حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ میں قلبی تعلق
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ میں قلبی تعلق
اللہ پاک کے محبوب، دانائے غیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان وہ پاکیزہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے ایمان کی حالت میں حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چہرۂ مبارکہ کے نور سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا، قربتِ و صحبتِ رسول کا لا زوال شرف حاصل کیا۔انہوں نے دینِ اسلام کی دعوت کو عام کرنے کے لئے ہر میدان میں ایسی بے مثال قربانیاں دی ہیں کہ ان کا ہر کارنامہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لئے منارۂ نور بن گیا،فرمانِ مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم: ’’اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ فَبِاَیِّھِمْ اِقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ‘‘یعنی میرے صحابہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ستاروں کی مانند ہیں پس تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے ہدایت پاجاؤگے۔(مشکاة، ۲/۴۱۴، حدیث:۶۰۱۸) مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرت ِ مُفْتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: سُبْحَانَ اللّٰہ! کیسی نَفیس تَشْبِیْہ ہے ، حُضُور( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )نے اپنے صحابہ(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ)کو ہدایت کے تارے فرمایا اوردوسری حدیث میں اپنے اہلِ بیت(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ)کو کشتی نُوح فرمایا، سمندر کا مُسافر کشتی کا بھی حاجَت مَنْد ہوتا ہے اور تاروں کی رَہْبَری کا بھی کہ جہاز ستاروں کی رَہْنُمائی پر ہی سمندر میں چلتے ہیں۔ اس طرح اُمَّت ِمُسْلِمہ اپنی اِیمانی زِندگی میں اہل ِبیت اَطہار(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ) کے بھی مُحتاج ہیں اورصحابۂ کِبار(عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان) کے بھی حاجَتْ مَنْد، اُمَّت کے لئے صحابہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ) کی اِقْتِداءمیں ہی اِہْتِداء یعنی ہدایت ہے۔ (مرآۃج۸،ص۳۴۵)قربتِ رسول و شرفِ صحابیت تو تمام صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان میں مشترک ہے مگر ان کے مراتب میں فرق زمانۂ قبولِ اسلام و زمانۂ رسالت ہی میں خصائل وفضائل کی بناپر ہے۔ چنانچہ مروی ہے ،سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سیِّدُنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے ارشاد فرمایا:’’اے ابوبکر !اللہ پاک نے مجھے نور کے جوہر سے پیدا فرمایا،پس اس جوہر پر نظرِ کرم فرمائی اور مجھے اپنی بارگاہ میں کھڑا کیا تومجھے حیا سے پسینہ آگیااورپسینے کے چار قطرے گر پڑے۔اے ابوبکر! اللہ پاک نے پہلے قطرے سے تمہیں پیدا فرمایا، دوسرے سے عمر کو ، تیسرے سے عثمان کو اورچوتھے سے علی کوپیدا فرمایا، اے ابوبکر! تیرا، عمر، عثمان اور علی کا نور میرے نور سے ہے۔‘‘
(حکایتیں اور نصیحتیں، ص598)
یاد رہے! کہ خلیفۂ اوّل حضرتِ سیدنا صدّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو سرکار ﷺ نے سب پر فضیلت عطا فرمائی ہے اور بوقتِ وصال حضرتِ سیدنا صدّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے خلیفۂ دوم حضرتِ سیدنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ خلیفہ منتخب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’الٰہی میں نے تیری مخلوق پر روئے زمین کے سب سے بہتر انسان کو خلیفہ بنایا۔‘‘
(فیضانِ فاروقِ اعظم، 1/12)
