اسلام اور محکوم طبقے(قسط:01)

آخر درست کیا ہے ؟

اسلام اور محکوم طبقے ( قسط : 01 )

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضان مدینہ مئی2023

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمام کائنات اور انسانوں کا خالق ہے ، وہ سب کو پیدا کرنے والا بھی ہے اور پالنے والا بھی ، وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا اور اپنے بندوں پر ہمیشہ مہربان ہے ، رحمٰن و رحیم اُس کی صفات ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں ، خدا نے انہیں سراپا رحم و کرم ، پیکر ِ شفقت و رأفت بناکر رحمۃ للعالمین کے منصب پر فائز فرمایا اور ہمارا ایمان ہے کہ دین ِ اسلام ربّ العالمین کی طرف سے رحمۃ للعالمین پر اتارا گیا یعنی تمام جہانوں کے پالنے والی ذات کی طرف سے تمام جہانوں کے لئے رحمت والی ہستی پر اتارا گیا۔ اِن بیان کردہ حقائق کا قطعی و لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رحمن و رحیم عزوجل کے رؤوف ورحیم نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل کردہ دینِ اسلام میں مخلوقِ خدا کے لئے جس قدر مہربانی اور خیر خواہی پائی جاسکتی ہے ، وہ کسی دوسرے دین ، نظام اور طریقے میں نہیں ہوسکتی۔

 انسانی معاشروں کی ہمیشہ سے مجموعی صورت حال یہ ہے کہ ان میں صلاحیت ، قابلیت ، عمر ، طاقت ، صِنف ، اَمارت ، غربت ، احوالِ زندگی اور جسمانی حالت و خدوخال کی بنیاد پر معاشرتی قدر ومنزلت میں فرق پایا جاتاہے ، جو بعض جگہ فطری ، بعض جگہ معاشرتی اور کئی جگہوں پر جبری و استبدادی ہوتا ہے لیکن بہرصورت اِس کے نتیجے میں لوگوں کی نظر میں حاکم ومحکوم ، قوی وضعیف ، افضل و ارذل ، برتر و بدتر کی تقسیم پیدا ہوجاتی ہے ، چنانچہ جوان اور بوڑھے ، مرد اور عورت ، باپ اور ماں ، بیٹا اور بیٹی ، شوہر اور بیوی ، آقا اور غلام ، امیراور غریب ، صحت منداور بیمار ، صحیح البدن اور اپاہج و معذور ، طاقتور اور کمزور ، زبردست اور زیردست ان سب کا آپس میں تقابل کریں تو باہمی فرق و امتیاز والا موجودہ معاشرہ ہماری نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے ، مذکورہ بالا ہر دو طبقوں میں پہلا طبقہ غالب اور دوسرا مغلوب شمار ہوتا ہے۔ اس میں کئی جگہوں پر یہ فرق فطری ہے جس کی نفی کرنا ممکن نہیں جیسے مرد میں جسمانی طاقت عورت کے مقابلے میں زیادہ ہے ، لیکن کئی جگہ یہ امتیاز صرف تخیلاتی اور معاشرتی ناانصافی کی وجہ سے ہے لیکن دونوں صورتوں میں دینِ اسلام کا حُسن کھُل کر سامنے آتا ہے کہ ان تمام طبقات میں دینِ اسلام حاکم اور قوی کے مقابلے میں محکوم اور ضعیف کے ساتھ کھڑا ہے اور تعلیماتِ اسلامیہ کا غالب حصہ محکوم و ضعیف طبقے کے حقوق ادا کرنے کی پُرزور ترغیب ، حسنِ سلوک اور ان کی خدمت و لحاظ پر مشتمل ہے ، چنانچہ کسی بھی طرح کی حقیقی یا فطری یا معاشرتی کمی کے شکار لوگوں کے لیے قرآن و حدیث میں بار باریہ حکم دیا گیا ہے کہ اُن کے ساتھ شفقت بھرا سلوک کیا جائے ، اُن پرمہربان بن کررہیں ، اُنہیں ستایا نہ جائے ، اُن پر ظلم نہ کیا جائے ، اُن کے حقوق پامال نہ کئے جائیں ، اُنہیں عزت دی جائے ، معاشی اعتبار سے اُن کا مکمل خیال رکھا جائے ، اُن کی عزتِ نفس مجروح نہ کی جائے اور اُن پر کسی قسم کا اِحسان نہ جتلایاجائے۔

اس تمہیدو مقدمے کو قرآنی ہدایات اور نبوی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنے اور ہر طبقے کے متعلق اسلامی احکام جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

پہلا طبقہ ، بوڑھے حضرات :

جب انسان زندگی کے مراحل طے کرتاہوا بڑھاپے کو پہنچتا ہے ، تواگر وہ پیسے والا نہ ہو تو عموماً لوگ اُس سے نظریں پھیرنے لگتے ہیں بلکہ دنیا میں خود کو زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ سمجھنے والے ممالک کے لوگ توجان چھڑانے کے لئے بوڑھوں کو گھر سے نکال کر کسی’’ بُڈھا گھر یعنی اولڈ ہوم ‘ ‘میں بھیج دیتے ہیں ، حالانکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے ، جب بوڑھے شخص کو آرام ، سکون ، خدمت ، محبت اور دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس ظالمانہ رویے کے مقابلے میں اسلام اِسی کمزور بوڑھے کے ساتھ کھڑا ہوتا اور اس کی حمایت کرتاہے چنانچہ قرآن میں بوڑھے والدین کی خدمت و عزت کے متعلق فرمایا : اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو ، اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت ، نرم بات کہنا۔ اور ان کے لیے نرم دلی سے عاجزی کا بازو جھکا کر رکھ اور دعا کر کہ اے میرے رب ! تو ان دونوں پر رحم فرما جیسا ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا۔  ( پ 15 ، بنی اسرآءیل : 23 ، 24 )  بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے والا فرد والدین میں سے ہو یا رشتے داروں میں سے یا بالکل اجنبی ، بیگانہ ہو ، بہرحال اس کی عزت کرنے کا حکم دیا ، چنانچہ نبی ِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا ، اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے۔ ( ابو داؤد ، 4 / 344 ، حدیث : 4843 ) اسی عزت و تعظیم کی ایک صورت یہ بیان فرمائی کہ راہ چلتے کوئی ضعیف اور بزرگ نظر آئے تو بچوں اور جوانوں کو حکم ہے کہ بزرگ آدمی کو سلام کہنے میں پہل کریں کیونکہ کسی کو آگے بڑھ کر سلام کرنا اس کی عزت شمار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ حضورِ اکرم الاولین والآخرین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بچہ بڑے کو سلام کرے۔  ( بخاری ، 4 / 166 ، حدیث : 6231 )  کسی بوڑھے شخص کی عزت و احترام پر بشارت دیتے ہوئے فرمایا : جو جوان کسی بوڑھے کی اس کی عمر کی وجہ سے عزت کرے ، تو اللہ پاک اُس کے بڑھاپے کے وقت ایسے شخص کو قائم فرما دے گا ، جو اُس کی عزت کرے گا۔ ( ترمذی ، 3 / 412 ، حدیث : 2029 )

یہ تعلیمات اِس بات کی دلیل ہیں کہ اسلام اِس کمزور و محکوم کے ساتھ ہے اور ان کے لئے سہارا ہے۔

دوسرا طبقہ ، بچے

فطری طور پر بچے بڑوں کے مقابلے میں کمزور اور حاجت مند ہوتے ہیں اور بڑوں کا اُن پر حکم چلتا ہے لیکن دینِ اسلام بچوں کی اِسی کمزوری میں اُنہیں قوت دیتا ہے اوربچے اپنے ہوں یا بیگانے ، سب کے ساتھ شفقت ، محبت اور رحم دلی کی مسلسل تاکید فرماتا ہے۔ اگر ذخیرہِ احادیث اور سیرتِ نبوی کا مطالعہ کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار کی جاسکتی ہے۔ بچوں کے متعلق اسلام کی تمام تعلیمات کا مطالعہ کریں تو یہ دلچسپ حقیقت عَیاں ہوگی کہ ہمیں جوانوں کے ساتھ خیرخواہی و حسن سلوک سے زیادہ چھوٹے بچوں ، بچیوں کے ساتھ خوشگوار اور محبت بھرا رویہ رکھنے کی تلقین ہے۔رحیم و کریم نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اپنی سیرت و سنت بھی یہی تھی ، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ میں نے سفر وحضر میں تقریباً دس سال ، رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت کی ہے ، لیکن آپ نےکبھی بھی میرے کسی کام سے متعلق یوں نہ فرمایا کہ یہ ایسے کیوں کیا ہے ؟ یا پھر کوئی کام نہ کیا ہوتا ، تو یوں نہ فرمایا کہ یہ کام ایسےکیوں نہیں کیا ؟  ( بخاری ، 2 / 243 ، حدیث : 2768 )  اسی طرح حدیث ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے شہزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کو اٹھاتے ، بوسہ دیتے اور سونگھتے۔ ( بخاری ، 4 / 99 )  اِسی طرح آپ کی حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا سے محبت کا نرالہ انداز کچھ یوں تھا ، المستدرک للحاکم میں ہے : نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا سے ملاقات فرماتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے ، تو سب سے پہلے سیدہ ، خاتونِ جنت  رضی اللہ عنہا سے ملاقات فرماتے۔ ( مستدرک للحاکم ، 4 / 141 ، حدیث : 4792 )  اور رحمت و شفقت کا یہ اسوہ حسنہ صرف اپنے بچوں کے ساتھ ہی نہیں تھا ، بلکہ رسول ِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دوسروں کے چھوٹوں بچوں سے بھی اسی طرح شفقت آمیز سلوک فرماتے تھے ، چنانچہ ”مسند احمد“ میں حضرت عبداللہ بن جعفر  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ہماری والدہ  ( سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں ) آئیں اور ہماری یتیمی کا ذکر کیا ، تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ان کی محتاجی کا آپ کو اندیشہ ہے ! حالانکہ دنیا و آخرت میں ، میں ان کا والی ہوں۔ ( مسند احمد ، 3 / 279 ، حدیث : 1750 )  اور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بچّوں پر شفقت کے متعلق عام تعلیم دیتے ہوئے نہایت سختی کے ساتھ فرمایا : ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اَور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔“  ( ترمذی ، 3 / 369 ، حدیث : 1928 )             ( جاری ہے۔ )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code