سورۂ نجم مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی
ہے۔(خازن،
تفسیر سورۃ النجم، ۴ / ۱۹۰)
رکوع اورآیات کی تعداد:
اس سورت میں 3رکوع، 62آیتیں ہیں ۔
’’نَجم ‘‘نام رکھنے کی وجہ :
عربی میں ستارے کو نَجم کہتے ہیں
نیزیہ ایک مخصوص ستارے کا نام بھی ہے اور اللہ
تعالیٰ نے اس سورت کی پہلی آیت میں ’’نَجْم‘‘ کی قسم ارشاد فرمائی اسی مناسبت سے ا س کانام ’’سورۂ
نجم‘‘ رکھا گیا۔
سورۂ نَجم کے فضائل:
(1)…حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہُ فرماتے ہیں کہ سجدہ والی سورتوں میں
سب سے پہلے ’’سورۂ نجم‘‘
نازل ہوئی ،اس کی تلاوت کر کے رسولُاللہصَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے سجدہ کیا اور جتنے لوگ بھی آپ کے
پیچھے تھے (مسلمان یا کافر) ان میں سے ایک کے علاوہ سب نے سجدہ
کیا، میں نے اس (سجدہ نہ کرنے والے) کو دیکھا کہ ا س نے اپنے ہاتھ میں مٹی
لے کر اس پر سجدہ کر لیا اور اس
(دن) کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ وہ کفر کی
حالت میں قتل ہوا پڑا تھا اور وہ امیہ بن خلف تھا۔(بخاری، کتاب التفسیر،
سورۃ النجم، باب فاسجدوا للّٰہ واعبدوا، ۳ / ۳۳۸، الحدیث: ۴۸۶۳)
(2)…علامہ محمود آلوسیرَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ علامہ احمد
بن موسیٰ المعروف ابن مَردَوَیہرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِکے حوالے سے نقل کرتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہُنے فرمایا’’سورۂ نجم،یہ وہ پہلی سورت ہے جس کا
رسولِکریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِوَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَنے اعلان فرمایا اور حرم شریف میں مشرکین کے سامنے پڑھی۔(روح
المعانی، سورۃ والنجم، ۱۴ / ۶۳)
سورۂ نَجم کے
مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس
میںاللہ تعالیٰ کی
وحدانیَّت ،نبی اکرمصَلَّی اللہ تَعَالٰیعَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی
عظمت اور قیامت کے دن مخلوق کو دوبارہ زندہ کئے جانے کے بارے میںبیان کیاگیا ہے ،نیز اس سورت میںیہ مضامین بیان کئے گئے ہیں ۔
(1)…اس سورت کی ابتداء
میںاللہ تعالیٰ نے قَسم
ارشاد فرما کر اپنے حبیبصَلَّی اللہ تَعَالٰیعَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی
عظمت و شان بیان فرمائی ۔
(2)…واقعہ ٔمعراج کا
کچھ حصہ بیان کیا گیااور معراج کو جھٹلانے والے مشرکین کا رد فرمایا گیا۔
(3)…ان بتوںکا ذکر کیا گیا جن کی مشرکین پوجا کرتے تھے اور
ان کے معبود ہونے کواور ان کی شفاعت سے متعلق کفار کے نظریّے کا رد کیا گیا، نیز
جوکفار فرشتوںکے نام عورتوںجیسے رکھتے تھے ان کا رد اور کفار کے علم کی حد
بیان فرمائی گئی۔
(4)…کبیرہ گناہوںسے بچنے والوںکی جزاء بیان کی گئی اور ریا کاری کی مذمت فرمائی گئی۔
(5)…اسلام قبول کر کے
ا س سے مُنْحَرِف ہونے والے ایک کافر کی مذمت فرمائی گئی اوراس کے بعد اللہ تعالیٰ
نے وہ مضمون بیان فرمایا جو حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکی
کتاب اور حضرت ابراہیمعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکے
صحیفوںمیںذکر فرمایا گیا تھا کہ کوئی دوسرے کے گناہ پر
پکڑا نہیںجائے گا اور آدمی اپنی ہی
نیکیوںسے فائدہ پاتا ہے۔
(6)…قیامت کے دن اعمال
دیکھے جانے اور ان کے مطابق جزاملنے کا ذکر کیا گیا اور یہ بیان فرمایا گیا کہ اللہ
تعالیٰ ہی زندگی اورموت دیتا ہے اور وہی مرنے کے بعد لوگوںکو زندہ کرے گا۔
(7)…اس سورت کے آخر
میںقومِ عاد، قومِ ثمود ،حضرت نوحعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکی قوم
اور حضرت لوطعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکی قوم
پر آنے والے عذابات کا ذکر کیا گیا تاکہ ان کا انجام سن کر کفارِ مکہ عبرت حاصل
کریںاور نبی اکرمصَلَّی اللہ
تَعَالٰیعَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو
جھٹلانے سے باز آ جائیں ۔
سورۂ
طور کے ساتھ مناسبت:
سورۂ نجم کی اپنے سے ما قبل سورت ’’طور‘‘ کے
ساتھ ایک مناسبت یہ ہے کہ سورۂ طور کے آخر میںستاروںکا ذکر ہوا اور سورۂ نجم
کی ابتداء میںبھی ستارے کا ذکر ہوا۔
دوسری مناسبت یہ ہے کہ سورۂ طور میںکفار
کایہ اعتراض ذکر کیا گیا کہ قرآنِ مجید نبی
کریمصَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَنے اپنی طرف سے
بنالیا ہے ، اور سورۂ نجم کی ابتداء میںکفار کے
اس اعتراض کا رد کیاگیا ہے ۔