چاشت کے وقت کو عربی میں ’’ضُحٰی‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کی پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے چاشت کے وقت کی
قسم ارشاد فرمائی اس مناسبت سے اسے ’’سورۂ وَ الضُّحٰى‘‘ کہتے ہیں
۔
سورۂ وَ الضُّحٰىکے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَکی
شخصیت کے بارے میں کلام کیا گیا ہے اور اس
میں یہ مضامین بیان ہوئے ہیں
(1)…اس سورت کی ابتداء میں اللّٰہ تعالیٰ نے چڑھتے دن اور رات کی قَسم ذکر کر کے نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر کئے گئے کفار کے اعتراض کا جواب دیا۔
(2)…نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَسے
فرمایا گیا کہ آپ کے لئے ہر پچھلی گھڑی پہلی سے بہتر ہے اور اللّٰہ تعالیٰ آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔
(3)…حضورِ
اَقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَکے بچپن
میں اللّٰہ تعالیٰ نے ان پر جو انعامات فرمائے وہ بیان کئے
گئے۔
(4)…اس سورت کے آخر میں یتیم پر
سختی کرنے اورسائل کو جھڑکنے سے منع کیاگیا اور اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت کا خوب چرچا کرنے کا حکم دیاگیاہے۔
سورۂ لَیل
کے ساتھ مناسبت:
سورۂ وَالضُّحٰىکی اپنے سے ما قبل سورت
’’لَیل‘‘کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ لَیل میں اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیقرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر کفار
کی طرف سے ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا اور اس سورت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَپر کفار کی
طرف سے ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا ہے۔