Book Name:Ala Hazrat Aik Peer-e-Kamil
انجینئر صاحب کہا کرتے تھے۔ ایک بار یہ شہر سے باہَر کہیں سَفَر پر گئے ، وہاں لوگوں نے بتایا کہ یہاں ایک پہاڑ کی چوٹی پر ایک نیک بزرگ رہتے ہیں مگر وہ کسی کو اپنے پاس نہیں آنے دیتے ، اگر کوئی پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش کرے تو اُوپَر سے پتھر گِرنے لگتے ہیں ، یُوں پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش کرنے والا واپس پلٹ جاتا ہے۔ انجینئر صاحب نے جب یہ سُنا تو پَکّا ارادہ کر لیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ، میں اُن بزرگ کی زیارت کے لئے ضرور جاؤں گا۔ چنانچہ انجینئر صاحب پہاڑ کی جانِب چل دئیے ، جب انہوں نے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا تو واقعی پتھر لڑھکتے ہوئے آنے لگے ، انجینئر صاحب بھی ارادے کے پَکے تھے ، انہوں نے ان پتھروں کی کوئی پرواہ نہ کی اور نظر جھکائے پہاڑ پر چڑھتے چلے گئے ، انجینئر صاحب ہی کا بیان ہے : میں جُوں جُوں قدم بڑھاتا جا رہا تھا ، پتھروں کی کھڑ کھڑاہٹ بڑھ رہی تھی ، ایسا بھی ہوا کہ کچھ پتھر بالکل میرے قریب سے نکل گئے مگر میں نے ہمّت نہ ہاری اور پہاڑ پر چڑھتا گیا۔ آخر جب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک نیک بزرگ گردن جھکائے بیٹھے ہیں ، خاموشی سے میں ان کے قریب کھڑا ہو گیا ، کافِی دیر بعد اُنہوں نے نظر اُٹھا کر میری طرف دیکھا ، میں نے سلام عرض کیا ، انہوں نے سلام کا جواب دیا اور ساتھ ہی فرمایا : بابا! میرے پاس کیوں آیا ہے؟ تیرا حِصَّہ تو مولانا احمد رضا خان صاحب کے پاس بریلی میں ہے۔
انجینئر صاحب نے یہ سُنا تو فوراً سلام کر کے واپس آگئے اور بریلی میں اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خِدْمت میں پہنچ کر اعلیٰ حضرت کے مرید ہو گئے۔ ([1])
اللہ اللہ نو بہار عظمتِ احمد رضا غنچہ غنچہ ہے زبانِ مدحتِ احمد رضا
سایۂ قصرِ دَنیٰ میں منزلت پایا ہوا کتنا اونچا ہے مقامِ عزتِ احمد رضا