Book Name:Madinay Ki Khasoosiyat
مشہور کتاب)”مُؤََطَّا“پر جمع کروں جس طرح امیرُالمؤمنین حضرت سَیِّدُنا عثمان بن عَفَّان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے لوگوں کو ایک قرآن پر جمع کیا تھا۔“آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ نے فرمایا:لوگوں کو صرف”مُؤََطَّا“پر اِکٹھا کرنے کا تو کوئی جواز نہیں کیونکہ اللہ پاک کے محبوبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وِصالِ ظاہری کے بعد صحابَۂ کرام رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہِمْ اَجْمَعِیْن مختلف شہروں میں چلے گئے،وہاں انہوں نے اَحادیث بَیان فرمائیں جس کی وجْہ سے اَب مصر کے ہر شخص کے پاس اَحادیث کا عِلْم ہے اور مُصْطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھی اِرْشاد فرمایا کہ’’میری اُمّت کا اِختلاف رحمت ہے۔“([1])اور رہا(مدینہ چھوڑ کر)تمہارے ساتھ جانا تو اِس کی بھی کوئی صورت نہیں کیونکہ فرمانِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے کہ”مدینہ اُن کے لئے بہتر ہے اگر وہ سمجھیں۔“([2])ایک روایت میں ہے: مدینہ(گناہوں کے)میل کو ایسے چُھڑاتا ہے جیسے بھٹی لوہے کا زنگ دور کرتی ہے۔‘‘ ([3])پھر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ نے خلیفہ ہارونُ الرَّشید سے فرمایا:”یہ رہے تمہارے دینار چاہو تو اِنہیں لے لو اور چاہو تو چھوڑ دو۔“یعنی تم مجھے اِسی وجْہ سے مدینہ چھوڑنے پر پابندکرتے ہو کہ تم نے میرے ساتھ اچھا سُلوک کیا ہے تو(سُنو!) میں مدینۂمُنَوَّرَہپردنیاکو ترجیح نہیں دیتا۔(احیاء العلوم،۱/۱۱۳)
جو یادِ مدینہ میں دن رات تڑپتے ہیں دور اُن سے مدینے کا دربار نہیں ہوتا
(وسائل بخشش مرمم،ص۱۶۴)