خلیفۂ دوم امیر المؤمنین حضرتِ سیدنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مرادِ رسول تھے، آپ کا دل اللہ پاک کے نور سے منور تھا، اللہ کریم نے شمعِ رسالت کے صدقے ایسا کمال عطا فرمایاتھا کہ آپ کی فہم و فراست ان واقعات و حقائق کا ادراک کر لیتی تھی جو مستقبل میں رونما ہونے والے تھےحق و باطل کی پہچان کرنے میں مہارتِ تامہ حاصل تھی۔قربت و صحبتِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی برکت سے سیرتِ فاروقِ اعظم ایک حسین مرقع ہے۔
خلیفۂ دوم کی کنیت ’’ابو حفص‘‘ اور لقب ’’فاروقِ اعظم‘‘ہے، آپ نے 39 مردوں کے بعد رسالتِ مآب کی دعا سے اعلانِ نبوت کے چھٹے سال میں اسلام قبول کیا۔ آپ کے ایمان لاتے ہی سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مسلمانوں کے ساتھ مل حرمین شریفین میں اعلانیہ نماز ادا فرمائی۔ دورِ رسالت میں سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تمام اسلامی تحریکات اور صلح و جنگ وغیرہ کی تمام منصوبہ بندیوں میں وزیر ومشیر کی حیثیت سے وفادار و رفیقِ کار رہے۔ یارِ غار ومزار خلیفۂ اوّل امیر المؤمنین حضرتِ سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے آپ کو خلیفۂ دوم منتخب فرمایااور آپ تقریباًدس (10)سال چھ(6) ماہ کی مُدَّتْ تک تختِ خلافت پر رونق افروز رہے۔ نمازِ فجر میں بد بخت ابو لؤلؤ فیروز نامی شخص نے خنجر سے وار کیا اور آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے تیسرے دن شرفِ شہادت سے مشرف ہوئے۔ بوقتِ شہادت عمر شریف 63 برس تھی۔حضرتِ سیدنا صہیب نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور حضرتِ سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ یکم محرم الحرام 24 ہجری اتوار کے دن روضۂ انور کے اندر حضرت سیدنا صدّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پہلوئے انور میں مدفون ہوئے۔(الرّیا ض النضرۃ فی مناقِب العَشرۃ ، ۱/ ۲۸۵، ۴۰۸، ۴۱۸، تارِیخُ الْخُلَفاء ص۱۰۸وغیرہ)
حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر اور حضرتِ سیدنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہما کو دنیوی حیات اور بعد ممات بھی سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا قربِ خاص رہا۔ چنانچہ عاشقِ مصطفیٰ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:
محبوبِ ربِّ عَرش ہے اس سبْز قُبّے میں پہلو میں جلوہ گاہ عتیق وعُمَر کی ہے
سَعدَین کا قِران ہے پہلوئے ماہ میں جھرمٹ کئے ہیں تارے تجلِّی قمر کی ہے
(حدائقِ بخشش،219)
حیاتی میں تو تھے ہی خدمتِ محبوبِ خالِق میں کسی اور محبت والے نے کہا ہے : ؎
مَزار اب ہے قریبِ مصطَفٰے فاروقِ اَعظَم کا
(کراماتِ فاروقِ اعظم، ص7)
فرمانِ فاروقِ اَعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ : مجھے وہ شخص محبوب(یعنی پیارا) ہے جو مجھے میرے عیب بتائے ۔
(الطبقات الکبری لابن سعد، 3/222)
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی عظمت و شان کی کیا بات ہے کہ آپ کا شمار ان صحابۂ کرام علیہم الرضوان میں ہو تا ہے کہ جن کے فضائل خود سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی زبان مبارک سے بیان فرمارہے ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایسے فضائل کو بھی بیان فرمایا ہے کہ جو صرف آپ کی شان و عظمت پر مشتمل ہیں آئیے! ان فضائل میں سے ہم بھی سنتے ہیں:
