شبِ قدر
شبِ قدر
اللہ تعالی نے اہل ایمان کو اپنی عبادات کے لئے خاص فرمایا اورانہیں عبادات کے ایسے مواقع عطافرمائے جن میں وہ عبادات کی لذت سے سرشار ہوکر اپنے معبود حقیقی کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے کی کوششیں کرسکیں،جیساکہ ہر روز رات کی پچھلی گھڑی میں آسمان دنیا سے ندا دی جاتی ہے کہ دسترخوان رحمت سج رہا ہے کوئی ہے کہ ہمارے در رحمت پر جبین نیاز جھکاکر ہم سے خیر طلب کرے اور ہم اس کی تمناؤں کو برآور کریں۔یہ ہی وہ وقت ہوتا ہے جب سحر خیز ی کرنے والے مناجات الہی کی لذتوں سے شاد کام ہوتے ہیں ۔پھر کرم الہی کی بارشیں مختلف اوقات میں مختلف خیر وبرکات کے ساتھ نازل ہوتی رہتی ہیں تاکہ ہر کوئی رحمت عامہ سے اپنے دامن کو بھر لے یہ سلسلہ سال بھر چلتا رہتاہے۔پھر کچھ خاص گھڑیاں اور ایام ایسے ہوتے ہیں جن میں لطف الہی کی عطائیں بارش کےقطروں سے بھی زیادہ تیز برستی ہیں ،لمحہ بھر کی عبادت کا ثواب ہزارمہینوں کی عبادت سے زیادہ ہوجاتاہے،پھر ان عبادات کے لمحات کو دیگر عبادات کے اوقات پر فضیلت بھی عطاہوتی ہے،خیر وبرکات کا حصول آسان کردیا جاتا ہے،انعام الہی کی نوازشیں چھماچھم برسنا شروع ہوجاتی ہیں، خیر کے دروازے سب کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں،توبہ واستغفار ،ندامت کے آنسوکے ساتھ جبین سائی کرنے والے پر الطاف ربانی موسلادھارمینہ بن کر برستا ہے ،نیکی کی جزا وثواب سترگنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوجاتاہے،نیک اعمال کے حصول میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو ہٹادیاجاتاہے، انسانی دلوں میں آنے والے تمام خرافاتی اندیشے ، شیطانی وسوسے ، فکر ی آزادی، بےراہ روی کےراستوں میں رکاوٹ کھڑی کردی جاتی ہے،ضبط نفس اور تربیت احوال کا نظام روزہ کی صورت میں متعارف ہوتاہے،قوت شہوت کو توڑنے اورشیطانی راستوں کو مخدوش کرنےکےلئے دن بھر بھوکہ پیاسا رہنے کی مشق کروائی جاتی ہے، انسان کے فطرتی حسن کو پائمال کرنے والے اعمال، جھوٹ،لڑائی، جھگڑا،غیبت، حرام خوری، حرام نظری جیسے غیر فطری افعال کی مکمل بیخ کنی کردی جاتی ہے۔ یہ بہار آفریں ایام ، یہ موسم نیک اعمال ماہ رمضان میں ہر مسلمان کو نصیب ہوتے ہیں اور خود قرآن ماہ نزول قرآن کو’’ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍؕ ‘‘ گنتی کے دن ہیں کہتا ہے۔پھر ان گنتی کے30 ایام کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا:ایک حصہ رحمت کا ،دوسرا حصہ مغفرت کا اور تیسرا حصہ جہنم سے آزادی کا ۔
پھر اس ماہ صیام میں اہل ایمان کےلئے ایک اور بہت بڑی نعمت ارزاں ہوتی ہے ،اس مہینے میں ایک خاص تحفہ امت محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ والسلام کو ملتا ہے،ایک عظیم عظمت وشان والی رات عطاکی جاتی ہے۔یہ رات اتنی اہمیت والی ہے کہ قرآن میں اس کا ذکر ایک الگ سورت میں کیا جاتاہے۔ارشاد خداوندی ہوتاہے:’’ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ(۱) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ(۲) لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ(۳) ‘‘ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے اس قرآن کو شب ِقدر میں نازل کیا۔اور تجھے کیا معلوم کہ شب ِ قدرکیا ہے؟شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
