Book Name:Ghous e Pak aur Islah e Ummat
ہمارا غالِب گمان ہے کہ میں اسے سمجھاؤں گا تو یہ سمجھ جائے گا ، ایسی صُورت میں اسے سمجھانا واجِب ہو جاتا ہے ۔ ([1] )
لہٰذا انفرادی طَور پر لوگوں کو سمجھانے کی عادَت (Habit ) بنائیے ! * کسی کو نماز میں غلطی کرتے دیکھ لیا * کسی کو وُضُو میں غلطی کرتے دیکھ لیا * کسی کی دُکان پر گئے ، اس نے گانے (Songs ) چلا رکھے تھے * کسی کو غیبت کرتے * چغلی کھاتے دیکھ لیا * گالیاں بکتے دیکھ یا سُن لیا ، اگر یہ خیال جمتا ہے کہ میں اسے سمجھاؤں گا تو سمجھ جائے گا ، ایسی صُورت میں * موقع کی مناسبت سے * حکمتِ عملی (Strategy ) کے ساتھ * پیار محبّت کے ساتھ اسے سمجھا کر نیکی کی دعوت کا ثواب کمانے میں ہر گز سستی (Laziness ) نہیں کرنی چاہئے ۔ میرے اور آپ کے آقا ، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:اللہ کی قسم ! اگر اللہ پاک تمہارے ذریعے کسی ایک شخص کو بھی ہدایت دیدے تو یہ تمہارے لئے سُرخ اُونٹوں سے بہتر(Better ) ہے ۔ ([2] ) حضرت کَعْبُ الْاَحْبار رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے:جنّتُ الفردوس خاص اس شخص کے لئے ہے جو نیکی کی دعوت دے اور بُرائی سے منع کرے ۔ ([3] )
اللہ پاک ہمیں خوب خُوب نیکی کی دعوت عام کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ یقین مانیے ! اگر ہم یہ انداز اختیار کر لیں ، سمجھنے سمجھانے والے ، سیکھنے سکھانے والے ، اِصْلاح کرنے اور اِصْلاح قبول فرمانے والے بن جائیں تو ہمارا معاشرہ مثالی معاشرہ(Ideal Society ) بن جائے گا ۔ اللہ پاک عمل کا جذبہ نصیب کرے ۔