٭ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خود علم عطا فرمایا۔ (بخاری، ۲/۵۲۵، حدیث: ۳۶۸۱ملخصا) ٭ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کی قوت کو بیان فرمایا۔ (بخاری، ۲/۵۲۵، حدیث: ۳۶۸۲ ملخصا) ٭ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایاکہ شیطان آپ کو دیکھ کر اپنا راستہ ہی تبدیل کرلیتا ہے۔ ( بخاری، ۲/۵۲۶، حدیث: ۳۶۸۳) ٭ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ یہ نبی نہ ہونے کے باوجود انبیاء کی طرح کلام کرنے والے ہیں۔ (بخاری، ۲/۵۲۸، حدیث: ۳۶۸۹) ٭ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کی دعا فرمائی۔ (ترمذی، ۵/۳۸۳، حدیث: ۳۷۰۳) ٭ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ ان کے قبولِ اسلام پر آسمان والوں نے بھی خوشیاں منائیں ۔ (ابن ماجہ، ۱/۷۶، حدیث: ۱۰۳) ٭ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔ (ترمذی، ۵/۳۸۵، حدیث: ۳۷۰۶) ٭ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: میرے بعد حق عمر کے ساتھ ہوگا وہ جہاں بھی ہوں۔ (مسند بزار، عطاء بن ابی رباح۔۔۔الخ، ۶/۹۸، حدیث: ۲۱۵۴) ٭ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:فاروقِ اعظم کی محبت ایمان کی ضمانت ہے۔ (کنزالعمال، ۷/۸ ، حدیث: ۳۶۱۱) ٭ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو جنت کی خوشخبری عطا فرمائی۔ (بخاری، ۲/۵۲۹، حدیث: ۳۶۹۳) ٭ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ شیطان بھی ان سے خوف کھاتا ہے۔ (ترمذی، ص۳۸۷، حدیث: ۳۷۱۱) ٭ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ جس سے عمر ناراض ہو جائے اُس سے اللہپاک بھی ناراض ہو جاتا ہے۔
(جمع الجوامع، ۱/۸۳،حدیث۴۳۴)
خلیفۂ دوم، امیر المؤمنین سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی ذات مبارکہ میں سب سے عظیم وصف عشقِ رسول تھا، جس کی بدولت آپ کی ذاتِ مبارکہ میں ایسے اوصاف تھے کہ جن کو دیکھنے والا آپ کی حیاتِ طیبہ سے متأثر ہو جاتاتھا۔ فرمانِ مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے :’’مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ عَلَى رَجُلٍ خَيْرٍ مِنْ عُمَرَ‘‘ یعنی،عمر سے بہتر کسی انسان پر آج تک سورج طلوع نہیں ہوا۔( ترمذی ، ج۵، ص۳۸۴، حدیث:۳۷۰۴)ایک مقام پر ارشاد فرمایا: ’’مَا بَیْنَ لَابَتَیِ الْمَدِ یْنَۃِ رَجُلٌ خَیْرٌ مِنْ عُمَرَ ‘‘ یعنی،مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان عمر سے بہتر کوئی شخص نہیں ۔( فضائل الصحابۃ للامام احمد، ص۴۳۰، الرقم: ۶۸۰) حضرت سیِّدُنا سعید بن مسیب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے فرماتے ہیں :’’لَمَّا نَفَرَ عُمَرُ كَوَّمَ كَوْمَۃً مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ بَسَطَ عَلَیْھَا ثَوْبَہُ وَاسْتَلْقَى عَلَیْھَایعنی ،امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ جب شہر سے باہر کہیں سفر وغیرہ پر جاتے تو راستے میں استراحت کے لیے مٹی کا ڈھیر لگا کر اس پر کپڑا بچھاتے اور پھر آرام فرماتے۔‘‘
( مصنف ابن ابی شیبۃ، ۸/۱۱۵۰، حدیث:۲۱)
حصولِ علم کے لئے چند فرامینِ فاروقِ اعظم ملاحظہ ہوں:
امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک شخص کو اپنی گردن جھکائے پایا تو اس سے ارشاد فرمایا: ’’يَا صَاحِبَ الرَّقَبَةِ اِرْفَعْ رَقَبَتَكَ لَيْسَ الْخُشُوعُ فِي الرِّقَابِ وَاِنَّمَا الْخُشُوعُ فِي الْقَلْبِ یعنی اے گردن نیچی رکھنے والے! اپنی گردن بلند کر کیونکہ خشوع گردنوں میں نہیں دل میں ہوتا ہے۔‘‘
( الزواجر ، ۱/۸۶)
امیرالمومنین حضرت سیِّدُنا عمرفاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں :’’اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا تَوَاضَعَ لِلّٰهِ رَفَعَ اللّٰهُ حَكَمَتَهُیعنی بندہ جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی قدرومنزلت کو بلند فرمادیتاہے۔‘‘
( الزواجر ، ۱/۱۶۳)
امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:’’عَشَرَۃٌ لَا تَصْلُحُ بِغَیْرِ عَشَرَۃٍ یعنی دس چیزیں دس چیزوں کے بغیر درست نہیں ہوسکتیں ۔‘‘پھر ارشاد فرمایا:
٭…’’لَا یَصْلَحُ الْعَقْلُ بِغَیْرِ وَرْعٍ یعنی تقوے کے بغیر عقل درست نہیں ہوسکتی۔‘‘
٭…’’وَلَا الْفَضْلُ بِغَیْرِ عِلْمٍ یعنی علم کے بغیر فضیلت درست نہیں ہوسکتی۔‘‘
٭…’’وَلَا الْفَوْزُ بِغَیْرِ خَشِیَّۃٍ یعنی خوفِ خدا کے بغیر کامیابی درست نہیں ہوسکتی۔‘‘
٭…’’وَلَا السُّلْطَانُ بِغَیْرِ عَدْلٍ یعنی اِنصاف کے بغیر بادشاہت درست نہیں ہوسکتی۔‘‘
٭…’’وَلَا الْحَسَبُ بِغَیْرِ اَدَبٍ یعنی اَدب کے بغیر حسب درست نہیں ہوسکتا۔‘‘
٭…’’وَلَا السُّرُوْرُ بِغَیْرِ اَمْنٍ یعنی اَمن کے بغیر خوشی درست نہیں ہوسکتی۔‘‘
٭…’’وَلَا الْغِنٰی بِغَیْرِ جُوْدٍ یعنی مالداری بغیر سخاوت کے درست نہیں ہوسکتی۔‘‘
٭…’’وَلَا الْفَقْرُ بِغَیْرِ قَنَاعَۃٍ یعنی قناعت کے بغیر فقیر درست نہیں ہوسکتا۔‘‘
٭…’’وَلَا الرِّفْعَۃُ بِغَیْرِ تَوَاضُعٍ یعنی عاجزی کے بغیر بلندی درست نہیں ہوسکتی۔‘‘
٭…’’وَلَا الْجِھَادُ بِغَیْرِ تَوْفِیْقٍ یعنی توفیق کے بغیر جہاد درست نہیں ہوسکتا‘‘
(المنبھات، ص۹۹)۔‘‘
خلیفۂ دوم حضرت سیدنا فاروقِ اعظم کی عظمت و شان بہت نرالی ہے، قرآنِ پاک کی بہت سی آیات جو آپ کی عظمت و شان پر مشتمل ہیں اور آپ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں:
(1)حضرتِ سَیِّدُنا عبدُاللہ بن عبّاسرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمافَرماتے ہیں کہ دو عالَم کے مالک و مختار، مکّی مَدنی سَرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم پر39لوگ اِیمان لاچُکے تھے۔ پھر حضرتِ سَیِّدُنا عُمر فارُوقِ اَعظمرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہمُسلمان ہوئے اور مسلمانوں کی تَعداد چالیس ہوگئی تَب یہ آیَتِ مُبارَکہ نازِل ہوئی:
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
(الانفال:۶۴)
ترجَمۂ کنز الایمان:’’اے غَیب کی خبریں بتانے والے (نبی) اللہ تمہیں کافی ہے اور یہ جتنے مسلمان تمہارے پَیرو ہوئے۔‘‘
(معجم کبیر، ۱۲/۴۷، حدیث:۱۲۴۷)
صَدْرُالافاضِل مولانا سَیِّدنعیمُ الدّین مُرادآبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی اس آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں :سعید بن جُبَیر حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمۡسے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عُمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ایمان لانے کے بارے میں نازِل ہوئی ۔ ایمان سے صرف تینتیس مرد اور چھ عورتیں مُشرّف ہوچکے تھے تب حضرتِ عُمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اسلام لائے ۔
(2)ایک کافِر نے اَمِیْرُ الْمُؤمِنْین حضرت سَیِّدُنا عُمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بارے میں بیہودہ کلمہ زبان سے نکالا تھا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو اس آیتِ مُبارکہ میں صَبْر کرنے اور مُعاف فرمانے کرنے کا حکم ارشاد فرمایا: وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
(بنی اسرائیل:۵۳)
ترجَمۂ کنز الایمان:’’اور میرے بندوں سے فرماؤ وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو بیشک شیطان ان کے آپس میں فساد ڈال دیتا ہے بیشک شیطان آدمی کا کُھلا دشمن ہے ۔‘‘
(خازن، پ۱۵، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ:۵۳،ج۳، ص۱۷۷)
حضرتِ سیدنا فاروقِ اعظم وہ ہستی ہیں جن کے فضائل و کمالات و درجات قرآن میں بیان ہونے ہونے ساتھ ساتھ آپ کی سیرتِ کے حوالے سے سرور، کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زبانی احادیث کریمہ میں ابواب بندی کی گئی ہے:
فرامین ِمصطفے ٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم :
[1]: جِس سے عُمر ناراض ہو جائے اُس سے اللہ تعالی بھی ناراض ہو جاتا ہے۔
(جمع الجوامع ۱/۸۳، الحدیث۴۳۴)
