Book Name:Ghous e Pak aur Islah e Ummat

بوڑھے نے عرض کیا: میں جوانی میں بڑا عمدہ گلوکار (Singer )  تھا ،  آواز بہت اچھی تھی ،  لوگوں میں مقبولیت (Popularity )  تھی ،  گزر بسر بہت اچھی چل رہی تھی ،  پِھر بڑھاپا آگیا ، آواز میں وہ دل کشی (Attraction )  نہ رہی ، اب لوگوں نے میری طرف سے نظریں پھیر لیں ،  اس سے میرا دِل ٹوٹ گیا اور میں نے یہ طَے کر لیا کہ اب زندوں کو نہیں بلکہ مُردَوں کو گانا سُنایا کروں گا ۔  چنانچہ میں قبرستان چلا گیا اور وہاں میں نے گانا بجانا شروع کر دیا ،  کبھی اس قبر کے پاس گاتا ،  کبھی اُس قبر کے پاس گاتا ،  گھومتا رہا ۔  پِھر میں ایک قبر کے پاس بیٹھ گیا ،  دیکھتا کیا ہوں کہ وہ قبر پھٹی ،  ایک آدمی نے سَر باہَر نکالا اور کہا: مُردوں کو کب تک سُناتے رہو گے ۔  جاؤ !  اپنی فریاد اللہ پاک کے حُضُور سُناؤ !  وہ حَیٌّ وَ قَیُّوم ہے ،  یعنی وہ تیرا سوال پُورا فرما دے گا ۔ اس شخص کی یہ بات سن کر مجھ پر بیہوشی طاری ہو گئی ۔  جب مجھے ہوش آیا تو عقل ٹھکانے آ چکی تھی ،  چنانچہ میں نے اللہ پاک کی بارگاہ میں سچّے دِل سے فریاد کی ،  ابھی فریاد کر ہی رہا تھا کہ آپ کا خادِم آ پہنچا ۔  

یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد اس بوڑھے نے اپنا عُوْد (یعنی موسیقی کا آلہ گٹار )  توڑ کر سچّے دِل سے توبہ کر لی ۔  اس موقع پر حُضُورِ غوثِ پاک   رحمۃُ اللہِ عَلَیْہ   نے اِصْلاح کے مدنی پھول لٹاتے ہوئے فرمایا:اے لوگو !  اس شخص نے فضول کام میں سچّائی اپنائی (یعنی کسی کو دھوکہ نہیں دیا ،  سچّی لگن کے ساتھ اپنے کام میں لگا رہا  )  تو اللہ پاک نے اس کے دامنِ مراد کو بھر دیا تو جو شخص اپنے تمام اَحْوال میں (نیکی کی راہ میں )  سچائی کو اپنا لے ،  اپنی نیّت سچّی کر لے تو اس پر اللہ پاک کا کتنا کرم ہو گا؟ لہٰذا تم سب پر لَازِم ہے کہ صِدْقِ نِیّت یعنی نیت کی سچّائی اور باطِن کی پاکیزگی اختیار کرو !  اگر یہ دونوں باتیں (صِدْقِ نیت اور باطن کی صفائی )  نہ ہوتی تو کوئی بھی