Insan Aur Ahliyat e Khilafat

Book Name:Insan Aur Ahliyat e Khilafat

وَہْب بن مُنَبّہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان فرماتے ہیں: بنی اِسرائیل میں ایک نیک بزرگ تھے، آپ عبادت میں مصروف تھے، شیطان نے انہیں بہت طرح سے بہکانے کی کوشش کی، ان کی تَوَجُّہ عِبادت سے ہٹانے کے لئے کافِی کچھ کیا مگر وہ نیک بزرگ تھے، اللہ والے تھے، اُن پر شیطان کی کوئی چال نہ چل سکی، آخر تھک ہار کر شیطان جب واپس جانے لگا تو اس نے بتایا: میرے 3جال ہیں:(1):بخل (یعنی کنجوسی) (2):غُصّہ اور (3):نشہ۔

اپنے تینوں جالوں کی وَضاحت کرتے ہوئے بولا:جب کسی پر بخل کا جال پھینکتا ہوں تووہ مال کے جال میں اُلجھ کر رَہ جاتاہے اُس کا یہ ذِہن بناتا رَہتا ہوں کہ تیرے پاس بہت کم مال ہے (اس طرح وہ بخل میں مبتلا ہو کر)حقوقِ وَاجبہ (یعنی زکوٰۃ وغیرہ )میں بھی خرچ کرنے سے محروم رَہتا ہے اور دوسرے لوگوں کے مال کی طرف بھی مائل ہوجاتاہے ۔ (اور یوں مال کے جال میں پھنس کرنیکیوں سے دُور ہوکر گناہوں کے دَلْدَل میں اترجاتا ہے ) جب کسی پر غصے کا جال ڈالنے میں کامیاب ہوجاتا ہوں تو جس طرح بچے گیند(یعنی Ball) کو پھینکتے اور اُچھالتے ہیں ، میں اس غصیلے شخص کو شیاطین کی جماعت میں اسی طرح پھینکتا اور اُچھالتا ہوں ۔ غصیلا شخص علم وعمل کے کتنے ہی بڑے مرتبے پر فائز ہو، خواہ اپنی دعاؤں سے مردے تک زندہ کرسکتا ہو ، میں اس سے مایوس (Hopeless) نہیں ہوتا، مجھے اُمید ہوتی ہے کہ کبھی نہ کبھی وہ غصے میں بے قابو (Uncontrol) ہوکر کوئی ایساجملہ بَک دے گا جس سے اس کی آخرت تبا ہ ہوجائے گی ۔ رہا نشہتو میرے اس جال کا شکار یعنی کسی نشے میں دُھت اِنسان کو تومیں بکری کی طرح کان پکڑ کر جس بُرائی کی طرف چاہوں لئے لئے پھرتا ہوں۔([1])


 

 



[1]...تنبیہ الغافلین، باب کظم الغیظ، صفحہ:115 خلاصۃً۔