اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
یہ مضمون ”فیضانِ نماز“صفحہ 39 تا 55 سے لیا گیا ہے ۔
نماز پڑھنے کے باوُجُود گُناہ کیوں ہو جاتے ہیں؟
دُعائے عطار:یارَبَّ المصطفےٰ ! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ’’ نماز پڑھنے کے باوُجُود گناہ کیوں ہو جاتے ہیں ؟ ‘‘پڑھ یا سُن لےاُسے مُخلص نمازی بنا کر ہر گُناہ سے بچا اور اُسے جنّت الْفِرْدوس میں اپنے پیارے پیارے سب سےآخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا پڑوسی بنا۔
اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّم
فرمان آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : جس نے دن اور رات میں میری طرف شوق و مَحَبَّت کی وجہ سے تین تین مرتبہ دُرُودِ پاک پڑھا اللہ پاک پر حق ہے کہ وہ اُس کے اُس دن اور اُس رات کے گناہ بخش دے۔ (معجم کبیر، 18/362، حدیث: 928)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
اللہ پا ک پارہ 21 سُوْرَۃُ الْعَنکَبُوت ، آیت45 میں ارشاد فرماتا ہے: ( اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ ) ”ترجَمۂ کنزالایمان :بے شک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بُری بات سے ۔“
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک کافرمانِ عا لی شان بِلا شک و شُبہ حق،حق ،حق ہے ۔ یقیناً ”نماز بے حیائی اور بری باتوں سے منع کرتی ہے۔“ لیکن کیا وجہ ہے کہ آج کل بے شمار نمازیوں کے اندر ماں باپ کی نافرمانی، بے پردگی، عُریانی، گالی گلوچ، غیبت، چُغلی، فُحْش گوئی، دل آزاری، لوگوں کی حق تَلَفی، سود و رِشوت کے لین دَین وغیرہ وغیرہ گناہوں کی کثرت ہے! کیا حقیقی نمازی جھوٹا، دَغا باز، چغل خور، رِزقِ حرام کمانے اور کھانے کھلانے والا، فلموں ڈراموں کا شیدائی، میوزیکل پروگراموں اور گانے باجوں کاشوقین نیز داڑھی مُنڈانے یا ایک مُٹھی سے گھٹانے والا ہوسکتا ہے؟ نہیں ……کبھی نہیں……ہرگز نہیں ۔ بے شک حقیقت یہی ہے کہ نماز بُرائیوں سے روکتی ہے۔افسوس! ہماری اپنی نمازوں میں کمزوریاں ہیں جن کے سبب ہم نیک نہیں بن پا رہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی نماز کا جائزہ لیں ، نماز کے ظاہری و باطنی آداب سیکھیں اور اپنا وُضو و غسل وغیرہ بھی دُرُست کرلیں ۔ اگر صحیح معنوں میں باوُضو با طہارت خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے تمام تَر ظاہری و باطنی آداب کو دھیان میں رکھ کر ہم نماز پڑھیں گے تو اِن شاءَ اللہ ضرور اس کی بَرَکتیں ظاہر ہوں گی اوردرست پڑھی جانے والی نماز کی بَرَکت سے واقعی گناہوں کی ظاہری و باطنی گندگیاں دُور ہوجائیں گی۔ اور ہم نیک صورت، نیک سِیرت مسلمان بن جائیں گے اور ہمارا پورا کردار سنتوں کا آئینہ دار بن جائے گا، اِن شاءَ اللہ ۔
جو اِسلامی بھائی اور اِسلامی بہنیں صحیح طریقے پرنماز ادا کرتے ہیں اللہ کریم اُنہیں ضرور برائیوں سے بچاتا ہے۔ چنانچِہ دو تابعی بزرگ حضرتِ حسن بصری اور حضرتِ قتادہ رحمۃُ اللہِ علیہما نے فرمایا کہ جس شخص کو اُس کی نماز برے کاموں اور فحش (یعنی بے حیائی کی ) باتوں سے باز نہ رکھے وہ نماز اُس کے لیے وَبال ہے البتہ جو شخص پانچوں وقت کی نماز اِس طرح ادا کرتا ہے کہ اُس کی شرائط و اَرْکان و اَحکام، سنّتیں اور دعائیں پورے طور پر بجالائے تو اللہ پاک ایسے شخص کوضرور فحش باتوں (یعنی بے حیائیوں ) اور گناہوں کے کاموں سے بچائے گا۔ (تفسیر خازن،3/452 ملخصا)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: اِنسان ساٹھ (60) برس تک نماز پڑھتا رہتا ہے لیکن اُس کی کوئی نماز بارگاہِ الٰہی میں مقبول نہیں ہوتی کیونکہ وہ شخص رُکوع اور سجدے پورے طور سے ادا نہیں کرتا۔ (الترغیب والترہیب ،1/240،حدیث:757)
