سورہ ٔرعد مکیہ ہے اور
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے ایک روایت یہ ہے کہ ان
دو آیتوں ’’ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ
كَفَرُوْا تُصِیْبُهُمْ‘‘ اور ’’وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا‘‘ کے سوا ا س سورت کی سب
آیتیں مکی ہیں ،اور دُوسرا قول یہ ہے کہ یہ سورت مدنی ہے ۔ (خازن، تفسیر سورۃ الرعد، ۳ / ۵۱)
رکوع اورآیات کی تعداد:
اس میں 6 رکوع ، 43 آیتیں
ہیں ۔
’’رعد ‘‘نام رکھنے کی وجہ
:
رعد، بادلوں سے پیدا ہونے
والی گرج کو کہتے ہیں اور بعض مفسرین کے نزدیک بادل پرما مور ایک فرشتے کا نام رعد
ہے ،اور ا س سورت کا یہ نام آیت نمبر 13 میں مذکور لفظ ’’اَلرَّعْدُ‘‘ کی مناسبت سے رکھا گیا
ہے۔
سورۂ رعد کی فضیلت:
حضرت جابر بن زیدرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جب کسی
انسان کی موت کا وقت قریب آ جائے تو مستحب یہ ہے کہ ا س کے پاس سورۂ رعد پڑھی
جائے کیونکہ یہ مرنے والے کیلئے آسانی کا اوراس کی روح قبض ہونے میں تخفیف کا سبب
ہو گی ۔ (در منثور، سورۃ الرعد،۴ / ۵۹۹)
سورۂ رعد
کے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت و رسالت، مرنے کے
بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اورقیامت کے دن اعمال کی جزاء ملنے کوثابت کیا گیا ہے، چنانچہ اس سورت کی ابتداء میں آسمانوں اور زمین، سورج اور چاند،رات اور دن،پہاڑ اور دریا،کھیتی اور مختلف ذائقوں ،خوشبوؤں اور
رنگوں والے پھلوں کی پیدائش کے ذریعے تخلیق اور ایجاد میں ،زندگی اور موت دینے میں ،نفع اور ضَرر پہچانےمیں اللّٰہ تعالیٰ
کی یکتائی ،ا س کی قدرت، مرنے کے بعد مخلوق کو دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی
جزاء ملنے پر دلائل دئیے گئے ہیں ، اسی طرح اس سورت میں مشرکین کے شُبہات کارد بھی کیا گیا ہے۔ اس کے
علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے
ہیں ۔
(1) …اللّٰہ تعالیٰ کے
حکم سے انسان کی حفاظت کے لئے فرشتوں کے
موجود ہونے کی خبر دی گئی ۔
(2) …حق اور باطل میں نیزبندگانِ خدا اور بتوں کے پجاریوں میں ایک
مثال کے ذریعے فرق بیان کیا گیا۔
(3) … نماز ادا کرنے والے اورصبر کرنے والے سعادت مند
متقی لوگوں کے حال کو دیکھنے والے سے
تشبیہ دی گئی ہے اور زمین میں فساد
پھیلانے والے اور عہد و پیمان توڑ دینے والے گناہگار لوگوں کے حال کو اندھے سے تشبیہ دی گئی ہے۔
(4) … متقی لوگوں کو جنّات ِعَدن کی بشارت دی گئی اور عہد توڑ نے
والوں اور زمین میں فساد پھیلانے والوں کو جہنم کے عذاب کی وعید سنائی گئی۔
(5)…رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ذمہ داریاں بیان کی گئی ۔
(6) …دنیا میں ہونے والے تغیرات کے بارے میں بتایاگیا۔
(7)…اس سورت کی آخری آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت اور رسالت کی گواہی
دی اور یہ بتایا گیا کہ اہلِ کتاب میں سے
جو مومن ہیں وہ بھی اپنی کتابوں میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نشانیاں موجود ہونے کی وجہ سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی گواہی دیتے ہیں ۔
سورۂ یوسف کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ رعد کی اپنے سے
ماقبل سورت ’’یوسف‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ یوسف میں اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت پر دلالت کرنے والی زمینی اور آسمانی
نشانیوں کا اِجمالی ذکر ہوا اور سورۂ رعد کی ابتداء میں ان نشانیوں کو تفصیل کے
ساتھ بیان کیا گیا اور ایک مناسبت یہ ہے کہ سورۂ یوسف کی آخری آیت میں قرآنِ
پاک کے اوصاف بیان کئے گئے اور سورۂ رعد کی پہلی آیت میں بھی قرآنِ مجید کی شان
بیا ن کی گئی ہے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الرعد، ص۹۵)