سورۂ سجدہ آیت نمبر18’’اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا‘‘سے شروع ہونے والی تین آیتوں کے علاوہ مکیہ ہے۔(خازن، تفسیر سورۃ
السجدۃ، ۳ / ۴۷۵)
رکوع اورآیات
کی تعداد:
اس سورت میں 3رکوع، 30آیتیں ہیں ۔
’’سجدہ ‘‘نام رکھنے کی
وجہ :
اس سورت کی آیت نمبر15میں ان مسلمانوں کا وصف بیان کیا گیا
ہے جو قرآنِ پاک کی آیات سن کر اللهتعالیٰ کی تسبیح کرتے اوراس کی
بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے ہیں ،اس مناسبت
سے ا س سورت کا نام ’’سورۂ سجدہ‘‘ رکھا گیا۔
سورۂ سجدہ
کے فضائل:
(1)…حضرت ابو ہریرہرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں :نبی کریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَجمعہ کے دن
فجر کی نماز میں سورۂ سجدہ اور سورۂ
دَہر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔( بخاری، کتاب الجمعۃ، باب ما یقرأ فی صلاۃ الفجر یوم الجمعۃ، ۱ / ۳۰۸، الحدیث: ۸۹۱)
(2)…حضرت جابررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں
کہ نبی اکرمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاس وقت تک نیند نہ فرماتے جب تک سورۂ سجدہ اور سورۂ ملک کی تلاوت
نہ فرما لیتے ۔( ترمذی، کتاب الدعوات، ۲۲-باب منہ، ۵ / ۲۵۸، الحدیث: ۳۴۱۵)
(3)…حضرت خالد بن معدانرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’نجات دلانے والی سورت کو پڑھا کرو
اور وہ سورت’’الٓمّٓۚ(۱) تَنْزِیْلُ‘‘ ہے۔ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ ایک شخص صرف ا سی
سورت کی تلاوت کیا کرتا تھا اور وہ بکثرت گناہ بھی کرتا تھا۔ (اس شخص کے انتقال کے بعد) اس سورت نے
ا س کے اوپر اپنے پر پھیلا دئیے اور کہا’’اے میرے رب!عَزَّوَجَلَّ،اس کی مغفرت فرما دے
،کیونکہ یہ کثرت سے میری تلاوت کیا کرتا تھا۔ الله تعالیٰ نے ا س شخص کے بارے میں اس سورت کی شفاعت قبول فرما لی اور فرمایا’’اس
کے ہر گناہ کے بدلے میں ایک نیکی لکھ دو
اور اس کا ایک درجہ بلند کر دو۔( سنن دارمی، کتاب فضائل القرآن، باب فی فضل سورۃ تنزیل السجدۃ
وتبارک، ۲ / ۵۴۶، الحدیث: ۳۴۰۸)
سورۂ سجدہ
کے مَضامین:
اس سورت کامرکزی مضمون یہ ہے کہ مشرکین مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے
جانے کا انکار کرتے تھے اور اس سورت میں بطورِ خاص مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کو
ثابت کیا گیا ہے۔نیز اس سورت میں یہ چیزیں
بیان کی گئی ہیں ۔
(1)…اس سورت کی ابتداء میں یہ بیان
کیاگیا کہ قرآن اللهتعالیٰ کی وہ کتاب ہے جو اس نے اپنے حبیبصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر نازل فرمائی اور اس چیز میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ۔
(2)…نبی کریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رسالت
کو ثابت کیا گیا اور مشرکین کے اس نظریے کا رد کیا گیا کہ قرآن حضورِ اقدسصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنی طرف سے بنا لیا ہے ۔
(3)… الله تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت پر دلائل ذکر کئے گئے ۔
(4)…کفاراورفرمانبردارمسلمانوں کا حال بیان کیا گیا کہ قیامت کے دن کافر ذلت و
رسوائی کا سامنا کریں گے، نیک اعمال کرنے
کی خاطر دنیا میں لوٹ جانے کی تمنا کریں گے اور وہ دردناک عذاب چکھیں گے جبکہ مسلمان چونکہ دنیا میں راتوں کو الله تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے، خوف اور امید رکھتے ہوئے اپنے ربعَزَّوَجَلَّ کو پکارتے تھے، الله تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے اپنے مال راہِ
خدا میں خرچ کرتے تھے ، اس لئے آخرت میں انہیں ان کے اعمال کی جزاء عظیم ثواب کی صورت میں ملے گی، الله تعالیٰ کا فضل دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اور انہیں جنت میں ہمیشہ کے لئے داخلہ
نصیب ہو گا۔
(5)…یہ بتایا گیاہے کہ کفار اور مسلمانوں کا انجام ایک جیسا نہیں ہے۔
(6)… تاجدارِ
رسالتصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکی رسالت کے درمیان مشابہت بیان کی گئی ہے۔
(7)…انبیاء ِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو جھٹلانے والی سابقہ امتوں پر نازل ہونے والے عذاب کا ذکر کر کے اس امت میں
سے رسولِ کریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو جھٹلانے والوں کو ڈرایا
گیا ہے۔
(8)…اس سورت کے آخر میں اسلام
کے بنیادی عقائد،توحید،رسالت اور حشر و نشر پر کلام کیاگیا ہے۔
سورۂ لقمان کے ساتھ مناسبت:
سورۂ سجدہ کی اپنے سے ماقبل سورت ’’لقمان‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ
سورۂ لقمان میںجن پانچ مخصوص غیبی
چیزوںکے ذاتی علم کا الله تعالیٰ کے ساتھ خاص ہونا بیان کیاگیا ان پا نچ چیزوںکی تشریح سورۂ سجدہ میںکی گئی ہے۔( تناسق الدرر، سورۃ السجدۃ، ص۱۱۱،ملخصاً)