Book Name:Ala Hazrat Ka Shoq e Ilm e Deen



ہی کرسیاں رکھ دی گئیں، 4 اَصْحاب ؛ مولانا مصطفےٰ رضا خان، مفتی امجد علی اعظمی اور مولانا حشمت علی لکھنوی اور ایک اَور صاحِب  رَحمۃُ اللہِ علیہم حاضِر ہوئے اور کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ علیہ نے خطوط کا ایک بنڈل نکالا اور مفتی امجد علی اعظمی  رَحمۃُ اللہِ علیہ کو دیتے ہوئے فرمایا:آج 30 خطوط آئے تھے، ایک میں نے دیکھ لیا، 29 یہ ہیں۔ مفتی امجد علی اعظم  رَحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک خط کا لفافہ کھولا، کئی صفحات پر مشتمل چند سُوالات تھے، اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک سُوال سُنا اور جواب میں ایک جملہ بولا، مفتی امجد علی اعظمی  رَحمۃُ اللہِ علیہ وہ جملہ لکھنے لگے،مفتی امجد علی صاحِب جملہ لکھ رہے تھے کہ درمیان میں دوسرے صاحِب نے دوسرا خط سنانا شروع کیا، ساتھ ہی اعلیٰ حضرت نے دوسرے سُوال کا جواب لکھوانا شروع کر دیا، ان دوسرے صاحِب کو ایک جملہ لکھوایا، یہ لکھنے میں مَصْرُوف ہوئے تو تیسرے صاحِب نے اپنا خط سنانا شروع کیا، اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ علیہ نے ان کا خط سُن کر ان کا بھی جواب لکھوانا شروع کر دیا، انہیں ایک جملہ لکھوایا، وہ جملہ لکھنے میں مَصْرُوف تھے کہ چوتھے صاحِب نے اپنا خط سنانا شروع کر دیا، اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ علیہ  نے اس کا بھی جواب لکھوانا شروع کیا، اب ترتیب یہ تھی کہ اعلیٰ حضرت ایک جملہ لکھواتے، ایک صاحِب وہ جملے لکھنے لگتے، اتنے میں دوسرے صاحِب سوال سناتے، جب وہ پہلے صاحِب جملہ مکمل کر لیتے تو کہتے:جی حُضُور!اب دوسرے صاحِب خاموش ہو جاتے، اعلیٰ حضرت ان پہلے کو دوسرا جملہ لکھواتے، وہ جتنی دیر میں جملہ لکھتے،اتنی دیر میں دوسرے صاحِب کو جملہ لکھوایا جاتا،جب یہ جملہ لکھ لیتے توکہتے: جی حُضُور!اب ان دو شخص کے جی حُضُور! کہنے کے درمیان میں جتنا وقت تھا، اس وقت میں تیسرے صاحِب کو جملہ لکھوا دیا جاتا، جب یہ جملہ لکھ لیتے


 

 



ہی کرسیاں رکھ دی گئیں، 4 اَصْحاب ؛ مولانا مصطفےٰ رضا خان، مفتی امجد علی اعظمی اور مولانا حشمت علی لکھنوی اور ایک اَور صاحِب  رَحمۃُ اللہِ علیہم حاضِر ہوئے اور کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ علیہ نے خطوط کا ایک بنڈل نکالا اور مفتی امجد علی اعظمی  رَحمۃُ اللہِ علیہ کو دیتے ہوئے فرمایا:آج 30 خطوط آئے تھے، ایک میں نے دیکھ لیا، 29 یہ ہیں۔ مفتی امجد علی اعظم  رَحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک خط کا لفافہ کھولا، کئی صفحات پر مشتمل چند سُوالات تھے، اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک سُوال سُنا اور جواب میں ایک جملہ بولا، مفتی امجد علی اعظمی  رَحمۃُ اللہِ علیہ وہ جملہ لکھنے لگے،مفتی امجد علی صاحِب جملہ لکھ رہے تھے کہ درمیان میں دوسرے صاحِب نے دوسرا خط سنانا شروع کیا، ساتھ ہی اعلیٰ حضرت نے دوسرے سُوال کا جواب لکھوانا شروع کر دیا، ان دوسرے صاحِب کو ایک جملہ لکھوایا، یہ لکھنے میں مَصْرُوف ہوئے تو تیسرے صاحِب نے اپنا خط سنانا شروع کیا، اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ علیہ نے ان کا خط سُن کر ان کا بھی جواب لکھوانا شروع کر دیا، انہیں ایک جملہ لکھوایا، وہ جملہ لکھنے میں مَصْرُوف تھے کہ چوتھے صاحِب نے اپنا خط سنانا شروع کر دیا، اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ علیہ  نے اس کا بھی جواب لکھوانا شروع کیا، اب ترتیب یہ تھی کہ اعلیٰ حضرت ایک جملہ لکھواتے، ایک صاحِب وہ جملے لکھنے لگتے، اتنے میں دوسرے صاحِب سوال سناتے، جب وہ پہلے صاحِب جملہ مکمل کر لیتے تو کہتے:جی حُضُور!اب دوسرے صاحِب خاموش ہو جاتے، اعلیٰ حضرت ان پہلے کو دوسرا جملہ لکھواتے، وہ جتنی دیر میں جملہ لکھتے،اتنی دیر میں دوسرے صاحِب کو جملہ لکھوایا جاتا،جب یہ جملہ لکھ لیتے توکہتے: جی حُضُور!اب ان دو شخص کے جی حُضُور! کہنے کے درمیان میں جتنا وقت تھا، اس وقت میں تیسرے صاحِب کو جملہ لکھوا دیا جاتا، جب یہ جملہ لکھ لیتے