Tauba Karnay Walon kay Waqiyat

Book Name:Tauba Karnay Walon kay Waqiyat

گا؟یادرکھئے !مُوسیقی شیطانی اِیْجادہے،اس بارے میں دُنیائے اِسْلام کے مشہور ومَعْروف حَنَفی بُزرگ،عارف بِاللّٰہ،حضرتِ سیِّدُنا داتاعلی ہجویری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیسےمَنْقُولایک رِوایت کا خُلاصہ ہے:اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے حَضْرتِ سیِّدُنا داوٗد عَلٰی نَبِیِّنَاوَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوبے حدسُریلی آوازعطا فرمائی تھی، آپ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خُوش اِلحانی سے پہاڑ وَجدمیں آ جاتے،پَرِندے اُڑتے اُڑتےگِرپڑتے، چَرِند ے اور دَرِند ے آواز سُن کر جنگلوں سے نکل آتے،دَرَخت جُھومنے لگتے،بہتا پانی تھم جاتا،جنگلی جانور وغیرہ ایک ایک ماہ تک کھانا پینا چھوڑ دیتے،چھوٹے بچّے رونا اور دُودھ مانگنا تَرک کر دیتے، آپ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پُرسَوزآواز کے اَثر سے بعض اَوْقات اِنسانوں کی رُوحیں پرواز کر جاتیں۔ ایک بارآپ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی پُرسوز آواز سُن کر100عورَتیں وفات پا گئیں۔شیطٰن ،آپ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نیکی کی دعوت کے اِس اندازسے بَہُت پریشان تھا۔آخِرکار اِس نے بنسری اورطَنْبُورہ (طَم۔بُورَہ) بنایا اور خُوب گایا بَجایا۔اب لوگ دوگُروہوں میں تقسیم ہوگئے جو سَعاد ت مند تھے وہ حَضْرتِ سیدُناداوٗد عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پُرسَوز آوازکے شیدائی ہوئے اور جو گمراہ تھے وہ شیطان کے سازوں اور گانوں کی طرف مائل ہو گئے۔(کَشْفُ الْمَحْجوب ص۴۵۷بِتَّغیُّر)

واقِعی گانا شیطان ہی کی ایجاد ہے جیسا کہ ’’تفسیراتِ اَحمدِیَّہ‘‘کی اس رِوایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’ شیطان نے سب سے پہلے نَوحہ کیااورگانا گایا۔‘‘(تفسیراتِ اَحمدیہ ص۶۰۱،اَلْفِردَوس بمأثور الْخطّاب ج۱ص۲۷حدیث۴۲)

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!معلوم ہوا کہ گانے باجوں کا مُوجِد(یعنی اِیجاد کرنے والا)شیطان مَلْعُوْن ہے اور گانے باجے سُننا، سُنانا شیطان کے نقشِ قدم پر چلنا چلانا ہے،آئیے! گانے باجے کی مَذمَّت پر چار(4) روایات سُنْتے ہیں :

 (1)دو آوازوں پر دُنیا و آخِرت میں لَعْنت ہے(۱)نِعمت کے وَقْت باجا(۲)مُصیبت کے وَقْت  نوحہ کرنا ( یعنی چِلّانا)۔(اَلْکامِل فِی ضُعَفاءِ الرِّجال لابن عَدِی ج۷ص۲۹۹)