سورۂ فاطر مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔(خازن، تفسیر سورۃ فاطر، ۳ / ۵۲۸)
آیات کی
تعداد:
اس میں 5 رکوع، 45 آیتیں ہیں ۔
’’فاطر ‘‘نام رکھنے کی
وجہ :
فاطر کا معنی ہے بنانے والا،اور اس سورت کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کا یہ وصف بیان کیاگیا ہے کہ وہ آسمانوں اور زمینوں کو بنانے والا ہے،اس مناسبت سے اسے ’’سورۂ
فاطر‘‘ کہتے ہیں ۔ نیزاس سورت کو ’’سورۂ ملائکہ‘‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ ا س کی پہلی آیت میں فرشتوں کا ذکر ہے۔
سورۂ فاطر
کے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ا س میں اللہ تعالیٰ کو ایک ماننے کی دعوت دی گئی اور اللہ تعالیٰ کے واحد اور موجود ہونے ، مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہونے پر دلائل دئیے گئے ہیں
۔نیز اس میں مزید یہ چیزیں بیان کی گئی ہیں ۔
(1)…کفارِ مکہ کے جھٹلانے پر حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے۔
(2)…شیطان کے
فریب اور دھوکہ دہی سے بچنے کاحکم دیا اور یہ بتایا گیا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے
تم بھی اسے دشمن سمجھو۔
(3)…اللہ تعالیٰ کی
قدرت کے آثار بیان کئے گئے ہیں ۔
(4)…یہ بتایا گیا کہ جو گناہوں سے بچا اور نیک اعمال کئے تو اس نے اپنے بھلے کے
لئے ہی ایسا کیا ہے۔
(5)…حضورِ
اَقدسصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت کے لوگوں کے مختلف مَراتِب اور درجات بیان کئے گئے ہیں ۔
(6)…جنت میں مسلمانوں کا حال اور جہنم میں کافروں کا حال بیان کیاگیا ہے۔
(7)…یہ بتایا گیا ہے کہ جو کفر کرے گا تو اس میں اس کا اپنا ہی نقصان ہے۔
(8)…سورت کے آخر میں گناہوں پر فوری پکڑ نہ کرنے اور گناہگاروں کو مہلت دینے کی حکمت بیان کی گئی ہے۔
سورۂ سَبا
کے ساتھ مناسبت:
سورۂ فاطر کی اپنے سے ماقبل سورت’’سَبا ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ
سورۂ سبا کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی ہلاکت اور انہیں شدید ترین عذاب دئیے جانے کا ذکر کیا اور سورۂ
فاطر کی ابتداء میں یہ بیان ہو اکہ
مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کریں اور اس کا شکر بجا لائیں ۔