Faizan-e-Imam Azam

Book Name:Faizan-e-Imam Azam

اعظم ابُوحنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  (کی ذات ِ بابرکت )مراد ہے۔ اس میں اَصلاً شک نہیں ہے،کیونکہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے زَمانے میں اَہلِ فارس میں سے کوئی شَخْص علم میں اُن کے رُتبے کو نہ پہنچا، بلکہ ان کے شاگردوں کے (علمی )مرتبے تک بھی رَسائی نہ ہوئی اوراس میں سرورِ عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کُھلا مُعْجِزَہ (بھی )ہے کہ آپ صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غیب کی خبر دی ،جو ہونے والاہے بتادیا ۔ (الخیرات الحسان، ص۲۴)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہ بات  اَظْہَرُ مِنَ الشَّمْسِ وَ اَبْیَنُ مِنَ الْاَمْس (یعنی سُورج سے زیادہ روشن اور روزِگزَشتہ سے زیادہ قابِلِ یقین)ہوگئی  کہ ہمارے پیارے پیارے آقا،مکّی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عَطا ئے الٰہی سے علمِ غیب حاصل  ہے، جبھی تو آپ صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حَضْرتِ سَیِّدُنا امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ  الْاَکْرَم کی آمدسے پہلے ہی آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہ کی زَبَردَسْتْ علمی قابِلیَّت  وصَلاحیَّت  کی خبردی۔اب جیساآپ صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ویسا ہی ظُہوربھی  ہوا۔ امامِ اَعْظم رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہ اس دُنیا میں تشریف لاۓ  اور چہار سُو(چاروں جانب) آپ کی علمی شُہرت کے ڈَنکے بجنے لگے،ہر طرف علم کی روشنی پھیل گئی۔آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہ کے نام ِنامی ،اسمِ گرامی”نُعمان “ کے لُغْوی معنی کو دیکھیں تو آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہ واقعی اسمِ بامُسمیّٰ  یعنی اپنے نام کے مصداق ہیں۔چُنانچہ شیخ الاسلام شہاب الدّین امامِ احمد ابنِ حجر ہیتمی مکی شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ  الْقَوِی  فرماتے ہیں : عُلَماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہ کا نام ”نُعْمان “ ہی ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہ کے نام میں بھی ایک لَطیف بات مَوْجُود ہے۔وہ یہ کہ نُعْمان کی اَصْل ایسا خُون ہے  جس سے اِنْسانی  جِسْم (کا ڈھانچہ) قائِم ہوتاہے۔ تو (اس طرح ) سَیِّدُنا امامِ اَعْظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ  الْاَکْرَم کو نُعمان کہنے کی وَجہ یہ ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہ ہی فقہِ اسلامی کی بُنیاد ہیں۔(الخیرات الحسان،ص۳۱)