Book Name:Meraj e Mustafa Mein Seekhnay Ki Baatein

سہارا اتنے بڑے سمندر میں تَیْر رہا تھا ، آخر سمندری موجوں نے مجھے کنارے پر پھینک دیا ( اور میری جان بچ گئی ) ۔ یہ سُن کر امام جعفر صادِق رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے فرمایا : جب تم سمندر میں اُترے ، تمہیں کشتی اور مَلَّاح پر اِعْتماد ( Trust ) تھا کہ اس کشتی کی بدولت میں سمندر پار کر لوں گا ، پِھر جب کشتی ٹوٹ گئی تو تمہیں کشتی کے ایک تختے پر بھروسہ ہو گیا کہ اس کے سہارے میں کنارے تک پہنچ ہی جاؤں گا ، پِھر جب وہ تختہ بھی ہاتھ سے چُھوٹ گیا اور تم بالکل بے سہارا ( Helpless ) رہ گئے ، کیا اس وقت بھی تمہیں بچ جانے کی اُمِّیدتھی ؟ کہنے لگا : جی ہاں ! مجھے اُمِّید تھی۔ امام جعفر رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے فرمایا : اس وقت تو کوئی سہارا موجود نہیں تھا ، اس وقت کس پر اِعتماد تھا ؟ کس بھروسہ پر تم بچنے کی اُمِّید لگا رہے تھے ؟ اب وہ شخص خاموش ہو گیا۔ امام جعفر صادِق رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے فرمایا : اس خوفناک حالت میں بھی تیرے نہ چاہتے ہوئے بھی جو ایک اُمِّید بندھی ہوئی تھی ، جس ہستی پر بھروسہ تھا ، اسی کو خُدا کہتے ہیں ، اسی نے تمہیں ڈوبنے سے بچایا ہے۔ آپ کی یہ حکمت بھری بات سُن کر وہ شخص اسی وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ ( [1] )

غرض کہ * ایمان * دِین * توحید ، یہ سب باتیں ہماری فطرت کا حِصَّہ ہیں ، اب اگر کوئی * دِین سے مُنہ پھیرتا ہے * دِین کی بجائے اپنی ناقِصْ عقل کے پیچھے چلتا ہے * انسانی دِماغ کے ایجاد کئے ہوئے نظریات ( Invented Ideas ) کی بات کرتا ہے * مادَر پِدَر آزادی کے نعرے لگاتا ہے * آزاد خیال ( Liberal ) بنتا ہے تو وہ شخص اپنی فطرت کو بُھول رہا ہے ، یُوں سمجھ لیجئے !  کہ ایک ہوتا ہے : جسمانی مسخ یعنی شکل بگاڑنا اور ایک ہے : رُوحانی مسخ یعنی رُوح کو بگاڑنا۔ جو بندہ اپنی فطرت کو بُھول کر ایمان و دِین کے خِلاف رستہ اختیار کرتا ہے ،


 

 



[1]... تفسیرِ کبیر ، پارہ : 1 ، البقرہ ، زیرِ آیت : 22 ، جلد : 1 ، صفحہ : 333۔