Book Name:Ziada Waqt Naikiyon Main Guzarnay K Nuskha
“ تفسیرِ کبیر “ میں ہے ، ایک بُزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں نے سُوْرَۃُ الْعَصْر کی دوسری آیت کا معنی برف بیچنے والے سے سیکھا ، وہ آواز لگا رہا تھا : اِرْحَمُوْا مَنْ يَّذُوْبُ رَأْسُ مَالِہٖ لوگو! اس شَخْص پر رحم کھاؤ...!! جس کا سرمایہ پگھل رہا ہے ، اس کی عِبْرَت انگیزصداسُن کر میں نے کہا : یہ ہے “ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ(۲) (ترجمہ کنز الایمان : بے شک آدمی ضرور نقصان میں ہے) “ کا مطلب ، انسان کی زندگی بھی برف کی طرح پگھل رہی ہے ، جو اس میں نیکی نہ کمائے وہ سَخْت نقصان میں ہے۔ ([1])
ہو رہی ہے عمر مثل بَرْف کم رَفْتَہ رَفْتَہ ، چپکے چپکے ، دم بدم
پارہ 27 ، سُوْرَۃُ الذَّارِیَات ، آیت : 56 میں ارشاد ہوتا ہے :
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶) (پ۲۷ ، الذريٰت : ۵۶)
ترجمہ کنز الایمان : اور میں نے جنّ اور آدمی اتنے ہی(اسی لیے)بنائے کہ میری بندگی کریں۔
مَعْلُوم ہوا اِنْسانیت اور عِبادت لازِم ، مَلْزوم(یعنی آپس میں جُڑے ہوئے) ہیں ، جو عِبادت نہیں کرتا ، اِنْسانیت سے لاتَعَلُّقْ ہے۔ ([2])
مشہور صوفی بُزرگ مولانا جلال الدین رومی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اگر بادشاہ تمہیں کسی خاص کام سے کہیں بھیجے ، تم راستے میں اَوْر بہت سارے کام کرو مگر وہ خاص کام جس کے لئے بادشاہ نے بھیجا ہے ، وہ کرنا بھول جاؤ تَو بتاؤ کیا بادشاہ تم سے خوش ہو گا؟ ہر گز نہیں