Book Name:Pyare Aaqa Ki ALLAH Pak Se Mohabbat
شخص میرے پاس آیا، بولا: اے سعدیہ! کیا بات ہے؟ کیوں پریشان ہو...؟ میں نے کہا: میرے نُورِ نظر ابھی یہاں تھے، اب نہ جانے کہاں تشریف لے گئے ہیں۔ وہ بڈھا بولا: گھبراؤ نہیں، میں کسی ایسے کو جانتا ہوں، جو اُن کا پتہ بتا سکتا ہے۔ آپ نے جلدی سے کہا: بتاؤ! وہ کون ہے...؟ بڈھا بولا: ہُبُل (یعنی وہ جھوٹا مجسمہ جسے قریش خُدا مانتے تھے)۔ یہ سُن کر سیّدہ حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللہُ عنہا کو جو اُمِّید لگی تھی، وہ ٹوٹ گئی، آپ نے بےنیازی سے فرمایا: اَو بڈھے...!! تیری ماں تجھ پر روئے! تُو جانتا نہیں کہ جس رات مَحْبُوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی وِلادت ہوئی تھی، اُس رات تمہارے ہُبُل پر کیا گزری تھی...؟ (وہ مُنہ کے بل اَوندھا گِرا پڑا تھا)۔ فرماتی ہیں: اس بڈھے نے میری نہ سُنی اور اپنے عبادت خانے میں چلا گیا۔ اُس نے ہُبُل کے گرد 7 پھیرے لگائے، بولا: اے ہُبُل! یہ سعدیہ ہے! اس کا بیٹا مُحَمَّد جانے کہاں ہے؟ اس کا پتا بتا دو...!! بس اتنا کہنے کی دَیر تھی، جیسے ہی پیارا پیارا نام مُحَمَّد(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم ) لیا گیا تو ہُبُل تھرتھرایا اور مُنہ کے بَل گِر گیا۔ آس پاس بھی جتنے مجسمے موجود تھے، سب ایک دوسرے پر گِر کر ٹوٹ پھوٹ گئے۔
تیری آمد تھی کہ بیتُ اللہ مُجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بُت تھر تھرا کر گر گیا([1])
وضاحت:یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم ! جب آپ تشریف لائے تو بیت اللہ شریف آپ کو سلامی دینے کے لئے حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عنہا کے گھر کی طرف جھک گیا اور کعبے میں رکھے بتوں کی یہ حالت تھی کہ وہ تھر تھرا کر زمین پر گر رہے تھے۔