30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
نماز میں لقمہ دینے سے متعلق تفصیلی مسائل پر مشتمل رسالہ نماز میں لُقمہ دینے کے مسائل مرتب مولانا علی اصغر العطاری المدنی پیش کش المدینۃ العلمیۃ(شعبہ اصلاحی کتب) ناشر مکتبۃ المدینہ باب المد ینہ کراچی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم طالمد ینۃ العلمیۃ
از : بانیِ دعوتِ اسلامی ، عاشق اعلیٰ حضرت شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ الحمد للّٰہ علٰی اِحْسَا نِہٖ وَ بِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اشاعتِ علمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے ، اِن تمام اُمور کو بحسن و خوبی سر انجام دینے کے لئے متعدَّد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس ’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘بھی ہے جو دعوتِ اسلامی کے عُلماء و مُفتیانِ کرام کَثَّرَ ھُمُ اللّٰہُ تعالٰی پر مشتمل ہے ، جس نے خالص علمی، تحقیقی او راشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے ۔ اس کے مندرجہ ذیل پانچ شعبے ہیں : (۱) شعبۂ کتُبِ اعلیٰحضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (۲) شعبۂ درسی کُتُب (۳) شعبۂ اصلاحی کُتُب (۴) شعبۂ تراجمِ کتب (۵) شعبۂ تفتیشِ کُتُب ’’ا لمد ینۃ العلمیۃ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلٰیحضرت اِمامِ اَہلسنّت، عظیم البَرَکت، عظیمُ المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامیٔ سنّت ، ماحیٔ بِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت، باعثِ خَیْر و بَرَکت، حضرتِ علاّمہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری الشّاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوسع سَہْل اُسلُوب میں پیش کرنا ہے ۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی ، تحقیقی اور اشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اورمجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتُب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِ س کی ترغیب دلائیں ۔ اللہ عزوجل ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بَشُمُول’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘ کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اخلاص سے آراستہ فرماکر دونو ں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے ۔ ہمیں زیرِ گنبدِ خضرا شہادت، جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم رمضان المبارک ۱۴۲۵ھمقدمہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العٰلمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین ۔ امابعددین متین دین اسلام میں عبادت کا ایک مربوط نظام مقرر ہے ، نماز، روزہ ، حج، زکوٰۃ الغرض عبادت کی تمام اقسام میں حسن ِترتیب اور زینت ِضوابط کا نکھار واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ ہر عبادت کا خاص معیار مقرر ہے ، عبادت کرنے والا ظاہر ی اور باطنی کاوشوں سے اس معیار تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے اور اس معیار کی رعایت نہ ہو تو وہ عبادت پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچتی ۔ نماز ہی کو دیکھ لیجئے اس ذمہ کو ادا کرنے کے لئے چھ شرائط اورسات فرائض مقرر ہیں کوئی ایک بھی چھوٹ جائے تو سرے سے فرض ادا ہی نہ ہو گا ۔ ۳۰ سے زیادہ واجبات ہیں جن میں سے کسی ایک کے چھوٹ جانے سے نماز پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچتی بلکہ ادھوری رہتی ہے ۔ نماز چونکہ مؤمن کی معراج ہے اس کے ذریعے بندہ رب عزوجل کی قربت حاصل کرتا ہے ۔ اس لئے اسے پورے اہتمام کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے تاکہ بندہ اپنے رب تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہو توپاک و صاف حالت میں ہو، منہ اس کا خانہ خدا کی جانب ہو، نیت ہر قسم کے ریا سے پاک ہو، للہیت پیش نظر ہو ، اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دنیا و مافیھا سے بے نیازی کا اظہار کرتا ہوا قیام میں ہاتھ باندھ کر عاجزی کے ساتھ کھڑا ہو کر ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتے ہوئے اس مقام تک جاپہنچے کہ گویا خدا عزوجل کو دیکھ رہا ہے یہ نہ ہو تو کم از کم یہی سمجھے کہ خدا عزوجل اسے دیکھ رہاہے ۔ اس کی بارگاہ میں رکوع بجالائے پھر اپنی جبیں کو خاک پر رکھ کر خدائے بزرگ و برتر کے سامنے غایت ِتذلل کو اپنائے ۔ الحاصل اگر تمام کے تمام ظاہری و باطنی لوازمات کو پورا کیا جائے تو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قرب ضرور حاصل ہو تا ہے ۔ لیکن شیطان یہ کب چاہے گا کہ بندہ اللہ عزوجل کا مقرب بن جائے پہلے تو وہ یہ کوشش کرے گا کہ بندہ نماز ہی نہ پڑھنے پائے ، اگر انسان شیطان کے بہکاوے میں نہ آیا تو اب شیطان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ نماز میں ہونے کے باوجود اس کو ذہنی طور پر نماز سے ہٹا دیا جائے لھذا شیطان اس کی توجہ نماز سے ہٹانے کی پوری کوشش کرتا ہے حدیث مبارکہ، جسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا، میں ہے کہ ’’أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال اذا نودی بالٓاذان أدبر الشیطان لہ ضراط حتی لا یسمع الآذان فاذا قضی الآذان أقبل فاذا ثوب أدبر فاذا قضی التثویب أقبل یخطر بین المرء و نفسہ ، یقول اذکر کذا ، اذکر کذا لما لم یکن یذکر حتی یظل الرجل ان یدری کم صلی ۔ ۔ الخ‘‘ ترجمہ : جب اذا ن ہوتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے اذان کے بعد پھر آجا تا ہے اور جب تکبیر ہوتی ہے تو پھر بھاگ جاتا ہے تکبیر کے بعد آکرنمازی کو وسوسہ ڈالنا شروع کر دیتا ہے اور اس کی بھولی ہوئی باتوں کے بارے میں کہتا ہے فلاں بات یاد کر، فلاں بات یاد کر حتی کہ نمازی کو یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں ۔ ۔ الخ (صحیح مسلم باب السھو فی الصلاۃ و السجود لہ ص۲۰۵، رقم الحدیث۳۸۹ مطبوعہ دارابن حزم بیروت) اسی بنا پر بسا اوقات نماز پڑھنے والا نمازمیں بھول کا شکار ہو جاتا ہے اگر چہ کہ وسواسِ شیطان کے علاوہ بھولنے کی اور بھی وجوہات ہیں مثلاًمقتدی کی طہارت میں کمی رہ جانا بھی امام کی یاداشت پر اثر انداز ہوتا ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے ’’ ایک روز نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صبح کی نماز میں سورہ روم پڑھ رہے تھے اور متشا بہ لگا ۔ بعد نماز ارشاد فرمایا کیا حال ہے ان لوگوں کا؟ جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور اچھی طرح طہارت نہیں کرتے انہیں کی وجہ سے امام کو قراء ت میں شبہ پڑتا ہے ۔ ‘‘ ( نسائی شریف باب القراء ۃ فی الصبح بالروم ص۱۶۵ مطبوعہ بیروت) اسی طرح بھول جانے کی طبی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے بھول چوک اس کے خمیر میں شامل ہے ۔ لھذا جہاں شریعت مطہرہ نے عبادت کرنا سکھایا ہے اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے شرائط و ضوابط بتائے ہیں ۔ یونہی انسان کی بھول اور اس کی خطا کو دیکھتے ہوئے شریعت مطہرہ نے عبادت میں کوئی کمی رہ جانے یا دوران عبادت کسی خلل کے آجانے پر اس کی تصحیح کا طریقہ بھی بتایا ہے مثلاً حج میں جب کوئی حرم یا احرام کی حرمت کی پاسداری نہ رکھ سکے تو اس پر جنایت لازم ہوتی ہے ، یوں کبھی دم کبھی صدقہ دے کر یا روزہ رکھ کرکمی پوری کی جاتی ہے ، نماز میں بھولے سے واجب رہ جانے پرسجدہ سہو کر کے تلافی کی جاتی ہے ۔ یونہی امام جب دوران ِقراء ت بھول جائے یا انتقال ِرکن میں خطا ہو مثلاً تیسری رکعت میں قعدہ میں بیٹھ گیا حالانکہ اس کو نہیں بیٹھنا تھا تو ایسی صورت میں نمازی کو لقمہ دینے کا حق دیا گیا ہے تاکہ وہ امام کو تنبیہ کر سکیں ۔ حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعلیمات ہمیں اس سلسلے میں بھی رہنمائی مہیا کرتی ہیں ۔ بعض احادیث میں حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے کسی آیت کے رہ جانے کا ذکرہو گا اسے کوئی حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان میں کمی نہ سمجھے بلکہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شان تو یہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نماز میں قبلہ رو ہوتے ہوئے پیچھے کھڑے مقتدی کے ظاہری اور قلبی حالات پر واقف ہو جاتے تھے جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث پاک میں ہے جس کو حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ’’أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال ھل ترون قبلتی ھھنا فواللہ ما یخفی علیّ خشوعکم و لا رکوعکم انی لأراکم من وراء ظھری‘‘ ترجمہ : رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایاتم کیا گمان کرتے ہو کہ میرا قبلہ اس طر ف ہے (یعنی میرا رخ قبلہ کی جانب ہے تو کیا ہوا) اللہ کی قسم نہ تو تمہارے رکوع مجھ پر مخفی ہیں اور نہ ہی تمہارے خشوع خضوع ، بے شک میں اـپنی پیٹھ کی جانب سے بھی دیکھتا ہوں ۔ (بخاری شریف ص ۵۹ قدیمی کتب خانہ) حقیقت حال یہ ہے کہ نماز میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے کچھ رہ جانے کا معاملہ تعلیم امت کے لئے تھا تا کہ امت کو یہ بتا دیا جائے کہ نماز میں بھول ہو جائے تو کیا طریقہ کار اپنانا چاہیے جیسا کہ امام مالک رضی اللہ عنہ مؤطا میں حدیث پاک نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’انی لأ نسی أو أنسی لأسنّ‘‘ترجمہ : بے شک میں بھولتا ہوں یا بُھلادیا جاتا ہوں تا کہ سنت قائم ہوسکے (مؤطا امام مالک ص۸۴ مطبوعہ نور محمد کراچی ) نمازمیں لقمے کے احکام پر مشتمل بعض احادیث مبار کہ درج ذیل ہیں چنانچہ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے روایت کی’’قال أمرنا النبی صلی اللہ علیہ و سلم أن نرد علی الامام‘‘ترجمہ : فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم امام پر اس کی غلطی رد کریں ۔ (مستدرک حاکم ص ۲۷۰ جلد اول دار الفکر بیروت) امام حاکم علیہ الرحمۃ مستدرک میں حضرت ابو عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ’’قال قال علی کرم اللہ وجھہ الکریم من السنۃ أن تفتح علی الامام اذا استطعمک قیل لأبی عبد الرحمن ما استطعام الامام قال اذا سقط‘‘ ترجمہ : فرمایا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ سنت ہے کہ جب امام تم سے لقمہ مانگے تو اسے لقمہ دو ۔ ابوعبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے کہا گیاکہ امام کا مانگنا کیا ہے ، فرمایاجب وہ کچھ چھوڑ دے ۔ (مستدرک حاکم ص ۰ ۲۷ جلد اول دار الفکر بیروت) فتح القدیر میں ہے ’’أنہ صلی اللہ علیہ و سلم قرأ فی الصلاۃ فترک کلمۃ فلما فرغ قال الم یکن فیکم أبی قال بلی قال ھلا فتحت علی فقال ظننت أنھا نسخت فقال صلی اللہ علی وسلم لو نسخت لأعلمتکم‘‘ ترجمہ : آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے نماز میں قراء ت کی پس ایک کلمہ آپ نے نہ پڑھا ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کیا تم میں اُبی موجود نہیں ؟انھوں نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ! آ پ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایاتم نے لقمہ کیوں نہیں دیا؟ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیاکہ میں نے گمان کیا کہ شاید وہ حصہ منسوخ ہو گیا ہے جو آپ نے نہ پڑھا ۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایااگرمنسوخ ہوتا تو میں تم لوگوں کو ضرور بتاتا ۔ ( فتح القدیر ص۳۴۸ جلداول مکتبہ رشیدیہ بالفاظ متقاربہ فی ابوداود ص۱۶۴مطبوعہ بیروت ) بدائع میں ہے ، ’’عن ابن عمر رضی اللہ عنھما أنہ قرأ الفاتحۃ فی صلاۃ المغرب فلم یتذکر سورۃ فقال نافع اذا زلزلت فقرأھا ‘‘ ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے وہ نماز مغرب میں تھے جب سورت فا تحہ پڑھی تو آگے سورت یاد نہ بن پڑی پس حضرت نافع رضی اللہ عنہ نے ’’اذا زلزلت‘‘ کا لقمہ دیا تو پھر آپ نے اس سورت کی تلاوت شروع کی ۔ (بدائع الصنائع ص۲۳۶جلد اول ایچ ایم سعید) محیط برھانی میں ہے ’’و عن عمر رضی اللہ عنہ أنہ قرأ سورۃ النجم و سجد فلما عاد الی القیام ارتج علیہ فلقنہ واحد ’’اذا زلزلت الارض‘‘فقرأھاو لم ینکر علیہ‘‘(محیط برھانی ص۱۵۴ ج ۲ ادارۃ القران کراچی) ترجمہ : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے آپ نے سورۂ نجم پڑھی اسی دوران آیت سجدہ پر سجدہ کر کے جب قیام کی طرف لوٹے تو آپ بھول گئے کسی نے ’’اذا زلزلت الارض‘‘کا لقمہ دیا پس آپ نے یہی آیت پڑھی اور اس پر کسی صحابی نے بھی انکار نہ کیا ۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’من نابہ شیٔ‘فی صلوتہ فلیسبح فانہ اذا سبح التفت الیہ‘‘(صحیح مسلم ، باب تقدیم الجماعۃ من یصلی بہم ، ص۲۲۵، رقم ۴۲۱، مطبوعہ دارابن حزم بیروت) ترجمہ : جب نماز میں کوئی امر حادث ہو جائے تو سبحان اللہ کہو، جب سبحان اللہ کہا جائے گا تو امام متوجہ ہو جائے گا ۔ پس مذکورہ بالا احادیث مبارکہ لقمہ دینے اور لینے کی اصل ہیں ۔ فقہاء عظام رحمہم اللہ نے اس مسئلہ میں ہماری مزید رہنمائی کی او ر مسئلہ مذکور میں پیش آنے والی مختلف صورتوں کا حکم اپنی کتابوں میں تفصیل سے تحریر کیا ۔ فقیر نے بتوفیق خدا اور بفضل مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور بطفیل نظر مرشد اپنے اساتذہ سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے فقہائے کرام کی بیان کردہ انہیں صورتوں کو ایک جگہ جمع کرنے کی سعی کی ہے تا کہ عوام الناس کی ان مسائل تک آسانی سے رسائی ہو سکے اور اس مسئلہ کے بارے میں لوگوں میں جو مختلف قسم کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ان کا ازالہ ہو سکے ۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعاء گو ہوں کہ اللہ تعالی اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے صدقے اس کوشش کو قبول فرمائے ۔ طالب دعا سگ عطار الاحقر علی اصغر العطاری المدنی ۲۶ شعبان المعظم ۱۴۲۶ ھ بمطابق یکم اکتوبر ۵ ۲۰۰ء