اس سورتِ مبارکہ کی پہلی آیت میں حضور پر نورصَلَّی اللہتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو
روشن فتح کی بشارت دی گئی ، اس مناسبت سے اس سورئہ مبارکہ کانام ’’سورۂ
فتح‘‘ ہے ۔
سورۂ فتح کی
فضیلت:
حضرت عمر فاروقرَضِیَ اللہتَعَالٰیعَنْہُفرماتے
ہیں:ایک سفر کے دوران میںنے حضور پر نورصَلَّی اللہتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی
بارگاہ میںحاضر ہو کر سلام عرض کیا ،آپصَلَّی اللہتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے
ارشاد فرمایا: ’’آج رات مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے ان تمام
چیزوںسے زیادہ پیاری ہے جن پر سورج طلوع
ہوتا ہے،پھر آپ نے(اس سورت کی) یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک
ہم نے تمہارے لیے روشن فتح کافیصلہ فرمادیا۔(بخاری،
کتاب فضائل القرآن، باب فضل سورۃ الفتح، ۳ / ۴۰۶، الحدیث: ۵۰۱۲)
سورۂ فتح کے
مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میںصلحِ حدیبیہ کا واقعہ بیان کیاگیاہے اور
مسلمانوںکو یہ بشارت دیگئی ہے کہ یہ صلح مکۂ مکرمہ کی فتح کا پیش خیمہ ہے اور
اب مسلمانوںکو کفار پر مکمل غلبہ حاصل
ہونے کا وقت قریب ہے اور اس سورت میںیہ
چیزیںبیان کی گئی ہیں:
(1)…اس سورت کی ابتداء
میںفتحِ مکہ کی بشارت دی گئی اور یہ
بتایا گیا کہ اس مہم سے مسلمانوںکوعظیم
کامیابی اور جنت حاصل ہو گی اور یہ مہم ان منافقوںکے لئے اللہ تعالیٰ کے غضب
اور اس کی لعنت کا سبب بنی جنہوںنے حضور
پُر نورصَلَّیاللہتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے
بارے میںیہ بد گمانی کی کہ وہ
مسلمانوںکو موت کے منہ میںلے جارہے ہیںاور اب ان میںسے کوئی بھی زندہ بچ
کر واپس نہیںآئے گا۔
(2)…حضورِ اقدسصَلَّی اللہتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے
اوصاف بیان کئے گئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کوحاضر و ناظر ، خوشخبری
دینے والااور ڈر سنانے والا بنا کربھیجا ہے تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ پر
اورحضور پُر نورصَلَّی اللہتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان
لائیںاور نبی کریمصَلَّی اللہتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی
تعظیم وتوقیر کریں ۔
(3)…منافقوںکی صفات بیان کی گئیںاور یہ بتایا گیا کہ جو مسلمان اندھے ،لنگڑے
اور بیمار ہیںوہ اپنے اس عذر کی وجہ سے
جہاد میںشامل نہ ہو سکیںتو ان پر کوئی حرج نہیں،وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت
کرتے رہیںاللہ تعالیٰ
انہیںجنت عطا فرما دے گا۔
(4)…حدیبیہ کے مقام پر
بیعت کرنے والے صحابۂ کرامرَضِیَ اللہتَعَالٰیعَنْہُمْکو
رضائے الٰہی کی بشارت دی گئی اور مسلمانوںسے بہت سی غنیمتوںکا وعدہ فرمایا
گیا۔
(5)…حدیبیہ کے مقام پر
کفارِ مکہ سے جنگ کی بجائے صلح ہونے میںمسلمانوںپر جو اللہ
تعالیٰ کا فضل ہوا وہ بیان کیا گیا اور نبی کریمصَلَّی اللہتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے
خواب کی تصدیق اور اس کی تعبیر میںتاخیر
کی حکمت بیان کی گئی ۔
(6)…اس سورت کے آخر
میںبتایاگیا کہ حضور پُر نورصَلَّی اللہتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہدایت اور دین
ِحق کے ساتھ بھیجا گیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اسے سب دینوںپر غالب کردے اور نبی کریمصَلَّی اللہتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور ان
کے صحابۂ کرام آپس میںنرم دل جبکہ
کافروںپر سخت ہیں ،نیز نیک اعمال کرنے
والے مسلمانوںسے مغفرت اور عظیم ثواب کا
وعدہ فرمایا گیا۔
سورۂ
محمد کے ساتھ مناسبت:
سورۂ
فتح کی اپنے سے ما قبل سورت ’’سورۂ محمد‘‘ کے ساتھ ایک مناسبت یہ ہے کہ سورۂ
محمدمیںجہاد کی کیفیت بتائی گئی کہ جب
کفار سے معرکہ آرائی ہو تو انہیںقتل کیاجائے
اور جو قتل ہونے سے بچ جائیںانہیںقید کر لیا جائے اور سورۂ فتح میںاس کیفیت کا نتیجہ اور ثمرہ بیان کیا گیا کہ اس
طرح کرنے سے مدد اور فتح حاصل ہو گی ۔دوسری مناسبت یہ ہے کہ دونوںسورتوںمیںمسلمانوں ،مشرکوںاور منافقوںکی صفات بیان کی گئی ہیں ۔