا سامان کیجئے، چنانچہ منقول ہے کہ بَنی اِسرائیل نے چیلنج کے طور پر حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام سے کہا کہ آپ ہمارے لئے حضرتِ سام بن نوح کو زندہ کر کے دکھائیں ، حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام نے اُن سے فرمایا : تم لوگ مجھے اُن کی قبر پر لے چلو، پھر حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلامبَنی اسرائیل کے ساتھ حضرتِ سام بن نوح کی قبر پر تشریف لائے اور آپ علیہ السّلام نے اللہ پاک سے حضرتِ سَام بن نوح کو زندہ کرنے کی دُعا فرمائی تو اللہ پاک نے ان کو زندہ فرما دیا۔ جب وہ اپنی قبر سے نکلے تو ان کے سر کے بال سفید تھے ، حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلامنے دَریافت فرمایا: یہ بُڑھاپا تو آپ کے زمانے میں نہیں تھا؟ انہوں نے عرض کی: اے روحُ اللہ علیہ السّلام ! جب آپ نے مجھے پکارا اور میں نےآواز سُنی تو مجھے گمان ہوا کہ شاید قیامت قائم ہو گئی ہے، اس کی ہَیبت سے میرے سَر کے بال سَفید ہو گئے ہیں۔ پھر حضرتِ عیسیٰ رُوحُ اللہ علیہ السّلام نے ان سے ” موت “ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا: موت کی کڑوا ہٹ تو اَبھی تک مجھ سے دُور نہیں ہوئی حالانکہ مجھے اس دُنیا سے رُخصت ہوئے چار ہزار سال سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ (تفسیرقرطبی،پ3،آل عمران،تحت الآیۃ:49،الجزء : 4، 2/1128ملخصاً) اس واقعے سے پتا چلا کہ اللہ پاک نے حضرتِ عیسیٰ رُوحُ اللہ علیہ السّلام کو یہ مُعْجِزَہ عطا فرمایا تھا کہ آپ علیہ السّلاممُردے زندہ کیا کرتے تھے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت کی ہولناکیاں ایسی خطرناک ہیں کہ صِرف اس خوف سے کہ کہیں قیامت تو قائم نہیں ہو گئی حضرتِ سام بن نوح کے کالے بال سَفید ہو گئے۔نیز یہ بھی پتا چلا کہ موت کا ذائقہ اتنا کڑوا ہے کہ اِنتقال کے چار ہزار سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی حضرتِ سام بن نوح سے اس کی کڑواہٹ دُور نہ ہوئی تھی ۔مرنے کے بعد بھی موت کی گرمی
میرےآقا،مکی مدنی مصطفےٰصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایک بار اِرشاد فرمایا:بَنی اِسرائیل کا ایک گروہ ایک قبرستان سے گُزرا تو اُنہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ کیوں نہ ہم یہاں دو رَکعت نماز پڑھ کر اللہ پاک سے یہ دُعا مانگیں کہ وہ ہمارے لیے کسی ایک مُردے کو زندہ کر دے تاکہ وہ ہمیں موت کے حالات بتائے، چنانچہ انہوں نے نماز پڑھی اور پھر دُعا مانگنے لگے، اَبھی دُعا جاری تھی کہ اس دوران اُن قبروں میں سے ایک ایسا شخص جس کی دونوں آنکھوں کے درمیان سجدے کا نشان نُمایاں تھا، وہ اپنی قبر سے سر باہر نکال کر کہنے لگا: آپ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ مجھے اِنتقال کیے ہوئے 100 سال گزر چکے ہیں لیکن اب تک موت کی گرمی مجھ سے دور نہیں ہوئی ہے، تم میرے لیے دُعا کرو کہ اللہ پاک مجھے میری پہلی حالت پر لوٹا دے۔( الزہد لامام احمد،ص44،حدیث:88ملخصاً) پیارے پیارے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے! موت کی گرمی کتنی دیرپا ہے کہ اِنتقال کے 100 سال بعد بھی باقی ہے۔ دیکھیے !اگر ہمیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کا اثر کچھ ہی عرصے میں ختم ہو جاتا ہے لیکن موت کے وقت پہنچنے والی تکلیف کا اَثر سینکڑوں سال تک باقی رہتا ہے لہٰذا عقلمندی یہی ہے کہ ہم موت کو کثرت کے ساتھ یاد کریں اور دنیا میں رہ کر موت اور اس کے بعد کی تیاری کریں۔ ہم آئے دِن سُنتے رہتے ہیں کہ فلاں کا اِنتقال ہو گیا اور فلاں کا اِنتقال ہو گیا لیکن ہمیں کوئی خاص عِبرت حاصل نہیں ہوتی،اسی طرح جب ہماری قبرستان حاضری ہوتی ہے تب بھی ہم عِبرت حاصل نہیں کرتے حالانکہ قبرستان کی حاضری کا اَصل مقصد عِبرت حاصل کرنا ہے، جیساکہ حدیثِ پاک میں ہے :میں نے تم کو زِیارتِ قُبُور سے منع کیا تھا، اب تم قبروں کی زیارت کرو کہ وہ دُنیا سے بےرغبتی کا سبب ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔( سنن ابن ماجہ ،2/252،حدیث:1571)ہم قبرستان جاتے ہیں تو خوفِ خُدا سے ہمارےآنسو نہیں نکلتے جبکہ ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایک بار ایک قبر کے پاس بیٹھ کر اتنا روئے کہ چشمانِ اَقدس (مبارک آنکھوں) سے نکلنے والے مبارک آنسوؤں سے مٹی نَمْ ہو گئی، چنانچہمبارک آنسوؤں سے مٹی نَم ہو گئی
حضر تِ بَرَاء بن عازِب رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ ایک جنازے میں شریک تھے،آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم قبر کے کنارے بیٹھے اور اِتنا روئے کہ آپ کی چشمانِ اَقدس سے نکلنے والے آنسوؤں سے مَٹی نَم ہو گئی۔ پھر اِرشاد فرمایا: اے بھائیو! اس قبر کے لئے تیّاری کرو۔( ابن ماجہ ،4/466،حدیث:4195)آنسوؤ ں سے داڑھی تر ہو جاتی
صحابۂ کِرام رضی اللہُ عنہم اور بُزرگانِ دین رحمۃُ اللہِ علیہمکے حالات میں بھی ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جب وہ قبرستان جاتے تو خوفِ خُدا کے غَلَبے کے سبب خوب رویا کرتے تھے، چنانچہ اَمِیْرُ الْمُؤمِنِیْن حضرتِ عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ آنسوؤں سے آپ رضی اللہُ عنہ کی داڑھی تر ہو جایا کرتی تھی۔کسی نے عرض کی:(اے اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن!)آپ جنت و دوزخ کا ذِکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور قبر کے پاس کیوں روتے ہیں؟آپ رضی اللہُ عنہ نے فرمایا:یقین رکھو کہ رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ قبر آخِرت کی مَنْزِلوں میں سے پہلی مَنْزِل ہے اگر اس سے نجات مل گئی تو اس کے بعد کی مَنْزِلیں اس سے زیادہ آسان ہوں گی اور اگر اس سے نجات نہ ملی تو اس کے بعد کی مَنْزِلیں اس سے زیادہ سخت ہوں گی اور رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ قبر سے بڑھ کر خوفناک مَنْظَر کبھی میں نے دیکھا ہی نہیں۔ ( ترمذی ،4/138،حدیث:2315)آنسوؤ ں سے عمامہ بھیگ جاتا
مشہور و باکمال مُحَدِّث حضرتِ یزید رقاشی رحمۃُ اللہِ علیہ قبروں کے پاس جا کر فرمایا کرتے کہ اے قبر کے گڑھے میں دفن ہو جانے والو! اور اے تنہائی میں رہنے والو! اور اے زمین کے اَندرونی حِصَّے سے اُنسیت رکھنے والو! کاش! مجھے خبر ہو جاتی کہ میں تمہارے کون سے اعمال پر خوشخبری حاصل کروں؟اور میں تم میں سے کون سے بھائی پر رشک کروں؟یہ فرما کر پھر آپ رحمۃُ اللہِ علیہ اس قَدر روتے کہ آنسوؤں سے آپ کا عمامہ بھیگ جاتا اور آپ جب بھی کسی قبر کو دیکھ لیتے تو اِتنے زور سے رونے کی آواز نکالتے کہ جیسے بیل چیخا کرتا ہے۔(احیاء العلوم ،5/238)ساری رات قبرستان میں روتے رہتے
حضرتِ عیسیٰ بن عُمر رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حضرتِ عَمرو بن عُتبہ رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے گھوڑے پر سُوار ہو کر رات کو قبرستان جاتے اور وہاں کھڑے ہو کر کہتے:اے قبر والو! اَعمال نامے لپیٹ دیئے گئے اور اَعمال اُٹھا لیے گئے،پھر اپنے قدموں پر سَر جھکائے روتے رہتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی اور واپس آ کر نماز ِفجر میں شریک ہو جاتے۔ (حليۃالاولياء،4/173،رقم:5159)ہماری حالتِ زار!
