Book Name:Insan Khasary Mein Hai
مرتبہ ، جب بڑے بڑے عُلَما شاگرد کے طور پر سامنے بیٹھتے ہوں ، وزیر ومشیر ادب کرتے ہوں ، ساری شان وشوکت یک لخت چھوڑ دینا آسان بات نہیں بڑی ہمت وحوصلےکا کام ہے۔ ہم لوگ خدشات کا شکار رہتے ہیں ، ہمیں ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کی دعوت دے دی جائے ، مدنی قافلے میں سفر کی درخواست کر دی جائے ، مدرسۃ المدینہ بالغان میں شرکت کا کہہ دیا جائے توکہہ دیا جاتا ہے : دُکان کون چلائے گا ؟ ، بزنس کون سنبھالے گا ؟ ، بچوں کو سکول چھوڑنے کون جائے گا ، ؟ گھر کی ذمہ داریاں کون اُٹھائے گا ؟ وغیرہ وغیرہ ہزار قسم کے خدشات نکال کر ہم سامنے رکھ دیتے ہیں اور نیکیاں کمانے ، اللہ کریم کا قرب حاصِل کرنے ، جنت کے رستے پر چلنے سے محروم رِہ جاتے ہیں۔ یاد رکھئے ! جو خدشات کی زنجیریں پیروں میں ڈال لیتا ہے ، زِندگی کے سفر میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔زِندگی ختم ہو جاتی ہے ، کام ختم نہیں ہوتے ، موت کا فرشتہ آ جاتا ہے ، جب قبر میں اُتار دیا جاتا ہے تو وہی کام جن کو آڑ بنا کر دینی کاموں سے رُک جاتے تھے ، جوں کے توں ہوتے رہتے ہیں ، ہم نے نہ جانے کیوں سوچ لیا ہے کہ یہ دُنیا ہماری وجہ سے ہی چل رہی ہے ؟ ہزار وں لوگ قبروں میں سو رہے ہیں ، ان کا بھی یہی خیال تھا کہ میرے بغیر یہ دُنیا رُک جائے گی ، میں نہ رہا تو میرے گھر سے لے کر کاروبار تک سب کچھ مُعَطَّل ہو جائے گا ، بچے بھوک سے مَر جائیں گے ، گھر کی معیشت ، گھر کا نظام تباہ ہو جائے گا ، دُنیا جیسی ہے ایسی نہ رہے گی لیکن موت کا فرشتہ آیا ، سانس رکی ، رُوح نکلی ، قبر میں اُترے اور سارے کا سارا نظام جوں کا توں اب بھی چل رہا ہے۔ اے جنّت کے طلب گار اسلامی بھائیو... ! ! ہمت سے کام لیجئے۔ خدشات کی زنجیریں توڑ دیجئے ! اللہ کے آخری نبی ، رسولِ ہاشمی صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : مَنْ فُتِحَ لَہٗ بَابٌ مِنْ خَیْرٍ جس کے لئے بھلائی کا دروازہ کھل جائے فَلْیَنْتَھِزْہُ تو وہ کُوْد کر