سورۂ غاشیہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ
الغاشیۃ، ۴ / ۳۷۱)
رکوع اور
آیات کی تعداد:
اس سورت میں 1رکوع،26 آیتیں ہیں ۔
’’غاشیہ ‘‘نام رکھنے کی
وجہ :
غاشیہ کا معنی ہے چھا جانے والی چیز،اور اس کی پہلی آیت میں یہ لفظ موجود ہے اسی مناسبت سے اسے ’’سورۂ
غاشیہ‘‘ کہتے ہیں ۔
سورۂ
غاشیہ سے متعلق حدیث:
حضرت ضحاک بن قیسرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُنے حضرت نعمان بن بشیررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُ کی طرف خط لکھ کر پوچھا کہ رسولِ
کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَجمعہ کی نماز میں سورۂ جمعہ
کے ساتھ کونسی سورت کی تلاوت فرماتے تھے؟آپرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے
فرمایا:حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَجمعہ کی
نماز میں ’’هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَةِ‘‘ کی تلاوت فرماتے تھے۔( ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا،باب ما جاء فی القراء ۃ فی
الصلاۃ یوم الجمعۃ،۲ / ۲۴،الحدیث:۱۱۱۹)
سورۂ
غاشیہ کے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد بیان کئے گئے ہیں اوراس میں یہ مضامین بیان ہوئے ہیں ۔
(1)…اس کی ابتداء میں قیامت کی ہَولْناکیاں ،کفار کی بد بختی،مسلمانوں
کی خوش بختی،اہلِ جنت اور اہلِ جہنم کے
اوصاف بیان کئے گئے ہیں ۔
(2)…اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیَّت،قدرت اور علم و حکمت پر اونٹ کی تخلیق،آسمان کی بلندی،پہاڑوں کو زمین میں نَصب کرنے اورزمین کو بچھانے کے ذریعے اِستدلال
کیا گیا ہے۔
(3)…اس سورت
کے آخر میں حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَسے
فرمایا گیا کہ آپ کی ذمہ داری صرف نصیحتکر دینا ہے کسی کو مسلمان کر کے ہی چھوڑنا آپ کی ذمہ
داری نہیں اور یہ بتایاگیا کہ جو کفر کرے گا اللّٰہ تعالیٰ اسے بڑا عذاب دے گا اور قیامت کے دن
سب لوگ حساب اور جزا کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر
ہوں گے۔
سورۂ
اعلیٰ کے ساتھ مناسبت:
سورۂ غاشیہ کی اپنے سے ما قبل سورت ’’اعلیٰ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے
کہ سورۂ اعلیٰ میں مسلمانوں ، کافروں ، جنت اور جہنم کے اوصاف اِجمالی طور پر بیان ہوئے اور
سورۂ غاشیہ میں ان چیزوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔( تناسق الدّرر، سورۃ الغاشیۃ، ص۱۳۶)