سورۂ لقمان ’’وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ‘‘سے شروع ہونے والی آیت نمبر27اور28کے علاوہ مکیہ ہے۔( جلالین، سورۃ لقمان، ص۳۴۵)
رکوع اورآیات
کی تعداد:
ا س سورت میں 4رکوع،34آیتیں ہیں ۔
’’لقمان ‘‘نام رکھنے کی
وجہ :
اس سورۂ مبارکہ کے دوسرے
رکوع سے اللهعَزَّوَجَلَّکے بَرگُزیدہ بندے حضرت لقمان حکیمرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُکا تذکرہ تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیاہے اسی وجہ سے یہ سورت’’سورۂ
لقمان‘‘ کے نام سے مَوسُوم ہوئی ۔
سورۂ
لقمان کے مَضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ا س میں الله تعالیٰ اور ا س کی وحدانیّت
پر ایمان لانے ،حضور پُر نورصَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوّت
کی تصدیق کرنے، موت کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور قیامت کے دن کا اقرار کرنے کے بارے میں دلائل کے ساتھ
کلام کیا گیا ہے۔ اور اس سورت میں یہ چیزیں
بیان کی گئی ہیں :
(1)…اس سورت کی ابتداء میں الله تعالیٰ
کی ہدایت کے دستور اورحضورِ اقدسصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَکے
دائمی معجزے قرآنِ پاک کا ذکر کیاگیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں
کا گروہ قرآنِ پاک کی تصدیق کرتا ہے ا س
لئے وہ جنت میں داخل ہو کر کامیاب ہو جائیں
گے اور کافروں کا گروہ قرآنِ پاک کی آیات کا مذاق اڑاتا اور
ان کا انکار کرتا ہے اور اس نے اپنی جہالت اور بیوقوفی کی وجہ سے گمراہی کا راستہ
اختیا ر کیا تو وہ جہنم کے دائمی دردناک عذاب میں مبتلا ہو کر نقصان اٹھائیں گے۔
(2)…کائنات کی تخلیق بیان کرکے اللهتعالیٰ نے اپنی قدرت کا بیان فرمایا ہے۔
(3)… اللهتعالیٰ نے
اپنے بَرگُزیدہ بندے حضرت لقمانعَلٰی نَبِیِّنَا
وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامکا واقعہ
بیان کیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کیا
نصیحتیں کیں ، اور اس سے مقصود لوگوں کو ہدایت دینا ہے کہ وہ الله تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا چھوڑ دیں ، ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کریں ،ہر طرح کے صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے بچیں ،نماز قائم کریں ،نیکی کی دعوت دیں اور برائی سے منع کریں ،تکبُّر سے بچیں اور عاجزی و اِنکساری اختیار کریں ،زمین پر نرمی
سے چلیں اور اپنی آوازیں ہلکی رکھیں ۔
(4)… الله تعالیٰ کی توحید کے دلائل کا مُشاہدہ کرنے کے
باوجود اپنے آباؤاَجداد کی پیروی میں شرک پر قائم رہنے والے مشرکین کی سرزَنِش کی گئی اور اللهتعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا
انکار کرنے پر ان کی مذمت بیان کی گئی اور مشرکین کو یہ بتایا گیا کہ نجات کا واحد
راستہ اللهتعالیٰ کی
رضا کے لئے اسلام قبول کرنا اور نیک اعمال کرنا ہے۔
(5)…کفار کے قول اور عمل میں تضاد کو
بیان کیا گیا کہ وہ الله تعالیٰ
کے خالق ہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن
عبادت کا مستحق ہونے میں بتوں کواس کا شریک ٹھہراتے ہیں حالانکہ بے شمار دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ
عبادت کا مستحق صرف الله تعالیٰ ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی عبادت کئے
جانے کا حقدار ہر گز نہیں ہے۔
(6)… اللهتعالیٰ کی
قدرت پر دن اور رات کے آنے جانے سے،چاند اور سورج کو مُسَخَّر کئے جانے سے اور
سمندروں میں کشتیوں کی رَوانی سے اِستدلال کیاگیا۔
(7)…اس سورت کے آخر میں تقویٰ و پرہیز گاری کا حکم دیاگیا،قیامت کے دن
کے عذاب سے ڈرایا گیا جو کہ بہر صورت آئے گا اور یہ بتایا گیا کہ مخصوص پانچ غیبی
چیزوں کا ذاتی علم الله تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور اللهتعالیٰ ہر چیز سے خبردار ہے۔
سورۂ روم کے ساتھ مناسبت:
سورۂ لقمان کی اپنے سے ماقبل سورت ’’روم‘‘ کے ساتھ ایک مناسبت
یہ ہے کہ سورۂ روم کے آخر میںاور سورۂ
لقمان کی ابتداء میںقرآن پاک کی صفات
بیان کی گئی ہیں ۔دوسری مناسبت یہ ہے کہ دونوںسورتوںمیں الله تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ مسلمان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے
جانے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔تیسری مناسبت یہ ہے کہ دونوںسورتوںمیںمتعدد مَضامین مُشترک ہیںجیسے اللهتعالیٰ نے بیان کیا کہ کفار و مشرکین پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ الله تعالیٰ کی بارگاہ میںمُضْطَرِب ہو کر دعائیںکرتے ہیںاور جب ان سے وہ مصیبت ٹل جاتی ہے تو وہ الله تعالیٰ کے ساتھ
کفر وشرک کرنے لگ جاتے ہیں ۔