Book Name:Ramadan Sudharne Ka Mahina Hai

اپنی زندگی کا حیرت اَنگیز اور سبق آموز واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں قافلے کے ساتھ ملک شام جا رہا تھا، راستے میں اچانک ڈاکوؤں کی ایک جماعت نے ہمارے قافلے پر حملہ (Attack)کیا اور قافلے والوں کا سازوسامان لوٹ کر اپنے سردار کے سامنے ڈھیر کیا اور اس کی جانچ پڑتال  (Checking)کرنے لگے، ایک شخص کے سامان سے شکّر اور بادام کی تھیلی نکلی، سارے ڈاکو مِل کر شَکّر اور بادام کھانے لگے مگر ان کا سردار شکر اور بادام نہیں کھا رہا تھا۔ شیخ ابو بکر شبلی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہفرماتے ہیں: مجھے حیرانی ہوئی اور میں نے ڈاکوؤں کے سردار سے پوچھا: سب شَکّر اور بادام کھا رہے ہیں، تم کیوں نہیں کھاتے؟ اس نے میری حیرت میں اضافہ کرتے ہوئے کہا: میرا روزہ ہے۔

بڑی حیرانی کی بات تھی، ایک طرف حُقُوقُ الْعِباد(Human Rights یعنی بندوں کے حقوق) پامال کئے جا رہے ہیں، لوگوں کے خون پسینے کی کمائی لوٹی جا رہی ہے، غریبوں کی آہیں، بددُعائیں لی جا رہی ہیں اور دوسری طرف تقویٰ و پرہیز گاری کا مُظَاہَرہ کرتے ہوئے روزہ بھی رکھا ہوا ہے، شیخ ابوبکر شِبْلی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: میں نے اس سے پوچھا: تم لوٹ مار بھی کرتے ہو اور روزہ بھی رکھتے ہو؟ میرے اس سُوال پر سردار بولا: اللہ پاک سے صلح کیلئے بھی تو کوئی راہ باقی رکھنی ہے۔

حضرت شیخ ابوبکر شبلیرَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: یہ بات آئی گئی ہو گئی، کچھ عرصے کے بعد مجھے مکہ مکرمہ میں حاضِری کی سَعَادت نصیب ہوئی، میں نے ڈاکوؤں کے اسی سردار کو وہاں دیکھا، اس کے چہرے پر عِبادت کا نور تھا، مُجاہدات کی وجہ سے اس کا جسم کمزور پڑ چکا تھا اور وہ اِحْرام باندھے طوافِ کعبہ میں مَصْرُوف تھا۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر مجھے ایک بار پھر حیرت ہوئی، میں نے تعجب سے پوچھا: کیا تم وہی شخص نہیں ہو؟ بولا: جی ہاں! میں وہی