Book Name:2 Khatarnak Bhediya
ہے ، کیا اس مال کو خرچ کرنے کے لئے دِن بھی جمع کر رہا ہے۔ ( [1] )
یہ ایک کھلی حقیقت ( Reality ) ہے ، مال جب تک ہمارے پاس ہو ، چاہے تجوریاں بھری ہوئی ہوں ، ہم کروڑوں روپے کے مالِک ہوں ، یہ مال ہمیں بالکل نفع نہیں پہنچا سکتا ، مال کا فائدہ اُس وقت ہوتا ہے جب آدمی اسے خرچ کرتا ہے اور مال کو خرچ کرنے کے لئے وقت چاہئے ، زِندگی چاہئے ! سانسیں چل رہی ہوں ، تب ہی آدمی مال سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے مگر معاملہ ایسا ہے کہ آدمی مال کے پیچھے بھاگتا ہے ، روپیہ روپیہ کر کے مال جمع کرتا ہے ، اس کی تجوری میں مال بڑھتا جاتا ہے ، بینک بیلنس میں اِضَافہ ہوتا جاتا ہے لیکن آہ ! اس کے ساتھ ساتھ زِندگی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اِدھر تجوری بھرتی ہے ، اُدھر زِندگی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔
سیٹھ جی کو فِکْر تھی کہ اِکْ اِکْ کے دَسْ دَس کیجئے !
موت آ پہنچی کہ مسٹر جان واپس کیجئے !
اب 2ہی کام ہوتے ہیں؛ ( 1 ) : مال سے محبّت کرنے والا ، مال کی حِرْص میں آخرت کو بھولنے والا خالی ہاتھ قبر میں اُتر جاتا ہے ( 2 ) : اور اس کی جمع پونجی اس کے وارِث مزے سے اُڑاتے ہیں۔ آہ !
چِہ چِیْزَے بَہ چِہْ چِیْزَے رَفْت
یعنی ہائے افسوس ! کتنی قیمتی زِندگی ، کتنے حقیر کام میں گزر گئی... ! !
افسوس گھٹتی جا رہی ہے زِندگی پر مَیں دبا ہی جاتا ہوں عِصیاں کے بار میں ( [2] )