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے ہمارے اَسلاف جب قبرستان تشریف لے جاتے تو خوفِ خُدا سے کس قَدر روتے جبکہ ہماری حالتِ زار یہ ہے کہ ہم جنازوں کے ساتھ ہنستے ہنستے قبرستان جاتے اور ہنستے ہنستے واپس لوٹ آتے ہیں۔ ایک دَور وہ تھا کہ مسلمان جب کسی جنازے کے ساتھ جاتے تو سارے اپنے مُنہ پر کپڑا ڈالےاپنی موت کو یاد کر کے رو رہے ہوتے تھے کہ جس طرح آج یہ مرنے والا ہمارے کندھوں پر سُوار ہو کر قبرستان چلا ہے کل ہمیں بھی اسی طرح قبرستان لے جایا جائے گا، وہ سب اس قَدر غمزدہ ہوتے کہ اگر کوئی تَعْزِیَت کرنا چاہتا تو سب کو غمزدہ دیکھ کر اسے یہ پتا نہیں چل پاتا تھا کہ میت کا وارث کون ہے؟چنانچہ حضرتِ امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ اِرشاد فرماتے ہیں : اىک دور تھا کہ جب کوئى جنازہ جا رہا ہوتا تھا تو جنازے مىں جس کو دىکھو وہ مُنہ پر کپڑا ڈالے رو رہا ہوتا تھا اور اگر کوئی اَجْنَبِى تَعْزِىَت کرنا چاہتا تو اسے پتا نہىں چلتا تھا کہ وہ کس سے تَعْزِىَت کرے؟ (کیمیائے سعادت، 1/397) اب بھی لوگ جنازہ پر روتے ہیں لیکن ہر ایک نہیں بلکہ مخصوص اَفراد روتے ہیں۔ شاید ہی کوئی خوفِ خُدا یا اپنی موت کو یاد کر کے اس لیے روتا ہو کہ مرنے والے کا قبر میں کیا بنے گا؟آج کل عام طور پر لوگ مرنے والے کی محبت ہی میں روتے ہیں۔یاد رکھیے! جنازے ہمارے لئے خاموش مُبَلِّغ کی حَیْثِیَّت رکھتے ہیں۔ جو کچھ وہ زبانِ حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں اس کی ترجمانی کسی نے کیا خوب کی ہے : جنازہ آگے آگے کہہ رہا ہے اے جہاں والو مرے پیچھے چلے آؤ تمہارا رہنما میں ہوں
1 … عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے بانی امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کےہونے والے مختلف آڈیوبیانات کو تحریری صورت میں بنام’’فیضانِ بیاناتِ عطار ‘‘ المدینۃ ُالعلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) کے شعبہ ”بیاناتِ امیرِاہل ِسنّت“ کی طرف سے ترمیم و اضافے کیساتھ پیش کیا گیا۔اَلحمدُ لِلّٰہِ الکریم! اُن بیانات میں سے اَب شعبہ ”ہفتہ وار رسالہ مطالعہ“ 15 شعبان 1426ھ کو ہونے والے ایک بیان ” موت کا ذائقہ “کو رسالے کی صورت میں مَنظرِ عام پر لارہا ہے۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع