سورۂ طارق مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے ۔( خازن، تفسیر سورۃ
الطّارق، ۴ / ۳۶۸)
رکوع اور
آیات کی تعداد:
اس سورت میں 1رکوع، 17آیتیں ہیں ۔
’’طارق ‘‘نام رکھنے کی
وجہ :
اُس ستارے کو طارق کہتے ہیں جو رات میں خوب چمکتا ہے نیز رات میں آنے والے شخص کو بھی طارق کہتے ہیں ، اور اس
سورت کی پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اس ستارے کی قسم ارشاد فرمائی ہے اس لئے
اسے ’’سورۂ طارق‘‘ کہتے ہیں۔
سورۂ طارق
سے متعلق دو اَحادیث :
(1)…حضرت
جابر بن عبداللّٰہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے
ہیں :حضرت معاذرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے مغرب
کی نماز پڑھائیتو ا س میں سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء کی تلاوت کی، (جب حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو یہ بات معلوم ہوئی) تو آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَنے
ارشاد فرمایا:اے معاذ! تم لوگوں کو فتنے
میں ڈال رہے ہو! کیا تمہیں یہ کافی نہیں ہے کہ تم (نماز میں
) ’’وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ‘‘، ’’وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا‘‘ (اور ان کی مثل اور سورتیں ) پڑھو۔( سنن الکبری للنسائی، کتاب التفسیر، سورۃ الطّارق، ۶ / ۵۱۲، الحدیث: ۱۱۶۶۴)
(2)…حضرت خالد عدوانیرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے
روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَکو قبیلہ ثقیف کے بازار میں دیکھا کہ آپ ایک لاٹھی کے سہارے کھڑے ہوئے
تھے،جب آپ ثقیف والوں کے پاس مدد طلب کرنے آئے تو میں نے انہیں ’’وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ‘‘ کی
تلاوت کرتے ہوئے سنا یہاں تک کہ آپ نے یہسورت ختم فرما لی۔میں نے اس
سورت کو دورِ جاہلیَّت میں یاد رکھا پھر
اسلام قبول کرنے کے بعد اسے پڑھا۔( مسند امام احمد،
مسند الکوفیین، حدیث خالد العدوانی رضی اللّٰہ عنہ، ۷ / ۸، الحدیث: ۱۸۹۸۰)
سورۂ طارق
کے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے،حشر و نشر اور
حساب و جزا پر ایمان لانے کے بارے میں کلام کیاگیا ہے اورا س سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں :
(1)…اس سورت کی ابتداء میں آسمان اور رات کے وقت خوب چمکنے والے ستار ے کی
قسم کھا کر یہ فرمایا گیا ہے کہ ہر انسان پر حفاظت کرنے والا ایک فرشتہ مقررہے۔
(2)…انسان کو اپنی تخلیق کی ابتداء میں غور کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ اسے معلوم ہو جائے
کہ پہلی بار پیدا کرنے والا رب تعالیٰ دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔
(3)…یہ بتایاگیا کہ جب قیامت کے دن عقائد ،اعمال اور نیتیں
ظاہر کر دی جائیں گی تو اس وقت مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کا
انکار کرنے والے کے پاس کوئی طاقت اور کوئی مددگار نہ ہوگا جو اسے اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکے۔
(4)…آسمان اور زمین کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا گیا کہ
قرآنِ مجید کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں بلکہ یہ حق اور باطل میں فیصلہ کر دینے والا کلام ہے۔
(5)…اس سورت کے آخر میں بتایا گیا کہ کفار اللّٰہ تعالیٰ کے دین کو مٹانے کے لئے طرح طرح کی چالیں چلتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ ان کے بارے میں اپنی خفیہ تدبیر فرماتا ہے جس کی انہیں خبر نہیں ۔
سورۂ بُروج
کے ساتھ مناسبت:
سورۂ طارق کی اپنے سے ما قبل سورت ’’بروج‘‘ کے ساتھ ایک مناسبت یہ
ہے کہ دونوں سورتوں کی ابتداء میں آسمان کی قسم ارشاد فرمائی گئی ۔ دوسری
مناسبت یہ ہے کہ دونوں سورتوں میں مُردوں کو دوبارہ زندہ کئے جانے پر کلام کیا گیا
ہے۔تیسری مناسبت یہ ہے کہ دونوں سورتوں میں قرآنِ مجید کو جھٹلانے والوں کا رد کرنے کے لئے قرآنِ مجید کے اوصاف بیان
کئے گئے ہیں ۔