30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلحمدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ”نیکی کی دعوت اہم فریضہ ہے “ کے 20 حُرُوف کی نِسبت سے اِس کتاب کو پڑھنے کی 20 نیَّتیں
فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم :” نِیَّۃُ الْمُؤمِن خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ “یعنی مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے۔ (معجمِ کبیر، 6/185، حدیث:5942) مَدَنی پھول: جتنی اچّھی نیتیں زیادہ، اُتنا ثواب بھی زیادہ۔ (1تا 4)ہر بار حمد و صلوٰۃ اور تعوذ و تسمیہ سے آغاز کروں گا (اِسی صفحے کی ابتدا میں دی گئی دو عربی عبارات پڑھ لینے سے چاروں نیّتوں پر عمل ہوجائے گا) (5)رِضائے اِلٰہی کے لیے اوّل تا آخر اِس کتاب کا مُطالعہ کروں گا(6) حَتَّی الْوَسْع اس کا باوُضو اور (7)قبلہ رُو مُطالعہ کروں گا(8)قرآنی آیات اور (9)احادیث مبارکہ کی زیارت کروں گا (10) جہاں سرکار کا اِسمِ مُبارَک آئے گا وہاں ” صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم “ پڑھوں گا(11)جہاں کسی بزرگ کا نام آئے گا وہاں ” رضی اللہ عنہ “ یا ” رحمۃ اللہ علیہ “ پڑھوں گا (12) اِس رِوایت ” عِنْدَ ذِکْرِ الصَّالِحِیْنَ تَنْزِلُ الرَّحْمَۃ “ یعنی نیک لوگوں کے ذِکر کے وقت رَحمت نازِل ہوتی ہے۔ (حلیۃالاولیاء، 7/335، رقم:10750) پر عمل کرتے ہوئے صَالحین كے ذِکر کی بَرکتیں لُوٹوں گا(13) اس کتاب میں موجود تربیت کے نکات پر عمل کروں گا اور دوسروں کو بھی بتاؤں گا (14) مسلمانوں کو یہ کتاب پڑھنے کی تَرغیب دِلاؤں گا(15)اِس حدیثِ پاک ” تَھَادَوْا تَحَابُّوْا ‘‘یعنی ایک دوسرے کو تحفہ دو آپس میں محبت بڑھے گی۔ (مؤطا امام مالک، 2/407، حدیث:1731) پر عمل کی نیّت سے (ایک یا حَسبِ توفیق) یہ کتاب خرید کر دوسروں کو تحفہ دوں گا (16)اِس کتاب کے مُطالعے کا ثواب ساری اُمَّت کو اِیصال کروں گا (17) کتاب میں بتائے گئے طریقوں کے مطابق نیکی کی دعوت عام کروں گا (18)نیکی کی دعوت عام کرنے کے لیے عاشقان رسول کی مدنی تحریک دعوت اسلامی کے مدنی قافلوں میں سفر کروں گا (19)ذاتی نسخے پر ”یادداشت “والے صفحہ پر ضَروری نِکات لکھوں گا(20)کتابت وغیرہ میں شَرعی غَلَطی ملی تو ناشِرین کو تحریری طور پر مُطلع کروں گا۔ (مصنّف یا ناشرین وغیرہ کو کتابوں کی اَغلاط صِرف زبانی بتانا خاص مفید نہیں ہوتا)المدینۃُ العلمیۃ
(Islamic Research Centre) عالمِ اسلام کی عظیم دینی تحریک دعوتِ اسلامی نے مسلمانوں کو درست اسلامی لٹریچر پہنچانے اور اس کے ذریعے اصلاحِ فرد ومعاشرہ کے عظیم مقصد کے لئے 1421ھ مطابق 2001ء کو جامعۃ المدینہ گلستانِ جوہر کراچی میں المدینۃ العلمیۃ کے نام سے ایک تحقیقی ادارہ قائم کیا جس کا بنیادی مقصد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کو دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق شائع کروانا تھا۔ جمادی الاولیٰ 1424 ھ/جولائی 2003 ء اسے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ پرانی سبزی منڈی، یونیورسٹی روڈ کراچی میں منتقل کردیا گیا۔ امیراہل سنّت، بانی دعوتِ اسلامی علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کے نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اِشاعتِ علْمِ شریعت کا عزم پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ ادارہ چھ ۶ شعبہ جات میں تقسیم کیا گیا۔ پھر ان میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ اس کی کراچی کے علاوہ ایک شاخ مدنی مرکز فیضان مدینہ، مدینہ ٹاؤن فیصل آباد، پنجاب میں بھی قائم ہوچکی ہے، دونوں شاخوں میں 120 سے زائد علما تصنیف وتالیف یا ترجمہ وتحقیق وغیرہ کے کام میں مصروف ہیں اور 2021ء تک اس کے 23شعبے قائم کئے جاچکے ہیں: (1)شعبہ فیضانِ قرآن (2)شعبہ فیضانِ حدیث (3)شعبہ فقہ(فقہ حنفی وشافعی) (4)شعبہ سیرتِ مصطفےٰ (5)شعبہ فیضانِ صحابہ واہلِ بیت (6)شعبہ فیضانِ صحابیات وصالحات (7)شعبہ فیضانِ اولیا وعلما (8)شعبہ کتبِ اعلیٰ حضرت (9)شعبہ تخریج (10)شعبہ درسی کتب (11)شعبہ اصلاحی کتب (12)شعبہ ہفتہ وار رسالہ (13)شعبہ بیاناتِ دعوتِ اسلامی (14)شعبہ تراجم کتب (15)شعبہ فیضانِ امیر اہلِ سنّت (16)ماہنامہ فیضانِ مدینہ (17)شعبہ دینی کاموں کی تحریرات ورسائل (18)دعوتِ اسلامی کے شب وروز (19)شعبہ بچّوں کی دنیا (20)شعبہ رسائلِ دعوتِ اسلامی (21)شعبہ گرافکس ڈیزائننگ (22)شعبہ رابطہ برائے مصنفین ومحققین (23)شعبہ انتظامی امور قائم ہیں۔ المدینۃ العلمیۃ کے اغراض ومقاصد یہ ہیں: * باصلاحیت علمائے کرام کو تحقیق، تصنیف وتالیف کیلئے پلیٹ فارم مہیا کرنا اور ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا۔ * قرآنی تعلیمات کو عصری تقاضوں کے مطابق منظر عام پر لانا۔ * افادۂ خواص وعوام کیلئے علومِ حدیث اور بالخصوص شرحِ حدیث پر مشتمل کتب تحریر کرنا۔ * سیرتِ نبوی، عہدِنبوی، قوانینِ نبوی، طبِ نبوی وغیرہ پر مشتمل تحریریں شائع کرنا۔ * اہل بیت وصحابہ کرام اور علما وبزرگانِ دین کی حیات وخدمات سے آگاہ کرنا۔ * بزرگوں کی کتب ورسائل جدید منہج واسلوب کے مطابق منظر عام پر لانا بالخصوص عربی مخطوطات (غیرمطبوع) کتب ورسائل کو دورِجدید سے ہم آہنگ تحقیقی منہج پر شائع کروانا۔ * نیکی کی دعوت کا جذبہ رکھنے والوں کو مستند مواد فراہم کرنا۔ * دینی ودنیاوی تعلیمی اداروں کے طلبہ کو مستند صحت مند مواد کی فراہمی نیز درسِ نظامی کے طلبہ واساتذہ کے لئے نصابی کتب عمدہ شروحات وحواشی کے ساتھ شائع کرکے انکی ضرورت کو پورا کرنا۔ اَلحمدُ لِلّٰہ ! اَمِیْرِ اَہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کی شفقت وعنایت، تربیت اور عطاکردہ اصولوں پر عمل پیرا ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا وآخرت میں کامیابی پانے، نئی نسل کو اسلام کی حقانیت سے آگاہ کرنے، انہیں باعمل مسلمان اور ایک صحت مند معاشرے کا بہترین فرد بنانے، والدین واساتذہ اور سرپرست حضرات کو اندازِ تربیت کے درست طریقوں سے آگاہ کرنے اور اسلام کی نظریاتی سرحدوں اور دین وایمان کی حفاظت کیلئے المدینۃ العلمیۃ نے اپنے آغاز سے لےکر اب تک جو کام کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اللہ پاک اپنے فضل وکرم سے بشمول المدینۃ العلمیۃ دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں، اداروں اور شعبوں کو مزید ترقی عطافرمائے۔ امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ وسلم تاریخ: 15شوال المکرم 1442ھ/27مئی 2021ءہدیۂ قارئین
کفر اور بد عملی کی تاریکیوں میں بھٹکتے افراد کو نورِ ہدایت سے روشناس کرانے کے لیے دینِ اسلام میں نیکی کی دعوت کے حوالے سے مکمل تعلیم و تربیت کا نظام موجود ہے، اس کی مدد سے صِراطِ مستقیم سے دور گمراہی کے اندھیروں میں زندگی گزارنے والوں کو ہدایت کے اُجالوں کی طرف لایا جاسکتا ہے اور دنیا کے باسیوں کو پُر اَمن مُعاشرہ فراہم کرکے پُرسُکون اور پُر اعتماد زندگی مہیا کی جاسکتی ہے۔ دین کی یہ تعلیمات اعزازی یا اختیاری نہیں ہیں بلکہ ہر مسلمان کی ملی ذمہ داری ہے کہ جس خوش نصیب کادل ہدایت کے اس نور سے جگمگا اٹھا ہے وہ دوسروں کے دلوں کو روشن کرنے کا ذریعہ بنے اور یوں چراغ سے چراغ جلتا چلا جائے حتّٰی کہ عالَمِ اِنسانِیَّت فانی کی جستجو چھوڑ کر باقی کی جانب مُتَوجہ ہو اور اپنا مقصدِ تخلیق حاصل کرسکے۔کامیاب نیکی کی دعوت کا دار و مدار:
کامیاب نیکی کی دعوت کے لیے داعی و مبلغ کا تربیت یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے؛ نیکی کی دعوت کے مضامین خواہ کتنے ہی خوبصورت اور پُر کشش کیوں نہ ہوں اگر مبلغ کا طریقۂ دعوت بے ڈھنگا ہوا یا وہ مدعو یعنی جس کو دعوت دی جارہی ہے اس کے حالات و نفسیات کے مطابق مختلف اَسالیب کی مدد سے بات سمجھانے پر قادر نہ ہوا تو اس کی کامیابی ایک سَراب بن کر رہ جائے گی۔ جو بات ایک پہلو سے سمجھ میں نہیں آتی اگر وہی بات دوسرے انداز سے سامنے لائی جائے تو دل میں اترجاتی ہے ایک مبلغ کی ذات میں اس خوبی کا ہونا بے حد ضروری ہے؛ مبلغ اسی وقت کامیاب سمجھاجاتا ہے جب دوست اور دشمن سب یک زبان ہوکر یہ گواہی دیں کہ اس نے ابلاغ دین اور نیکی کی دعوت کا پورا پورا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے؛ یہی وہ چیز ہے جسے قرآن مجید کی اصطلاح میں تصریفِ آیات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( وَ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ وَ لِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَ لِنُبَیِّنَهٗ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(۱۰۵) ) (1) ترجمہ: اور ہم اسی طرح آیتیں طرح طرح سے بیان کرتے ہیں اور اس لیے کہ کافر بول اٹھیں کہ تم تو پڑھے ہو اور اس لیے کہ اُسے علم والوں پر واضح کردیں۔ مبلغِ اعظم رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے صحابہ کرام علیہمُ الرّضوان کو نیکی کی دعوت کے طریقۂ کار اور اَسالیب کی باقاعدہ تعلیم ارشاد فرمائی ہے اور رشد و ہدایت کے اصول پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان فرمادیئے ہیں؛ یہ دینِ اسلام کی ایسی اِنْفِرادیت ہے جو اسلام کے علاوہ کسی بھی اِلہامی و غیر اِلہامی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ قرآن حکیم اپنے مخصوص معجزانہ اُسلوب کے ساتھ دعوتِ دین کے اُصول یوں بیان کرتا ہے: ( اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ(۱۲۵) ) (2) ترجمہ:اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکّی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو بےشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے راہ والوں کو۔ اس آیت قرآنیہ میں نیکی کی دعوت کے تین بنیادی اُصول بیان فرمائے گئے ہیں: 1- حکمت، 2- موعظت اور 3- مجادلہ بَطریقۂ اَحسن۔ اگر داعی اِسلام کی حیثیت سے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح طور پر سمجھی جاسکتی ہے کہ آپ نے دعوت و ارشاد کے فریضہ کو ادا کرتے ہوئے ان اصولوں کو بنیادی حیثیت دی اور بعد میں آپ کےجاں نثارصحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے بھی ان اصولوں کو سینے سے لگائے رکھا۔ اگر مبلغ نیکی کی دعوت کی ان بنیادی باتوں کو سیکھ کر اس میدان میں قدم رکھے تو اس کی دعوت یک کرشمہ صد کار کا منظر پیش کرنے لگے گی! بصورت دیگر داعی خائب و خاسر اور نا مراد ہوکر رہ جائے گا بلکہ دشمنانِ دین کے مقابلے میں دین کو زیادہ نقصان پہنچانے کا باعث بنے گاکیونکہ اس کے پیش کردہ دلائل بَودے اور کمزور ہوں گے، اگر اس کا انداز سخت یا غصہ دلانے والا ہوا یا اس کا دل اخلاص و للہیت کے نور سے خالی ہوا تو وہ اپنے مدعوین کو خود سے دور کردے گا جو اس کو بنیاد بناکر مخلص مبلغین پر طعن و تشنیع کا دروازے کھولیں گے۔مقصدِ تصنیف:
دینِ اسلام کی ان روشن تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے، بالخصوص درس نظامی کے طلبا، معمارانِ قوم و ملت اور امت کی راہ نمائی کرنے والے مبلغین کی اس نہج پر تربیت اور مکمل شعور و آگاہی کو ضروری سمجھتے ہوئے کنز المدارس بورڈ پاکستان نے درسِ نظامی کے نصاب میں نیکی کی دعوت کے موضوع پر ایک جامع کتاب شامل کرنے کا ارادہ کیا۔مصنف کا انتخاب:
اس کتاب کی تصنیف کے لیے دعوتِ اسلامی کے شعبۂ تصنیف و تالیف اِسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ کے نگران اور مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن مولانا ابوماجد محمد شاہد عطاری مدنی دام ظلہ کے سامنے اس ارادے کا اظہار کیا گیاتو آپ نے اس کو پسند فرمایا اور یہ ذمہ داری اسلامک ریسرچ سینٹر کے ایک شعبہ ذمہ دار مولانا عبد اللہ نعیم صدیقی عطاری مدنی کے سپرد کردی گئی اور مولانا احمد امین عطاری مدنی اور مولانا حسان ہاشم عطاری مدنی کو بطور معاون مقرر کیا گیا۔ اور اکتوبر 2021 سے تصنیف کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا جو فروری 2022 کے آخری عشرے میں اختتام پذیر ہوا۔آغاز سے اختتام تک:
* تصنیف سے پہلے اس موضوع پر سابقہ کام کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تاکہ ایک جامع اور خوبصورت اُسلوب کے ساتھ اس فن کی نئی کتاب کا اضافہ ہو۔ * کتاب کی تصنیف کے لیے 100 سے زائد کتب اور بیسیوں ریسرچ پیپرز کے ساتھ ساتھ عربی، اردو اور انگریزی ویب سائیٹس سے بھر پور فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ * کتاب درجہ خامسہ اور سابعہ کے نصاب کے لیے تصنیف کی گئی ہے؛ چونکہ یہ لیول گریجویشن کے برابر ہوتا ہے لہٰذااس درجہ کے طلبا کی ذہنی صلاحیتوں اور مختلف طبیعتوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ * عبارت کو خوبصورت اوردلچسپ بنانے کے لیے تشبیہات، عمدہ تراکیب، محاورات اور معنیٰ خیز جملوں کو شامل کیا گیا ہے، نیز جدید تقاضوں کے مطابق اس کی فارمیشن بھی کی گئی ہے تاکہ پڑھنے والے کی دلچسپی برقرار رہے اور وہ عبارت سے تین گنا فائدہ اٹھا سکے: نفس مسئلہ سمجھے، اکتاہٹ محسوس نہ کرے اور زیادہ سے زیادہ اردو الفاظ کا ذخیرہ کرسکے۔ اس کے علاوہ ضمناً کئی فوائد اپنی استعداد کے مطابق حاصل کیے جاسکیں گے ان شاء اللہ ۔ * کتاب کو ایک مقدمہ اور تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ مقدمہ علمُ الدَّعوۃ کی ضرورت و اہمیت اور اس کی مبادیات پر مشتمل ہے، پہلے حصہ میں علم الدعوۃ کے ارکان کی تفصیل بیان کی گئی ہے، دوسرا حصہ نیکی کی دعوت کی دو اہم بنیادوں ”تحریر اور بیان “ پر مشتمل ہے اور تیسرے حصہ میں مبتدی مبلغین کی آسانی کے لیے مفید ترغیبات شامل کی گئی ہیں۔ * کتاب کو نصابی لحاظ سے زیادہ نفع بخش بنانے کے لیے مشقوں کا اہتمام کیا گیا ہے؛ البتہ مشقوں کے لیے غیر رسمی طریقہ اختیار کیا گیا ہے، مثلاً وہ سوالات بھی مشقوں کا حصہ ہیں جن کے جوابات کتاب میں موجود ہی نہیں یا کم از کم ایک اشارہ کی حد تک موجود ہیں؛ اس کے دیگر مقاصد کے علاوہ اہم مقصد طلبائے کِرام کی جستجو اور کوشش کو بڑھانا ہے۔ * مشکل الفاظ کے معانی کے لیے فرہنگ شامل کی گئی ہے۔ * قابل وضاحت مقامات پر مفید حواشی کا لکھے گئے ہیں۔ * کتاب کے پہلے اور دوسرے حصے کے نقشے بنائے گئے ہیں تاکہ طلبا آسانی کے ساتھ مضامین یاد رکھ سکیں۔ * تمام آیات کا ترجمہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کے ترجمہ قرآن ”کنز الایمان“ شریف سے لیا گیا ہے۔ * اگرچہ یہ نصابی کتاب ہے لیکن باصلاحیت مبلغین اور تعلیم یافتہ اردو دان طبقہ بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھاسکتاہے۔ * شیخ طریقت، امیر اہل سُنَّت حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ کا تجویز کردہ نام ”نیکی کی دعوت کے اہم اصول“ رکھا گیا ہے جبکہ عربی و درسی نام” اصول الدعوۃ و الارشاد “ طے پایا ہے تاکہ طلبا اور عام مبلغین دونوں ہی اس کتاب کی جانب توجہ کریں۔ * اس کتاب کی شرعی تفتیش دار الافتا اہل سُنَّت کے مفتی صاحب مولانامحمد ماجد رضا عطاری مدنی نے فرمائی ہے۔ * کتاب کی مکمل تصنیف مولانا عبد اللہ نعیم صدیقی عطاری مدنی نے کی ہے جنہیں جمع مواد اور دیگر ضروری امور میں مولانا احمد امین عطاری مدنی اور مولانا حسان ہاشم عطاری مدنی کی معاونت حاصل رہی۔ * کتاب کو ہر طرح کی اغلاط سے پاک رکھنے کے لیے مکمل کتاب کی ضمناً کئی بار اور باقاعدہ تین بار پروف ریڈنگ کی گئی ہے۔ اگر پھر بھی کوئی غلطی رہ جائے تو برائے کرم اسی کتاب کے آخری صفحے پر موجود فارم پُر کرکے اسلامک ریسرچ سینٹرکے ای میل ایڈریس پر ضرور ارسال فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور مصنف و معاونین کو دارین میں سرخ روئی نصیب کرے۔ آمین بجاہ النبی الامین و صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمپہلا حصہ
علمُ الدَّعوۃ کے ارکان کے بارےمیں
اَلحمدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ رَحِمَ عِبَادَہٗ بِخاتم النبیین وَ صَلَّی اللہ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ سَیِّدِ الْاَنْبِیَاءِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ الدَّاعِیْنَ اِلٰی رَبِّہِمْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ صَحْبِہٖ وَسَلَّمَ تَسْلِیْمًا (3) اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِانسان کی عظمت:
اللہ پاک نے انسان کو نا صرف اَشرفُ المخلوقات بنایا ہے بلکہ اسے مخدومُ المخلوقات ہونے کا اعزاز بھی عطا فرمایا ہے۔ جی ہاں! جس طرح جسمانیت، حیوانیت اور مَلَکیت انسان کے گرد گھومتی ہیں اسی طرح ان کی تمام ضروریات کا مَحور بھی حضرتِ انسان ہی ہے! بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ”انسان کل کائنات کے حقائقِ لطیفہ (4) کا مجموعہ ہے!“ (5) اس کے ساتھ ساتھ اللہ کریم نے انسان کی فطرت میں اچھائی اور برائی کو پہچاننے کی طاقت اور خیر اور شر کو اختیار کرنے کی خواہش رکھی ہے اور یہ ایک اعلیٰ خِلقت و بلند فطرت لے کر دنیا میں آیا۔ نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے انسان اس بات کا مکلف ہے کہ اللہ پاک کی طرف سے عطا کردہ صلاحیتوں اور اپنی کامل عقل و اعلیٰ فطرت کو استعمال کرتے ہوئے گمراہیت و شر کے راستے سے بچے اور حق و خیر کا راستہ اختیار کرتے ہوئے بار گاہِ الٰہی سے انعام و اکرام کا مستحق قرار پائے ۔ اس کے برعکس عقلِ سلیم ہونے کے باوجود انسان حق کا راستہ اختیار نہیں کرتا تو عذابِ جہنم کا حق دار ٹھہرے گا۔ چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ حضرت نعمان بن ثابت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لَوْ لَمْ یَبْعَثِ اللہ تَعَالٰی رَسُوْلًا لَوَجَبَ عَلَی الْعُقَلَاءِ مَعْرِفَتُہٗ بِعُقُوْلِہِمْ (6)یعنی اللہ کوئی رسول نہ بھیجتا تب بھی کامل عقل والوں پر حق سبحانہ و تعالیٰ (کے وجود) کی مَعْرِفت واجب ہوتی۔ربِ رحمٰن کا عظیم احسان:
