سورۂ بُروج مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ
البروج، ۴ / ۳۶۴)
رکوع اور
آیات کی تعداد:
اس سورت میں 1رکوع، 22آیتیں ہیں ۔
’’بروج ‘‘نام رکھنے کی
وجہ :
ستاروں کی منزلوں کو بُروج کہتے ہیں اور اس سورت کی پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے بُرجوں والے آسمان
کی قسم ارشاد فرمائی ہے اس مناسبت سے اسے’’ سورۂ بروج‘‘ کے نام سے مَوسوم کیا گیا
ہے۔
سورہ ٔبروج
سے متعلق دو اَحادیث:
(1)…حضرت جابر بن سمرہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں
: حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ظہر اور عصر کی نماز میں ’’وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ‘‘۔ ’’وَ السَّمَآءِ ذَاتِ
الْبُرُوْجِ‘‘ اور ان دونوں جیسی سورتیں تلاوت فرماتے تھے۔( ابو داؤد، کتاب
الصلاۃ، باب قدر القراء ۃ فی صلاۃ الظہر والعصر، ۱ / ۳۰۹، الحدیث: ۸۰۵)
(2)…حضرت ابو ہریرہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے
ہیں :حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَنے حکم
دیاکہ عشاء کی نماز میں وہ (چار) سورتیں تلاوت کی جائیں جن کے شروع میں آسمان کاذکر ہے۔( مسند امام احمد،
مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۲۱۷، الحدیث: ۸۳۴۱)
سورۂ
بُروج کے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں سابقہ امتوں کے احوال بیان کر کے حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان
کے صحابہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْکو کفار
کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں پر تسلی
دی گئی ہے اور اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں ۔
(1)…اس سورت کی ابتدائی آیات میں آسمان،قیامت کے دن،جمعہ اور عرفہ کے دن کی قسمیں
ذکر کر کے فرمایا گیا کہ کفارِ قریش بھی
اسی طرح ملعون ہیں جس طرح بھڑکتی آ گ والی
کھائی والوں پر لعنت کی گئی تھی۔
(2)…سابقہ امتوں جیسے اصحابُ الاُخْدود،فرعون اورثمود کے واقعات
بیان کئے گئے اور انہی واقعات کے ضمن میں بتایا گیا کہ جنہوں نے مسلمان مَردوں اور عورتوں کوآزمائش میں مبتلا کیا اور وہ حالت ِکفر میں مر گئے تو ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔
(3)…یہ بتایاگیا کہ اللّٰہ تعالیٰ جب کسی ظالم کی پکڑ فرماتا ہے تو اس کی پکڑ بہت شدید ہوتی ہے
اوروہ مُردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت
رکھتا ہے،توبہ کرنے والوں کو بخشنے والا
اور نیک بندوں سے محبت فرمانے والا ہے،عزت
والے عرش کا مالک اورہمیشہ جو چاہے کرنے والا ہے۔
(4)…اس سورت کے آخر میں بتایا گیا کہ کفارِ مکہ سابقہ امتوں کے انجام سے نصیحت حاصل کرنے کی بجائے نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَاور قرآنِ مجید کو جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں ،قرآن کو شاعری اور کہانَت کی کتاب کہتے ہیں حالانکہ وہ تو بہت بزرگی والا قرآن ہے اور لوحِ
محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔
سورۂ
اِنشقاق کے ساتھ مناسبت:
سورۂ بُروج کی اپنے سے ماقبل سورت ’’اِنشقاق‘‘ کے ساتھ ایک
مناسبت یہ ہے کہ دونوں سورتوں کی پہلی آیت میں آسمان کا ذکر ہے۔ دوسری مناسبت یہ ہے کہ
دونوں سورتوں میں نیک
اعمال کرنے والے مسلمانوں کے لئے جنت کی
بشارت،کافروں کے لئے جہنم کی وعید اور
قرآن مجید کی عظمت بیان کی گئی ہے۔ تیسری مناسبت یہ ہے کہ سورۂ اِنشقاق
میں بیان کیا گیا کہ نبی اکرمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَاور ان کے صحابہ ٔکرامرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُمْکے بارے میں کافروں کے
دلوں میں جو بغض و عناد ہے وہ سب اللّٰہ تعالیٰ کو معلوم ہے اور اس سورت میں بتایاگیا کہ سابقہ امتوں کے کفار کا بھی یہی طرزِ عمل تھا۔