گویا شہر رمضان کو لیلۃ القدر کے ذریعے الگ شان دی گئی ،ماہ رمضان کو شب قدر کی وجہ سے ممتاز حیثیت حاصل ہوئی،اور یہ کیوں اتنی فضیلتیں عطاہوئی اسیلئےکہ اس رات اللہ کی عظمتوں والی کتاب کا نزول ہوا، اللہ نے اپنی قدرومنزلت والی کتاب ،اپنے قدرومنزلت والے رسول پر ا س قدر ومنزلت والی رات میں اتاری۔
اَلرَّوْضُ الْفَائِق فِی الْمَوَاعِظِ وَالرَّقَائِق ترجمہ بنام حکایتیں اورنصیحتیں میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہےکہ :’’ اللہ عزَّوَجَلَّ نے لوحِ محفوظ سے بیتُ العزَّت کی طرف ایک ہی دفعہ پورا قرآنِ حکیم ماہِ رمضان، شب ِ قدرمیں نازل فرمایا۔''مفسرینِ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:''بیت العزت آسمانِ دنیا میں ہے۔ ‘‘
(حکایتیں اور نصیحتیں،ص ۱۰۰)
اس رات کی نسبت قدر کی طرف کیوں کی گئی اس کی وجہ جاننے کےلئے لفظ قدر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
(۱)۔۔۔۔۔۔قدر کامعنی عظمت ہے، اورچونکہ یہ رات بھی عظمت والی ہے اس لئے اسے لیلۃالقدر کہا جاتا ہے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔قدر کا معنی تنگی ہے، چونکہ اس رات زمین اپنی وسعت کے باوجود فرشتوں کی کثرت کی وجہ سے تنگ ہوجاتی ہے،اس لئے اسے لیلۃالقدر کہا جاتاہے۔
(۳)۔۔۔۔۔۔قدر کا معنی حکم ہے،چونکہ اس رات اشیاء کے متعلق ان کی حقیقتوں کے مطابق فیصلے کئے جاتے ہیں اس لئے اسے لیلۃ القدر کہا جاتاہے۔
(۴)۔۔۔۔۔۔قدر کامعنی عزت ہے یعنی جس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہو وہ بھی اس رات کی برکت سے صاحب ِ قدر ہوجاتاہے۔ اس لئے اس کانام لیلۃالقدر ہے۔
(۵)۔۔۔۔۔۔یا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں قدر والی کتاب نازل ہوئی،یایہ کہ اس میں قدر والے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔
(حکایتیں اور نصیحتیں،ص ۱۰۱)
شب قدر کی عظمت یہ ہےکہ اس میں کی گئی عبادات کا ثواب ہزارمہینوں میں کی گئی عبادات کے ثواب سے زیادہ ہوتاہے چنانچہ سیِدُناانس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک بارجب ماہِ رَمَضانُ المبارک تشریف لایاتوسلطانِ دوجہان مدینے کے سلطان، رَحمت عالمیان، سرورِذیشانصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’تمہارے پا س ایک مہینہ آیاہے جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویاتمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتامگروہ شخص جوحقیقۃًمحروم ہے۔‘‘(سنن اِبْنِ ماجَہ ، ج۲، ص۲۹۸، الحدیث۱۶۴۴دارالکتب العلمیہ بیروت،خوش نصیبی کی کرنیں ،ص ۲ تا۳)
اس عظمت نشان رات کے بارے میں سور قدر میں ارشاد باری تعالی ہے: تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْۚ-مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ(۴) سَلٰمٌ ﱡ هِیَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠(۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس رات میں فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں ۔ یہ رات صبح طلوع ہونے تک سلامتی ہے ۔