انسان کے خمیر میں بھلائی یا برائی اختیار کرنے کی قدرت رکھی گئی اور ساتھ ہی یہ بھی بتادیا گیا کہ خیر اختیار کرنے والا کامیاب ہے اور بَدِی میں پڑنے والا نامراد؛ چنانچہ سورۂ شمس میں ہے: ( فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَاﭪ(۸) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹) وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ(۱۰) ) (7) ترجمہ: ”پھر اس کی بدکاری اور اس کی پرہیزگاری دل میں ڈالی، بے شک مراد کو پہنچا جس نے اُسے ستھرا کیا اور نامراد ہوا جس نے اُسے معصیت میں چھپایا۔ “ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت و گمراہیت اور آخرت کی جزا و سزا کے معاملے کو فطرت تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس کی صلاحیتوں کو آشکار کرنے اور اس کی کامل طور پر راہ نمائی فرمانے کے لیے نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری کیا اور ہرزمانہ کے تقاضوں کے تحت انبیا و رسل آتے رہے تاکہ یہ حجت تمام ہوجائے کہ انسان کی ہدایت کا مکمل انتظام رحمن رب کی طرف سے کردیا گیا تھا پھر بھی اس نے حق و سچ کی راہ اختیار نہیں کی اور گمراہیت کے راستے پر چلتا رہا تو یقیناً اس کا ذمہ دار یہ خود ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (1)( وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَۚ ) (8) ترجمہ: اور بےشک ہر اُمَّت میں سے ہم نے ایک رسول بھیجا کہ اللہ کو پوجو اور شیطان سے بچو ۔ (2)( رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا(۱۶۵) ) (9) ترجمہ: رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے کہ رسولوں کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کو کوئی عذر نہ رہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (3)( یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ عَلٰى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّ لَا نَذِیْرٍ٘-فَقَدْ جَآءَكُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠(۱۹) ) (10) ترجمہ: اے کتاب والو! بے شک تمہارے پاس ہمارے یہ رسول تشریف لائے کہ تم پر ہمارے اَحکام ظاہر فرماتے ہیں بعد اس کے کہ رسولوں کا آنا مدتوں بند رہا تھا کہ تم کہو ہمارے پاس کوئی خوشی اور ڈر سنانے والا نہ آیا تو یہ خوشی اور ڈر سنانے والے تمہارے پاس تشریف لائے ہیں اور اللہ کو سب قدرت ہے۔ختمِ نبوت کی ایک حکمت:
سلسلۂ نبوت حضرت آدم علیہ السّلام سے شروع ہوکر حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم ہوا؛ سلسلۂ نبوت کے ختم ہونے میں کئی حکمتیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل قدرت سے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو تاریخ انسانی کے اس موڑ پر مبعوث فرمایا کہ جب بنی نوعِ انسان اپنی حیات کی مَنازِل طے کرتی ہوئی ایسے مرحلہ پر پہنچ چکی تھی کہ اب اس کے لیے جو بھی نظام مقرر کیا جائے گا قیامت تک اس کی تمام ضروریات کے لیے قابلِ عمل ہوگا۔“ چنانچہ ارشاد فرمایا: ( اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ- )(11) ترجمہ: ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔“ یعنی نبوتِ محمدیہ کے دامن سے ایسا دین وابستہ ہے جو قیامت تک پیش آمدہ ضروریات کو پورا کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ نبوت اور رسالتِ محمدیہ ہی نوعِ انسان کے ہر فرد کے لیے کافی اور ضروری ہے، اس کے بعد کسی کو نبوت دیا جانا متصور نہیں۔ (12)وارثینِ انبیاء:
سب سے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد نیکی کی دعوت کی یہ ذمہ داری امتِ محمدیہ کے سپرد ہوئی جس کو میراثِ نبوت کے امین صحابہ و مجتہدین اور علما و صوفیا نے بحسن و خوبی نبھایا، اب تک یہ سلسلہ جاری ہے اور ان شاء اللہ تا قیامت جاری رہے گا، کیونکہ انسان کی فلاح و نجات کا امین یہی نظامِ نبوت ہے جس کے وارث عُلَمائے شریعت و طریقت ہیں۔ قرآن و حدیث اور تاریخ و آثار اس پر شاہد ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر اب تک جن افرادِ انسانی کا رابطہ بار گاہِ نبوت سے قائم رہا وہ دنیا و آخرت کی کامیابیاں سمیٹ گئے اور جن کا تعلق نبوی تعلیمات سے ٹوٹا وہ حیوانیت و بہیمیت کے گڑھوں میں جاگرے! وراثتِ نبویہ کو باضابطہ آگے لے کر چلنے اور مکمل راہ نمائی کے ساتھ رشد و ہدایت کو عام کرنے کے لیے آنے والے صفحات کا بغور مطالعہ فرمائیے ان شاء اللہ یہ مطالعہ حکمت و تدبر فراہم کرنے کا سبب ہوگا۔علم الدعوۃ کی تعریف:
ھُوَ عِلْمٌ تُعْرَفُ بِہٖ مَنَاھِجُ الدَّعْوَۃِ وَ اَسَالِیْبُہَا وَ طُرُقُہَا وَ آدَابُہَا اِلٰی الدُّخُوْلِ فِیْ دِیْنِ الْاِسْلَام ِوَ الْحَثِّ عَلٰی فِعْلِ الْخَیْرِ وَ اِجْتِنَابِ الشَّرِّ وَ الْاَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالتَّحْبِیْبِ بِالْفَضِیْلَۃِ وَ التَّنْفِیْرِ عَنِ الرَّزِیْلَۃِ وَ اِتِّبَاعِ الْحَقِّ وَ نَبْذِ الْبَاطِلِ ۔ علمِ دعوت وہ علم جس میں دینِ اسلام کی طرف بلانے، بھلائی کرنے پر ابھارنے اور برائی سے بچنے، اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے، فضائل سے محبت اور برے اخلاق سے نفرت پیدا کرنے، حق کی اِتِّباع اور باطل سے دوری اختیار کرنے کے طرزِ عمل، آداب، طریقوں اور اُسلوب و مَنَاہج کی پہچان ہو۔علم الدعوۃ کا موضوع:
الْمُکَلَّفُوْنَ بِحَیْثُ الْمَدْعُوّ وَ الْمُؤْمِنُ بِحَیْثُ الدَّاعِی وَ الدِّیْنُ بِحَیْثُ الْمَدْعُوّ اِلَیْہِ مکلف (انسان ہوں یا جنّ) اس حیثیت سے کہ انہیں دعوت دی جائے، مسلمان (مرد ہو یا عورت) اس حیثیت سے کہ وہ دعوت دینے والا ہے اور دین اس حیثیت سے کہ اس کی دعوت دی جائے۔علم الدعوۃ کی غرض و غایت:
تَشْکِیْلُ النِّظَامِ الْاِسْلَامِی فِی الْحَیَاۃِ مُجْتَمِعًا وَ مُنْفَرِدًا وَ الْفَوْزُ بِسَعَادَةِ الْعَاجِلِ وَالْآجِلِ انفرادی و اجتماعی زندگی کو اسلامی نظام کے مطابق ڈھالنا اور دنیا و آخرت کی سعادتوں سے بہرہ مند ہونا۔علم الدعوۃ کے ارکان:
اَرْکَانُ عِلْمِ الدَّعْوَۃِ اَرْبَعَۃٌ : اَلدَّاعِیْ اَلْمَدْعُوّ اَلْمَدْعُوّاِلَیْہِ مَنْہَجُ الدَّعْوَۃِ علمِ دعوت کے چار ارکان ہیں: (1) دعوت (2) داعی و مبلغ(3) مدعو (4) مدعو الیہپہلا باب
علمِ دعوت کے ارکان
اس فانی کائنات میں ہر شخص محدود وقت کے لیے آیا اور بہت جلد یہاں سے کوچ کر جائے گا اس جہان میں مالکِ کائنات کی مرضی کے مطابق رہنے والا ہی سُرخ روئی اور پر سکون و ابدی حیات کا حق دار ہے؛ لیکن ایسے خوش نصیب بہت تھوڑے ہیں جو اس راز سے واقف ہوکر اپنی مرضی کو خدائے احکمُ الحاکمین کی رضا پر قربان کرتے ہیں، پھر ان کی یہ قربانی ہی کافی نہیں ہے بلکہ اب تک جو اس حقیقت سے نا آشنا ہیں انہیں اس شرابِ طہور کے جام پلانا بھی ان ہی کی ذمہ داری ہے جنہیں اللہ نے زندگی کے اصل مقصد سے آگاہ کیا۔ ارکانِ دعوت ان ہی دو طرح کے افراد سے متعلق ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:پہلی فصل: دعوتِ دین/ نیکی کی دعوت
الدعوۃ کا مادۂ اِشتقاق (13) ”د ع و“ ہے یعنی یہ لفظ ثلاثی مجرد مُعْتَلُّ اللام (14)ہے۔ یہ مادہ نہایت وسیعُ المفہوم ہے اور کئی کلمات کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے، اور اگر مختلف صِلات (15) کے ساتھ ان کلمات کا استعمال ہو تو اس تین حرفی مادہ میں معانی کا ایک جہان نظر آتا ہے۔ ذیل میں اس مادے پر مشتمل چند اُن مشہور کلمات کے معانی کو بیان کیا جارہا ہے جو ہمارے موضوع سے متعلق ہیں: اَلدَّعْوَۃ : کسی معاملے پر لوگوں کو جمع کرنے کے لیے انہیں پکارنا اور اس کام کو پورا کرنے پر ابھارنا ۔ اَلدَّعْویٰ : دعویٰ کرنے کے معنیٰ میں بطورِ اسم استعمال ہوتا ہے۔ اَلدَّاعِیَۃ : سبب کے معنیٰ میں آتا ہے۔ نیز اس شخص کے لیے بھی یہ لفظ بولاجاتا ہے جو کسی دین یا فکر کی طرف بلائے۔ اَلدِّعَایَۃ : کسی نقطۂ نظر کی طرف دی جانے والی دعوت؛ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی جانب سے بادشاہوں کو لکھے جانے والے خطوط میں اس طرح کے الفاظ پائے جاتے ہیں: اَدْعُوْكَ بِدِعَايَةِ الْاِسْلَامِ اَسْلِمْ تَسْلِمْ (16)یعنی میں تمہیں دینِ اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں، اسلام قبول کرلو سلامت رہوگے۔ (17)دعوت کا اصطلاحی معنیٰ:
(1) ھِیَ حَثُّ النَّاسِ عَلَی الْاِیْمَانِ بِاللہ تعالیٰ وَ بِمَا جَاءَ بِہٖ رسولُ اللہ وَ التَّمَسُّکِ بِالدِّیْنِ الْاِسْلَامِیِّ وَ اِنْشَاءُ مُجْتَمِعٍ یَعْمَلُ بِالْاِسْلَامِ وَ یَعْتَصِمُ بِہٖ ۔ (18) یعنی اللہ تعالیٰ اور شریعتِ محمدیہ پر ایمان لانے اور دینِ اسلام کو مضبوطی سے تھامنے پر لوگوں کو ابھارنا اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والا معاشرہ تعمیر کرنا”دعوتِ دین یا نیکی کی دعوت“ کہلاتا ہے۔ (2) ھِیَ تَبْلِیْغُ الْاِسْلَامِ لِلنَّاسِ وَ تَعْلِیْمُہٗ اِیَّاھُمْ وَ تَطْبِیْقُہٗ فِیْ وَاقِعِ الْحَیَاۃِ ۔ یعنی لوگوں تک اسلام اور اس کی تعلیمات پہنچانا اور انہیں زندگی میں نافذ کروانا دعوت کہلاتا ہے۔نیکی کی دعوت کے اہداف:
کسی بھی کام میں کامیابی اور بہترین نتائج کے لیے پہلے اس کے مقاصد اور اہداف کی تعیین کی جائے پھر ان اہداف کے مطابق جِد و جُہد کی جائے۔ ہدف کی تعیین کیے بغیر کسی کام کے لیے کوشش کرنا فضول بھاگ دوڑ کرکے خود کو ہلکان کرنے سے کم نہیں! لہٰذا ذیل میں نیکی کی دعوت کے چند بنیادی مقاصد و اہداف بیان کیے جارہے ہیں ملاحظہ کیجیے:(1) بیانِ حق اور بلاغِ مبین:
دعوت کے اہداف میں سے ایک اہم ترین ہدف بیانِ حق یعنی حق کو اجاگر کرنا اور بلاغِ مبین یعنی احکاماتِ الٰہیہ کو صاف صاف پہنچا دینا ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ارشاد فرمایا گیا: (1) ( یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ ) (19) ترجمہ: اے رسول پہنچادو جو کچھ اُترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے۔ (2) ( وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(۱۸) ) (20) ترجمہ: اور رسول کے ذمہ نہیں مگر صاف پہونچا دینا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: بَلِّغُوْا عَنِّی وَلَوْ آیَۃ یعنی پہنچا دو میری طرف سے اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔ (21)(2)اللہ کے دین کا نفاذ:
روئے زمین پر اللہ کے دین کو قائم کرنا نیکی کی دعوت کا اہم ہدف ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ( وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۪-وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ ) (22) ترجمہ: اللہ نے وعدہ دیا اُن کو جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا جیسی اُن سے پہلوں کو دی اور ضرور اُن کے لیے جمادے گا اُن کا وہ دین جو اُن کے لیے پسند فرمایا ہے۔(3) دلوں کی اصلاح اور پاکیزگی:
نیکی کی دعوت کا ایک مقصد لوگوں کی اصلاح اور ان کے دلوں کا تزکیہ کرنا ہے۔ تزکیۂ قلب اور اصلاحِ باطن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے فرائض میں سے ایک فریضہ بھی ہے، لہٰذا مبلغ کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے افکار و خیالات اور ان کے قلب و روح کی اصلاح پر بھرپور توجہ دے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ( هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ- ) (23) ترجمہ: وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں۔(4) معرفتِ خداوندی و احکاماتِ الٰہیہ:
نیکی کی دعوت کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بندگانِ خدا کو ان کی پیدائش کا مقصد سمجھایا جائے اور انہیں خالقِ حقیقی کی معرفت اور اس کے حقوق سے آگاہ کیا جائے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ( وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶) ) (24) ترجمہ: اور میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی اسی لیے بنائے کہ میری بندگی کریں۔(5) امر بالمعروف و نہی عن المنکر:
نیکی کی دعوت کا ایک مقصد لوگوں کو راہِ راست پر چلانا، نیکیوں کا خوگر بنانا اور برائی کی نفرت ان کے دلوں میں بٹھاکر معاشرے کی فضا کو نیکیوں اور بھلائیوں سے ہم آہنگ کرنا بھی ہے، لہٰذا مبلغ کو چاہیے اپنی دعوت کے ذریعے امن کو عام کرنے اور اختِلاف یا لڑائی جھگڑے کی فضا کو ختم کرنے میں بھرپور کردار ادا کرے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ( كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ )(25) ترجمہ:تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو ۔مشقی و عملی سُوالات
1 ”انسان حقائقِ لطیفہ کا مجموعہ ہے“اس عبارت کا مطلب واضح کریں۔ 2 ایمان کے لیے عقل کے کردار پر امامِ اعظم رحمۃُ اللہ علیہ کے قول سے آپ نے کیا سمجھا ہے؟ 3 ختمِ نبوت کی کوئی ایک حکمت بیان کیجیے۔ 4 علم الدعوۃ کی تعریف، موضوع، غرض و غایت اور ارکان لکھیے۔ 5 علم الدعوۃ اور نیکی کی دعوت میں آپ نے کیا فرق محسوس کیا؟ 6 نیکی کی دعوت کے کتنے مقاصد ہیں؟ مختصراً بیان کیجیے۔ 7 اس فصل میں آپ نے کیا سیکھا؟ 10 جملوں میں وضاحت کیجیے۔اہم نوٹ
دوسری فصل: داعی و مبلغ
علمُ الدعوۃ کا دوسرا رکن ”داعی و مبلغ“ ہے، یہ اس علم کا اہم ترین حصہ ہے کہ اس میں مخاطب اور مُتَعَلِّم یہی ہوتا ہے، تفصیل ملاحظہ کیجیے:داعی و مبلغ کی تعریف:
هُوَ مُؤْمِنٌ يَدْعُوْ اِلٰى دِيْنِ الْاِسْلَامِ وَ یُرْشِدُ اِلٰی مَحَاسِنِہٖ وَ تَعْلِیْمَاتِہٖ بِفِكْرِهٖ ۔ وہ صاحبِ ایمان شخص ہے جو اپنی عقل کوبروئے کار لاتے ہوئے دینِ اسلام کی دعوت دے اور اس کی تعلیمات و محاسن کی طرف راہ نمائی کرے ۔داعی و مبلغ کی اقسام:
بنیادی طور پر داعی و مبلغ یہ حضرات ہوتےہیں: (1) انبیائے کرام: یہ حضراتِ قدسیہ معجزات، دلائل اور ضرورت پڑنے پر کفار کی سرکشی کو ختم کرنے کے لیے تلواروں کے ذریعے تبلیغ فرماتے ہیں۔ (2) علمائے کرام : یہ عقلی و نقلی دلائل کے ذریعے دعوت الی اللہ کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ (3) اُمرا و حکمران: یہ کفار کی سرکشی کو ختم کرنے کے لیے تلواروں کے ذریعے کفار سے جہاد کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ اللہ کے دین میں داخل ہو کر اس کے فرماں بردار بن جائیں۔ (4) مؤذن کی دعوت نماز کی طرف۔(26)داعی و مبلغ کے اوصاف:
مذکورہ افراد کے علاوہ دیگر مسلمان بھی تبلیغِ دین اور نیکی کی دعوت کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور ہر مبلغ کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کی بات سنیں اور اس پر عمل کریں، لہٰذا اگر مبلغ اپنی دعوت سے مؤثر اور بہترین نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ اس کی زبان سے ادا ہونے والی بات میں وزن پیدا ہو تو اخلاص کے ساتھ درج ذیل اوصاف کو اپنانے کی کوشش کرے: * مردم شناسی * اپنے علم پر عمل * خوش اخلاقی و ملنساری * لوگوں کے عیوب کی راز داری * بلا تفریق سب کو نیکی کی دعوت دینا * لوگوں کی عقلوں کے مطابق کلام کرنے کی صلاحیت * امت کی غم خواری * صاحبانِ علم و فضل کا ادب * ذہانت وفطانت * دین کا فہم * دین میں امانت داری * اسلوبِ دعوت سے واقفیت * صبر واخلاص * دعوت کے مؤثر طریقوں سے واقفیت * بہادری و حاضر جوابی * قرآن و حدیث اور اسلاف کے منہج کی اتباع *****دین، دین دار اور خدمت دین
* اللہ کا پسندیدہ دین صرف ”اسلام“ ہے! * دین کامیابی کی ضمانت ہے؛ جو دیندار ہوگا وہ کبھی ناکام نہیں ہوسکتا۔ * دین کی خدمت ہمارے زورِ بازو سے نہیں ہے اللہ کی توفیق سے ممکن ہے۔ * دین کسی کا محتاج نہیں ہے، اللہ جس سے چاہے گا دین کی خدمت لے لے گا۔ * دنیاوی تعلیم میں ذہانت چلتی ہے، جب کہ دین کی تعلیم میں ذہانت سے زیادہ جذبہ کا دخل ہے۔ * دین کسی کا ادھار باقی نہیں رکھتا؛ جب ہم دین کے خادم بنتے ہیں تو درحقیقت ہم دین کی خدمت نہیں کرتے؛ دین ہماری خدمت کرتا ہے، دین نوازتا ہے۔مشقی و عملی سُوالات
1 داعی و مبلغ کی تعریف میں ”قوتِ فکریہ“ کی قید سے مصنف کس طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں؟ 2 مختلف داعیانِ دین کا ذریعۂ دعوت واضح کیجیے۔ 3 مبلغ کے اوصاف میں سے کسی تین اوصاف پر اظہار خیال کیجیے۔ 4 مبلغ کے وہ کون سے اوصاف ہیں جو اب تک آپ کی ذات کا حصہ نہیں بن سکے؟ ان کی نشاندہی کرکے انہیں اپنی شخصیت کا حصہ بنانے کے لیے عملی اقدام کیجیے۔اہم نو ٹ
1…… پ7، الانعام: 105۔ 2…… پ14، النحل: 125۔ 3…… الدعوۃ و الداعیۃ الی الاسلام، ص5۔ 4…… زمان ومکان، شکل و صورت ، محتاجِ اکل و شرب اور مصححات ملکیت جیسے تسبیح و تحمید وغیرہ۔ (مصنف) 5…… تفسیر بیضاوی، الفاتحۃ، تحت الایۃ:2، 1/ 54 مفہوماً۔مقالات کاظمی،3/ 101۔ 6…… کشف الاسرار عن اصول فخر الاسلام البزدوی، باب بیان العقل، 4/386-اصول الشاشی، فصل فی الامر، ص85۔ 7…… پ30، الشمس:8 تا 10۔ 8 …… پ14، النحل:36۔ 9 …… پ6، النساء:165۔ 10 ……پ6، المائدة:19۔ 11…… پ6، المائدة:3۔ 12 ……مقالاتِ کاظمی، 3/104۔ 13…… کلمہ کے حروفِ اصلیہ۔ 14…… علم صرف کی اصطلاح یعنی وہ لفظ جس کے حروفِ اصلیہ تین ہوں اور لام کلمہ حرفِ علت ہو۔ (مصنف) 15…… یہ صلہ کی جمع ہے جو علم نحو کی اصطلاح ہے یعنی وہ اسم جو حرفِ جر کے واسطے سے مفعول بہ بنے۔ ”مِنْ،اِلٰی، عَنْ، علی، فی، باء اور لام“ ان سات حروفِ جارہ کو بھی صلہ کہا جاتا ہے۔(مصنف) 16 …… بخاری، کتاب بدء الوحی، باب 6، 1/11، حدیث:7۔ 17…… لسان العرب، 2/1279 تا 1281۔ 18 …… الدعوۃ و الداعیۃ الی الاسلام، ص6۔ 19 …… پ 6، المائدۃ: 67۔ 20 …… پ 20، العنکبوت: 18۔ 21 …… بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل، 2/462، حدیث: 3461۔ 22…… پ 18، النور: 55۔ 23 …… پ 28، الجمعۃ: 2۔ 24 …… پ 27، الذٰریٰت: 56۔ 25 …… پ4، آل عمران: 110۔ 26…… روح البیان، پ 24، حٰمٓ السجدۃ، تحت الآیۃ: 33، 8/258۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع