سورۂ تکویر مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ
التکویر، ۴ / ۳۵۵)
رکوع اور
آیات کی تعداد:
اس سورت میں 1رکوع، 29آیتیں ہیں ۔
’’تکویر ‘‘نام رکھنے کی
وجہ :
تکویر کا معنی ہے لپیٹنا اور اس سورت کا یہ نام اس کی پہلی آیت میں مذکور لفظ’’ كُوِّرَتْ‘‘سے ماخوذ ہے۔
سورۂ
تکویر کے بارے میں حدیث :
حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،رسولِ کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَنے ارشاد
فرمایا’’ جسے یہ پسند ہو کہ وہ قیامت کے دن کو ایسا دیکھے گویا کہ وہ نظر کے سامنے
ہے تو اسے چاہیے کہ وہ سورۂ اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْاور سورۂ اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْاور سورۂ اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْپڑھے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ اذا الشمس کوّرت، ۵ / ۲۲۰، الحدیث: ۳۳۴۴)
سورۂ
تکویر کے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ا س میں قیامت کے اَحوال بیان کئے گئے ہیں اور قرآنِ مجید کے اللّٰہ تعالیٰ کا
کلام ہونے کو ثابت کیا گیا ہے،اور اس میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں ۔
(1)…اس سورت کی ابتدائی13آیات میں قیامت کے چند ہَولْناک اُمور بیان کر کے فرمایا
گیا کہ جب یہ چیزیں واقع ہوں گی تو اس وقت ہر جان کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ
کون سی نیکی یا بدی اپنے ساتھ لے کر اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر
ہوئی ہے۔
(2)…الٹے اور سیدھے چلنے والوں ،ستاروں ،رات کے آخری حصے اور صبح کی قسم کھا کر فرمایا
گیا کہ بیشک قرآنِ مجید عزت والے رسول حضرت جبرئیلعَلَیْہِ السَّلَام کا پہنچایا ہواکلام ہے ،نیز
حضر ت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کی شان بیان کی گئی۔
(3)…حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَاور قرآن مجید پر کئے گئے کفار کے اعتراضات کا جواب دیا اور یہ
بتایا گیا کہ نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَغیب کی
باتیں بتانے میں بخیل نہیں ہیں اور قرآن مجید سب جہانوں کے لئے نصیحت ہے۔
سورۂ عبس
کے ساتھ مناسبت:
سورۂ تکویر کی اپنے سے ما قبل سورت’’ عبس‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ
دونوں سورتوں میں قیامت کی ہَولْناکیاں اور شدتیں بیان کی گئی ہیں ۔