رمضان المبارک کے فضائل وبرکات سے متعلق ایک منفرد علمی نگارشات سے بہرپور کتاب’’ فیضان رمضان‘‘ میں شیخ طریقت امیراہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری اس عظمت نشان لیلہ القدر کےبارے میں حدیث نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ایک فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا حصہ ہے: ’’جب شب قدر آتی ہے تو حکمِ الٰہی سے (حضرتِ) جبریل (عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) ایک سبز جھنڈا لئے فرشتوں کی بہت بڑی فوج کے ساتھ زمین پرنزول فرماتے ہیں (اور ایک روایت کے مطابق:’’ اِن فرشتوں کی تعداد زمین کی کنکریوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے‘‘۔مسند احمد ،ج۳،ص۶۰۶، حدیث ۱۰۷۳۹،فیضان رمضان ،ص۱۷۲) سبز جھنڈا کعبۂ مُعَظّمہ پر لہرادیتےہیں۔ (حضرتِ)جبریل(عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)کے سو بازُو ہیں ، جن میں سے دوبازُو صرف اِسی رات کھولتے ہیں ، وہ بازُو مشرق ومغرب میں پھیل جاتے ہیں ،پھر( حضرتِ)جبریل(عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) فرشتوں کو حُکم دیتے ہیں کہ جو کوئی مسلمان آج رات قیام ،نماز یا ذِکرُاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ میں مشغول ہے اُس سے سلام ومصافحہ کرونیز اُن کی دُعاؤں پر آمین بھی کہو ۔ چنانچہ صبح تک یہی سلسلہ رہتا ہے ۔ صبح ہونے پر(حضرتِ)جبریل(عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) فرشتوں کو واپسی کا حکم دیتے ہیں ۔ فرشتے عرض کرتے ہیں : اے جبریل (عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اُ مَّتِ محمدیہ(عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام)کی حاجتوں کے بارے میں کیا معاملہ فرمایا؟( حضرتِ) جبریل (عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) فرماتے ہیں : ’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اِن لوگوں پر خصوصی نظر کرم فرمائی اور چار قسم کے لوگوں کے علاوہ سب کو معاف فرما دیا۔‘‘ صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے عرض کیـ:’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وہ چار قسم کے لوگ کون ہیں ؟‘‘ ارشاد فرمایا: {۱} ایک تو عادی شرابی {۲} دُوسرے والدین کے نافرمان {۳}تیسرے قطع رِحمی کرنے والے (یعنی رشتے داروں سے تَعلُّقات توڑنے والے) اور {۴} چوتھے وہ لوگ جو آپس میں عداوت رکھتے ہیں اور آپس میں قطع تعلق کرنے والے۔‘‘
(شُعَبُ الْایمان ج۳ص۳۳۶حدیث۳۶۹۵،فیضان رمضان،ص ۱۷۳)
شب قدر وہ عظیم رات ہے جس میں ادا کی جانے والی دورکعت کا ثواب، ایک روپیہ صدقہ کرنے کی فضیلت،ایک آیت تلاوت کرنے کی جزا چوراسی( 84 )سال چار ( 4 )ماہ کی عبادت سے بھی زیادہ ہوتی ہے اسیلئے اس انعام خداوندی کو چھپایا گیا ،ثواب کمانےکےلئے جستجو کی تڑپ پیداکی گئی، ہزاروں ماہ کی عبادت کاثواب پانے کےلئےرمضان کے آخری عشرے کی پانچ راتوں کو مخصوص کیا گیا۔چونکہ اس رات کی عظمت دیگر راتوں سے کئی گنا بڑ ھ کر ہے اسیلئے امت کو اس کی تلاش کےلئے برانگیختہ کیا گیا ۔بخاری شریف میں ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شب قدر، رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں (یعنی اِکیسویں ، تیئسویں ، پچیسویں ، ستائیسویں اوراُنتیسویں راتوں ) میں تلاش کرو۔ ‘‘
( بُخاری ج۱ص۶۶۱حدیث۲۰۱۷،فیضان رمضان ،ص۱۷۹)
عالم اسلام کی عظیم علمی وروحانی شخصیت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری اپنی مشہور کتا ب ’’فیضان رمضان‘‘ میں تفسیر کبیر کے حوالے سے شب قدر کی پوشید رکھنے کی حکمتوں کے بارے میں فرماتے ہیں :’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے شبِ قدر کو چند وجوہ کی بنا پر پوشیدہ رکھا ہے۔ اوّل یہ کہ جس طرح دیگر اشیا کو پوشیدہ رکھا،مَثَلاً اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی رِضا کو اطاعتوں میں پوشیدہ فرمایا تاکہ بندے ہر اطاعت میں رَغبت حاصِل کریں ۔ اپنے غضب کو گناہوں میں پوشیدہ فرمایا کہ ہر گناہ سے بچتے رہیں ۔ اپنے ولی کو لوگوں میں پوشیدہ رکھا تا کہ لوگ سب کی تعظیم کریں ،قبولیت دعا کو دعاؤں میں پوشیدہ رکھا کہ سب دعاؤں میں مُبالغہ کریں اور اسمِ اعظم کو اَسما میں پوشیدہ رکھا کہ سب اسما کی تعظیم کریں ۔اور صلوۃِ وسطیٰ کو نمازوں میں پوشیدہ رکھا کہ تمام نمازوں پر محافظت(یعنی ہمیشگی اختیار) کریں اور قبولِ تو بہ کوپوشیدہ رکھاکہ بندہ توبہ کی تمام اَقسام پر ہمیشگی اختیار کرے، اور موت کا وَقت پوشیدہ رکھا کہ مُکلَّف (بندہ) خوف کھاتا رہے۔ اسی طرح شبِ قدر کوبھی پوشیدہ رکھا کہ َرمَضان الْمُبارَک کی تمام راتوں کی تعظیم کرے۔ دوسرے یہ کہ گویا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّارشاد فرماتا ہے: ’’اگر میں شب قدر کو مُعَیَّن(Fix) کر (کے تجھ پر ظاہر فرما)دیتا اور یہ کہ میں گناہ پر تیری جُرْأَت بھی جانتا ہوں تواگرکبھی شہوت تجھے اِس رات میں معصیت کے کنارے لا چھوڑتی اور تو گناہ میں مبتلا ہوجاتا تو تیرا اِس رات کو جاننے کے باوُجود گناہ کرنا لاعلمی کے ساتھ گناہ کرنے سے بڑھ کر سخت ہوتا، پس اِس وجہ سے میں نے اِسے پوشیدہ رکھا ۔ تیسرے یہ کہ میں نے اِس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ بندہ اِس کی طلب میں محنت کرے اور اِس محنت کا ثواب کمائے۔ چوتھے یہ کہ جب بندے کو شب قدر کا تعین حاصِل نہ ہوگا تو رَمَضانُ الْمُبارَک کی ہر رات میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں کوشش کرے گا اِس امید پر کہ ہوسکتا ہے یہی رات شبِ قدر ہو۔ ‘‘
(تفسِیرِ کبیر ج۱۱ص۲۹ مُلَخَّصاً ،فیضان رمضان ،ص ۱۸۰تا۱۸۱)
شب قدر کی علامات اور نشانیاں کس رات میں ظاہر ہوتی ہیں اس بارے میں بہت سے اکابر علما اور بزرگان دین کے تجربات اور مشاہدات سے رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کے بارے میں اقوال ملتے ہیں جیساکہ صحابی رسول سیِّدُالقراء، حضرتِ سَیِّدُنا اُبَیِّ بْنِ کَعْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے نزدیک ستائیسویں شبِ رَمضان ہی’’ شب قدر‘‘ ہے۔
(مسلم ص۳۸۳حدیث۷۶۲،فیضان رمضان،ص۱۸۴)
حضرتِ سَیِّدُنا شاہ عبد العزیز محدّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی بھی فرماتے ہیں کہ شب قدر رَمضان شریف کی ستائیسویں رات ہوتی ہے۔
(تَفسِیر عَزیزی ج۳ص۲۵۹ ملخّصاً،فیضان رمضان ،ص۱۸۵)
سلسلہ شاذلیہ کے عظیم پیشوا حضرت شیخ ابو الحسن شاذلی رحمۃ اللہ علیہ نے رمضان المبارک کے پہلے روزے کے حساب سے اپنا مشاہدہ ذکر کیا ہے جس کو امیر اہلسنت حضرت مولانا محمد الیاس قادر ی نے اپنی مشہور کتاب فیضان رمضان میں بھی تفسیر صاوی کے حوالے سے ذکر کیا آپ ہی کی کتاب سے ایک اقتبا س شب قدر کے تعین میں پیش کیا جاتاہےچنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ:’’ سلسلۂ قادریہ شاذِلیہ کے عظیم پیشوا حضرتِ سَیِّدُنا شیخ ابُو الْحَسن شاذِلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی (متوفّٰی656ھ)فرماتے ہیں : ’’جب کبھی اتوار یا بُدھ کو پہلا روزہ ہوا تَو اُنتیسویں شب ، اگرپیر کا پہلا روزہ ہو ا تو اکیسویں شب، اگر پہلا روزہ منگل یاجمعہ کو ہوا تو ستائیسویں شب اگر پہلا روزہ جمعرات کو ہوا تو پچیسویں شب اور اگر پہلاروزہ ہفتے کو ہوا تو میں نے تئیسویں شب میں شَبِ قَدْر کوپایا۔ ‘‘
(تفسِیرِ صاوی ج۶ص۲۴۰۰،فیضان رمضان ،ص۱۸۴)
سال 2024 کا پہلا روزہ منگل کو تھا تو شیخ ابو الحسن شاذلی رحمۃ اللہ علیہ کے مشاہدات کی روشنی میں اس سال شب قدر 6 اور 7اپریل2024 یعنی ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات ( شب اتوار) کو شب قدر کے امکانات ہیں۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ۔
یعنی اےاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!بیشک تو معاف فرمانے والا ہے اور معافی دینا پسند کرتا ہے لہٰذا مجھے مُعاف فرما دے ۔
اُمّ الْمُؤمِنِینحضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَارِوایَت فرماتی ہیں : میں نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم میں عرض کی : ’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو کیا پڑھوں ؟‘‘ فرمایا: اِس طرح دُعا ما نگو: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ۔ یعنی اےاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!بیشک تو معاف فرمانے والا ہے اور معافی دینا پسند کرتا ہے لہٰذا مجھے مُعاف فرما دے ۔
( تِرمذی ج۵ص۳۰۶حدیث۳۵۲۴،فیضان رمضان ،ص۱۸۶)
رمضان کریم کو عبادات ،ذکر واذکار، تلاوت قرآن ، طلب رحمت ومغفرت کا موسم کہاجاتاہے اس کے جس طرح ایام فضیلتوں والے ہیں اسی طرح اس ماہ مقدس کی راتیں بھی یمن وبرکت سے لبریز ہیں ،دن میں روزہ رات میں تراویح ، وقت افطارمناجات، وقت سحری فریاد ومناجات اس مہینے کی خاص رونقیں ہیں اور اگر ماہ رمضان کی عبادات کی حقیقی لذتوں کو دیکھنا ہو تو ایک منظر عالمی مدنی مرکزفیضان مدینہ کا دیکھتے ہیں جہاں ایک طرف پورا ماہ کا اعتکاف کرنے والے رمضان الکریم کی نور بداماں ساعتوں کو اپنے کریم شیخ کی صحبت بابرکت میں رہ کر حصول علم دین ، اصلاح نفس، تزکیہ باطن کے ساتھ عبادات کرتے ہوئے گزارتے ہیں وہیں آخری عشرے میں ہزاروں کی تعداد میں اعتکاف کرتے ہیں اور شب قدر کی تلاش میں پانچوں راتیں شیخ کریم کی نظر عنایت سے ذکر ودعا، تسبیح وتہلیل ، حمد وثناء، گریہ وزاری، صلاۃ التسبیح، مناجات میں بسر کرتے ہیں ۔پھر ستائیسویں شب ایک روح پرور اجتماع ذکر ونعت ہوتاہے ۔پرکیف منظر، رمضان المبارک کی الوداعی راتیں ، غم رمضان، لذت عبادات، فکر آخرت، آہ وفغاں ، توبہ واستغفار، سجدوں کی لطافت، ذکرکی لذت کےساتھ شیخ کامل کے علم وادب سے بھرپور مدنی مذاکرے ، علم کی محفلیں، پرسوز بیانات، عشق ومحبت الہیہ سے لبریز مناجات و دعائیں، زندگی بدلنے والے لمحات، گناہوں سے توبہ کرنے کا موقع نصیب ہوتا ہے۔
امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتھم العالیہ نے مسلمانوں میں رمضان الکریم کی اہمیت اجاگرکرنےکےلئے’’ فیضان رمضان‘‘ کے نام سے ایک لاجوا ب کتاب تحریر فرمائی۔اس کتا ب میں فضائل رمضان شریف سے لیکر رمضان کی عبادات،رمضان گزارنےکے عملی طریقہ، رمضان الکریم کے فیض سے مستفیض ہونے کے اسباب،اعتکاف، تراویح، تلاو ت قرآن، ذکر واذکار ،عبادات ریاضت کامکمل شیڈول مرتب کیا ۔رمضان المبارک عبادات میں گزارنے کےلئے ایک مکمل گائیڈ اس کتاب میں موجود ہے۔اس کتاب کا مطالعہ ہو اور رمضان کے ایام پھر دیکھئے عبادات میں ذوق وشوق کیسے بڑھتا ہے۔