جمہور مفسرین کے نزدیک سورۂ شوریٰ
مکیہ ہے اور حضرت عبداللہ بن عباسرَضِیَ اللہتَعَالٰیعَنْہُمَاسے ایک
قول یہ مروی ہے کہ اس سورت کی چار آیتیںمدینہ طیبہ میںنازل ہوئیں،اُن میں سے پہلی آیت ’’قُلْ
لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا‘‘ ہے۔(خازن، تفسیر سورۃ
الشوری، ۴ / ۹۰)
رکوع اور آیات کی
تعداد:
اس سورت میں5رکوع ،53آیتیںہیں
۔
’’شوریٰ ‘‘نام رکھنے کی وجہ
:
شوریٰ کا معنی ہے مشورہ،اور یہ لفظ اس
سورت کی آیت نمبر38میںموجود ہے جس
میںمسلمانوںکایہ وصف بیان کیاگیا کہ ان کا کام ان کے باہمی
مشورے سے ہوتاہے ۔اس مناسبت سے اس کا نام’’سورۂ شوریٰ‘‘ رکھا گیا ہے۔
سورۂ شوریٰ کے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس
میںاللہ تعالیٰ کی
وحدانیّت پر ایمان لانے، رسولِ کریمصَلَّی اللہتَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی
رسالت درست ہونے،لوگوںکو مرنے کے بعد
دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی جزاء و سزاء ملنے کی تصدیق کرنے اور اللہ
تعالیٰ کی وحی کے بارے میںکلام کیاگیا
ہے۔نیز اس میںیہ چیزیںبیان کی گئی ہیں ،
(1)…اس کی ابتداء
میںبیان کیاگیا کہ جس طرح لوگوںتک اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچانے کے لئے اللہ
تعالیٰ نے تمام اَنبیاء ومُرسَلینعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَامکی
طرف وحی فرمائی اسی طرح اپنے حبیبصَلَّی اللہتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف
بھی وحی فرمائی۔
(2)…یہ
بیان کیاگیا کہ زمین و آسمان میںموجود
ہر چیز کامالک اللہ
تعالیٰ ہے اور اس کی عظمت و شان یہ ہے کہ اس کی کِبریائی کی ہَیبت سے آسمان جیسی
عظیم مخلوق پھٹنے کے قریب ہو جاتی ہے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی حمد و
تسبیح کرتے ہیںاور زمین والوںکے لئے مغفرت کی دعا مانگتے ہیںاور مشرکین کے تمام اعمال اللہ
تعالیٰ کے سامنے ہیں ۔
(3)…یہ بتایا گیا کہ
تمام نبیوںکو ایک ہی حکم دیا گیا اور وہ
یہ کہ وہ دین کو صحیح طریقے سے قائم کریںیعنی اللہ
تعالیٰ کی طرف سے دین پر جس طرح عمل کرنے کا فرمایا گیا ہے، بغیر کسی کمی بیشی کے
اسی طرح عمل کریں ۔
(4)…نبی اکرمصَلَّی اللہتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی
صداقت ظاہر ہونے کے باوجود ان کی نبوت و رسالت کا انکار کرنے والے کافروںکا رد کیا گیا اور انہیںاس قیامت کے قریب ہونے سے ڈرایا گیا جس کے جلد
واقع ہونے کا مشرکین مطالبہ کرتے ہیںاور
اہلِ ایمان اس سے خوفزدہ ہوتے ہیں ، نیز قیامت کے دن کے ہَولْناک عذابات ذکر کئے
گئے تاکہ کفار کے دلوںمیںڈر پیدا ہو اور جنتی نعمتوںکے اوصاف بیان کئے گئے تاکہ نیک اعمال کرنے
والے مسلمانوںکو عظیم ثواب کی بشارت ملے۔
(5)…یہ بتایا گیاکہ
رزق اللہ
تعالیٰ کے دستِ قدرت میںہے اور وہ حکمت
ومَصلحت کے مطابق اپنی مخلوق کو عطا کرتا ہے ۔ مزید یہ فرمایا کہ جو صرف دنیا کے
لئے عمل کرتا ہے وہ آخرت کی خیر سے محروم رہے گا اور جس نے آخرت کے لئے عمل کئے
تو وہ دونوںجہاںکی بھلائیاںپائے گا۔
(6)…زمین و آسمان اور
ان کے درمیان موجود تمام چیزوںکی
تخلیق،ان دونوںمیںہر طرح کاتَصَرُّف کرنے پر قدرت اور سمندروںمیںکشتیوںکوچلانے کے ذریعے اللہ
تعالیٰ کی قدرت و وحدانیّت پر اِستدلال کیاگیا اور یہ تمام چیزیںاللہ تعالیٰ کی صَنعت کے عظیم شاہکار
ہیں ۔
(7)…یہ بتایا گیا کہ
دنیا و آخرت میںکامیابی حاصل کرنے والے
وہ لوگ ہیںجو آخرت کے لئے عمل کریں،بے حیائی کے کاموںسے بچیں ، بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود
معاف کر دیں ، اپنے ربعَزَّوَجَلَّکے
احکامات کی پیروی کریں ، علم اور معرفت رکھنے والوںسے مشورہ کریں ،ظلم اور سرکشی کرنے والوںکو سزا دیںاور مصیبت آنے پر صبر کریںوغیرہ۔
(8)…جہنم کی
ہَولناکیاں ،اہلِ جہنم کا نقصان میںہونا،عذاب دیکھ کر دنیا کی طرف لوٹ جانے کی تمنا کرنا وغیرہ چیزیںبیان کی گئیںتاکہ سب لوگ اچانک آجانے والی قیامت سے پہلے پہلے اللہ
تعالیٰ کے احکام اور اس کی شریعت کی پیرویکرنے
لگ جائیںاور اللہ تعالیٰ کی دعوت
کوقبول کر لیں ۔
(9)…اس سورت کے آخر
میںبیان کیاگیا کہ اللہ
تعالیٰ جسے چاہے اپنی مَشِیَّت کے مطابق اولاد عطا کر دے اور جسے چاہے نہ عطا کرے،
نیز وحی کی اَقسام اور قرآنِ پاک کی عظمت و شان بیان کی گئی کہ یہ آخری آسمانی
کتاب ہے۔
سورۂحٰمٓ السَّجدہکے
ساتھ مناسبت:
سورۂ
شوریٰ کی اپنے سے ماقبل سورت ’’حٰمٓ السَّجدہ‘‘
کے ساتھ ایک مناسبت یہ ہے کہ دونوںسورتوںمیںکفار کے عقائد کے بارے میںبحث کی گئی ہے اور انہیںعذاب کی وعید سنائی گئی ہے نیز دونوںسورتوںمیںاللہ تعالیٰ کی قدرت و
وحدانیّت پر زمینی اور آسمانی دلائل بیان کئے گئے ہیں۔ دوسری مناسبت یہ ہے کہ دونوںسورتوںمیںمسلمانوںکو جنت اور اس کی نعمتوںتک پہنچانے والے دینِ حق یعنی اسلام پر
اِستقامت کے ساتھ قائم رہنے کی ترغیب دی گئی اور کفار کو جہنم کے ہَولْناک عذابات
تک پہنچانے والے عمل یعنی دین ِحق سے اِنحراف کرنے پر ڈرایا گیا ہے۔