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ اِرشاد فرماتے ہیں : (لوگ)نماز میں (اس طرح)سجدہ کر تے ہیں کہ پاؤں کی اُنگلیوں کے(صرف) سِر ے زمین پر لگتے ہیں حالانکہ حکم ہے کہ پیٹ (یعنی انگلی کا وہ حصّہ جو چلنے میں زمین پرلگتا ہے) لگے، ایک اُنگلی کا پیٹ لگنا فرض اور ہر پاؤں کی اکثر (مثلاً تین تین) انگلیوں کا پیٹ زمین پر جما ہونا واجب ہے۔(فتاوٰی رضویہ،3/253 ملخصا) (اور دسوں کا پیٹ لگ کر انگلیوں کا قبلہ رُو ہونا سنت ہے) صرف ناک کی نوک پر سجدہ کرتے ہیں حالانکہ حکم ہے کہ جہاں تک ہڈّی کا سخت حصہ ہے، لگنا چاہئے۔ عُموماً دیکھا جاتا ہے کہ رکوع سے ذرا سر اٹھا یا اور سجدے کی طرف چلے گئے، سجدے سے ایک بالِشت سر اٹھایا یا بہت ہوا ذرا (مزید) اٹھالیا اور وہیں دوسرا سجدہ ہوگیا حالانکہ (رکوع کے بعد ) پورا سیدھا کھڑا ہونا اور (دو سجدوں کے درمیان کم ازکم ایک سبحانَ اللہ کہنے کی مقدار پورا) بیٹھنا چاہیے۔ اس طر ح اگر 60 برس نماز پڑھے گا قبول نہ ہوگی۔ ایک شخص مسجد اَقدس میں حاضر ہوئے اور بہت تیز ی سے جلد ی جلدی نماز پڑھی بعد ِنماز حاضر ہو کر سلام عرض کیا، فرمایا:وَعَلَیْکَ السَّلَام، اِرْجِعْ فَصَلِّ فَاِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ (یعنی) واپس جا پھر پڑھ کہ تو نے نماز نہ پڑھی ۔ انہوں نے دوبارہ ویسے ہی پڑھی، پھر یہی ارشاد ہوا ۔ آخِر میں اُنہوں نے عرض کی: قسم اُس کی جس نے حضور (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم) کو حق کے ساتھ بھیجا، مجھے ایسی ہی آتی ہے، حضور فرمائیں ! (کس طرح پڑھوں ؟) فرمایا: رُکوع و سجود بَاطمینان کر اور رکوع سے سیدھا کھڑا ہو اور دونوں سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھ ۔ (بخاری،1/268، حدیث:757 ملخصا) (ملفوظات اعلیٰ حضرت ،ص291)
حضرت طَلْق بن علی رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ پاک کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا :” اللہ پاک اُس بندے کی نماز کی طرف نظر نہیں فرماتا جو رُکوع و سُجود(یعنی سجدے )میں اپنی پیٹھ سیدھی نہیں کرتا۔“ (معجم کبیر ،8/338، حدیث:8261) رکوع و سُجود میں پیٹھ سیدھی کرنے کا مطلب تَعْدیلِ اَرْکان یعنی رُکوع،سُجود،قَوْمہ اورجَلْسہ میں کم از کم ایک بار” سبحانَ اللہ “ کہنے کی مقدار ٹھہرنا ہے۔
حضرت علیُّ المُرتضیٰ شیرِ خدا رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکارِ نامدار، دو جہاں کے سردار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے حالتِ رُکوع میں قِراء َت کرنے سے منع کیا اور ارشاد فرمایا: اے علی! نماز میں پُشْت(یعنی پیٹھ) سیدھی نہ کرنے والے کی مثال اُس حامِلہ عورت کی طرح ہے کہ جب بچے کی پیدائش کا وقت قریب آئے تو حمل گرادے، اب نہ تو وہ حاملہ رہے اور نہ ہی بچے والی۔ (مسند ابو یعلیٰ، 1/166،حدیث:310)