Book Name:Bani Israil Ka Bachra
یعنی جُرْم ایک جیسا ہے مگر قِبْطِیوں کو غرق کر دیا گیا، بنی اسرائیل کو غرق نہیں کیا گیا، انہیں تَوبَہ کی توفیق بخش دی گئی، آخر اس میں کیا حکمت ہے؟ عُلَمائے کرام فرماتے ہیں: اس سُوال کا جواب آیتِ کریمہ کے آخر میں دے دیا گیا، ارشاد ہوا:
لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۵۲) (پارہ:1، البقرۃ:52)
تَرْجَمَۂ کَنْزُالْعِرْفَان: تاکہ تم شکر ادا کرو۔
گویا فرمایا جا رہا ہے: اے بنی اسرائیل! جُرم فرعونیوں کا بھی یہی تھا مگر ان کے اندر شکر کی اہلیت ختم ہو چکی تھی، لہٰذا اُنہیں غرق کر دیا گیا، تمہارے اندر شکر کی اہلیت موجود ہے، لہٰذا تمہیں موقع فراہَم کیا جا رہا ہے کہ توبہ کرو، شکر بجا لاؤ! اور اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری میں مَصْرُوف ہو جاؤ! ([1])
پتا چلا؛ عذاب کا ایک سبب ناشکری ہے۔ بندہ گُنَاہ کرتا ہے، اللہ پاک مہلت دے دیتا ہے، بندہ پِھر گُنَاہ کرتا ہے، رَبِّ کریم پِھر مہلت عطا فرماتا ہے، بندہ پِھر گُنَاہ کرتا ہے، اسے پِھر مہلت دے دی جاتی ہے، بندہ گُنَاہ کرتا جاتا ہے، کرتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کا دِل سیاہ ہو جاتا ہے، وہ توبہ کے لائق ہی نہیں رہتا، گُنَاہ اور ناشکری اس کی طبیعت میں رچ بس جاتی ہے، تب وہ موقع آتا ہے کہ اللہ پاک پکڑ فرماتا ہے اور بندہ تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔
اَہْلِ یَمن سیلاب میں گرفتار کیوں ہوئے؟
عرب کا ایک قبیلہ تھا، جسے سَبَا کہتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ پاک کے نبی حضرت ہُود عَلَیْہِ السَّلَام کی اَوْلاد میں سے تھے، یمن کی ایک بستی میں رہتے تھے، اللہ پاک نے انہیں بےمثال نعمتوں سے نوازا تھا، ان کی بستی کی آب و ہوا ایسی صاف اور پاکیزہ تھی کہ *اس بستی میں نہ