سورۂ علق مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سورت سب
سے پہلے نازل ہوئی اور اس کی پہلی پانچ آیتیں ’’مَا لَمْ یَعْلَمْ‘‘تک غارِ
حرا میں نازل ہوئیں ۔( خازن، تفسیر سورۃ
العلق، ۴ / ۳۹۱، جلالین، سورۃ اقرأ، ص۵۰۳)
رکوع اور
آیات کی تعداد:
اس سورت میں 1رکوع، 19آیتیں ہیں ۔
’’ علق ‘‘نام رکھنے کی
وجہ :
خون کے لوتھڑے کوعربی میں ’’علق‘‘ کہتے ہیں ،اور اس سورت کی دوسری
آیت میں یہ لفظ موجود ہے، اس کی مناسبت
سے اسے ’’سورۂ علق‘‘ کہتے ہیں ۔اس سورت کا ایک نام ’’سورۂ اِقراء ‘‘بھی ہے اور
یہ نام اس کی پہلی آیت کے شروع میں موجود
لفظ’’ اِقْرَاْ ‘‘ کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔
سورۂ علق
کے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں ابو جہل کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے اور اس میں
یہ مضامین بیان ہوئے ہیں
(1) …اس سورت کی ابتداء میں انسان کی تخلیق میں اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت بیان کی گئی کہ اسے کمزوری سے قوت کی طرف منتقل
فرمایا۔
(2) …قراء ت اور کتابت کی فضیلت بیان کی گئی ۔
(3) …یہ بتایاگیا کہ انسان اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر
ادا نہیں کرتا اور مال و دولت کی وجہ سے تکبر کرتا ہے۔
(4) …اللّٰہ تعالیٰ کی
اطاعت کرنے اور نماز پڑھنے سے روکنے والے کے بارے میں وعید بیان کی گئی۔
(5) …اس سورت کے آخر میں ابو جہل کی مذمت بیان کی گئی
اور اس کی دھمکیوں کا جواب دیاگیا اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَسے فرمایا کہ آپ ا س کی دھمکیوں کی پرواہ نہ کریں ۔
سورۂوَالتِّیْنِکے ساتھ مناسبت:
سورۂ علق کی اپنے سے ما قبل سورت’’وَالتِّیْنِ ‘‘کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ
وَالتِّیْنِمیں انسان کیتخلیق کی
صورت بیان کی گئی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اسے سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا اور اس سورت میں انسان کی تخلیق کا مادہ
بتایاگیا ہے کہ اسے خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا گیا ہے۔