[2]: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عُمر ہوتا۔(سنن ترمذی ،حدیث: ۳۸۰۶)
[3]: جس نے عُمر سے مَحَبَّت کی اُس نے مُجھ سے مَحَبَّت کی اور جس نے عُمر سے بُغض رکھا اُس نے مُجھ سے بُغض رکھا۔
(الشفاء ج۲، ص۵۴)
[4] اللہ تعالٰینے عُمر کی زبان اور قَلْب پر حق کو جاری فرمادیا ہے۔
(سنن الترمذی،حدیث:۳۷۰۲،۵ /۳۸۳)
نماز جو دین ِ اسلام کا رکن ہے وہ حضرت سَیِّدُنا فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے نزدیک تمام کاموں سے اہم ترین ہے چنانچہ امام بُخاری وامام مسلم وامام مالک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ نے حضرت سَیِّدُنا نافِعرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے رِوایت کیا ہے کہ اَمِیْرُالْمُومِنْینحَضرت سیِّدُنا عُمر فاروقِ اَعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنے صُوبوں کے گورنروں کے پاس فرمان بھیجا کہ:’’ تمھارے سَب کاموں سے اَہَم میرے نَزدِیک نماز ہے۔ جس نے اِسے (شرائط و اَرکان کے ساتھ اَدا کرکے)محفوظ رکھا اور اس کی پابندی کی اُس نے اپنا دِین مَحفُوظ رکھا اور جِس نے اِسے ضائِع کیا وہ اَوروں کو بدرجۂ اَولیٰ ضائِع کر ے گا۔" (موطاامام مالک، ۱/۳۵،حدیث:۶) جان بوجھ کر نَماز ترک کرنے والوں کے عذاب کے مُتعلِّق میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمدرضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفتاوٰی رضویہ جلد،9 صَفْحَہ 158پر ارشادفرماتے ہیں: جس نے قَصداً (یعنی جان بوجھ کر) ایک وقت کی (نماز) چھوڑی ہزاروں برس جہنَّم میں رہنے کا مُسْتَحِق ہوا، جب تک توبہ نہ کرے اور اس کی قَضا نہ کر لے۔
(فتاوی رضویہ ،۲۱/۹)
اللہ کریم نے آپ کو ایسی ہیبت عطا فرمائی کہ انسان تو انسان آپ سے شیطان بھی ڈرتا تھا، چنانچہ حضرت سیِّدُنا سَعد بن اَبی وَقّاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے رِوایَت ہے کہ ایک دِن اَمِیْرُالْمُومِنْین حَضرت سیِّدُنا عُمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں اُس وَقت حاضِر ہوئے جب کچھ قریشی عَورتیں آپ سے سُوالات کر رہی تھیں اوراُن کی آوازبھی کافی اُونچی تھی۔جیسے ہی آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ داخِل ہوئے تو وہ عَورتیں آپ کی آواز کو سُنتے ہی دَبَک گئیں اورفوراً ہی خاموشی سادھ لی۔ یہ مَنظردیکھ کر خَاتَمُ الْمُرْسَلِیْن، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم مسکرا ادیئے۔حضرت سَیِّدُنا عُمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اُن عورتوں کو مُخاطَب کرکے کہا:" اے اپنی جان کی دُشمنو! مُجھ سے تمہیں خَوف آتا ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبُوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم سے نہیں آتا۔‘‘ تو اُنہوں نے عَرض کیا:" رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم تو نِہایَت ہی خوش مِزاج اور نَرم دِل ہیں آپ اِن کے مُقابلے میں سَخْت ہیں۔‘‘یہ سُن کر رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا:" اے عُمر!جس راستے پر چلتے ہوئے تمہیں شیطان دیکھ لے گا، وہ اُس راستے کو چھوڑ دے گا۔‘‘
(بخاری، ۲/۵۲۶، حدیث: ۳۶۸۳ ملتقطا)
مضمون کو اختتام کی طرف لاتے ہوئے خلاصۂ کلام کو بیان کیا جاتا ہے، حضرتِ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت اور سیرت طیبہ سے متعلق پڑھ کر اس بات کا پتہ چلتا ہے آپ کی سیرتِ مبارکہ سے ہمارے لئے بھی تربیتِ بے شمار مدنی پھول ہیں ۔ آپ کے بارے میں ہر پہلو سے معلومات حا صل کرنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعات کراماتِ فاروقِ اعظم، دو جلدوں پر مشتمل فیضانِ فاروقِ اعظم کا مطالعہ بے حد ضروری ہے اور مذکورہ مواد بھی انہی کتب سے ماخوز ہے تفصیلات کے لئے انہی کتب کی طرف رجوع کیجئے۔