اسلام اور تعلیم(پانچویں اور آخری قسط)

اسلام کا نظام

اسلام اور تعلیم(پانچویں اور آخری قسط)

*مولانا عبدالعزیز عطاری

ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2024ء

 (13)ہنر مند افراد پیدا کیجیے

ایک بہترین اور اچھے معاشرے کے لئے ہنر مند افراد کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں ، بے روزگاری کا خاتمہ ہو، تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں عام ہوں، نئی نئی ایجادات معرضِ وجود میں آئیں، درآمدات اور برآمدات میں اضافہ ہو، معیشت مضبوط ہو، ہر خاندان خود کفیل ہو اور معاشرہ خوشحال ہو جائے۔

ہنر کی پذیرائی: رسولِ كريم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: نیک مردوں کا کام کپڑے سینا اور نیک عورتوں کا کام سوت کاتنا ہے۔([1])

(14)اہلِ فن سے رجوع اور کسی ایک فن میں مہارت

ہر شخص اپنی زندگی میں مختلف قسم کے علوم و فنون سیکھتا ہے لیکن اس کا قلبی رجحان اور دلچسپی کسی ایک کی طرف ہوتی ہے لہٰذا  اس کو اسی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اس فن میں  ماہر  ہو   جا ئے  اور لوگوں کی اس میں راہنمائی  کر سکے، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: جو شخص قراٰنِ مجید کے بارے میں پوچھنا چاہے تو وہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہُ عنہ سے، جو فرائض کے بارے میں پوچھنا چاہے وہ حضرت زید بن ثابت سے اور جو فقہ کے بارے میں پوچھنا چاہے تو وہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہُ عنہم سے اور جو مال کے لین دین کے بارے میں پوچھنا چاہے وہ میرے پاس آئے۔([2])

(15)علم کے حصول اور پختگی میں معاون انداز

سوال کرنے کا طریقہ کار: حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ فرماتےہیں کہ جب ہم رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کسی چیز کے متعلق سوال کرنا چاہتے تو حضرت علی،حضرت سلمان یا حضرت ثابت بن معاذ رضی اللہُ عنہم کو کہتے کیونکہ یہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوال کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔([3])

سبق یاد کرنے کا طریقہ: حضرت علقمہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں حدیث کاتکرار کرتے رہا کرو کیونکہ اس کی بقا تکرار کرنے ہی میں ہے۔([4])

سبق کے نوٹس بھی بنانے چاہیئں: حضرت سیدنا زید بن ثابت رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس چمڑے پر قراٰنِ مجید لکھتے تھے۔([5])

(16)فکرِ معاش سے آزاد رہ کر حصولِ علم

حصولِ علم کے لئے بہترین شخص: زیادہ بہتر انداز سےوہ شخص علم حاصل کرسکتا ہے جسے علم حاصل کرنے کا شو ق ہو اور   وہ گھریلو و معاشی ذمہ داریوں سے آزاد ہو کر یکسوئی کے ساتھ علم حاصل کرے ۔ ورنہ جو شخص ذمہ داریوں اور فکر ِ معاش کے مسائل کو حل کرنے میں لگا رہتا ہے تو اس کی تعلیم میں حرج لازم آتا ہے اور دوسرے اس پر فوقیت لے جاتے ہیں چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہفرماتے ہیں لوگ کہتے ہیں کیا وجہ ہے کہ مہاجرین اور انصار حضرت ابوہریرہ کی طرح کثرت سے حدیثیں بیان نہیں کرتے؟میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ ہمارے مہاجر بھائی بازاروں میں اپنے کاروبار میں لگے رہتے اور انصاری بھائی اپنی زمین کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے،  میں محتاج آدمی تھا میرا سارا وقت نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں گزرتا جس وقت یہ موجود نہ ہوتے میں موجو د ہوتا اور جن چیزوں کو وہ بھلا دیتے میں محفوظ کرلیتا۔  ایک دن رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص اپنا کپڑا بچھا دے گا وہ مجھ سے سنی ہوئی حدیث کو کبھی نہیں بھولے گا۔ میں نے اپنا کپڑا بچھا دیا حتّٰی کہ آپ نے اپنی حدیث پوری کرلی، پھر میں نے اس کپڑے کو اپنے ساتھ چمٹا لیا، اس کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے  سنی ہوئی بات کو کبھی نہیں بھولا۔([6])

(17)اشاعتِ علم کے لئے  تصنیفی خدمات

علم کو عام کرنے اور دوام بخشنے کا ایک بہترین ذریعہ تصنیف بھی ہے کہ کتاب کے ذریعے علم رہتی دنیا تک محفوظ ہو جاتا ہے، کتاب دنیا کے مختلف خطوں میں پھیل جاتی ہے، لوگوں کی رسائی علم تک آسان ہو جاتی ہے، مصنف کے جانے کے بعد بھی اُس کی خدمات باقی رہتی ہیں، لوگ اِس سے مستفید ہوتے رہتے ہیں، کتاب مزید تحقیقات کے لئے معاون ثابت ہوتی ہے چنانچہ اسلام میں سب سے پہلے حضرت ابن جریج رحمۃُ اللہِ علیہ کی کتاب مکۂ مکرمہ میں تصنیف ہوئی پھر یمن میں حضرت معمر بن راشد صنعانی رحمۃُ اللہِ علیہ کی کتاب تصنیف ہوئی پھر مدینۂ طیبہ میں حضر ت امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ کی مُوَطّأ تصنیف ہوئی پھر حضرت سفیان ثوری رحمۃُ اللہِ علیہ کی کتاب جامع تصنیف ہوئی۔([7])

(18)مسائلِ عوام کی راہنمائی کا اہتمام

علم کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کے مسائل اور معاملات میں ان کی شرعی راہنمائی کی جائے اور ان کے درپیش مسائل کو شرعی تقاضوں کے مطابق حل کیا جائے جس کے لئے دارُ الافتاء قائم کیا جائے اور اس میں  بہترین مفتیانِ کرام کا انتخاب کیا جائے چنانچہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق، حضرت سیدنا عمر فاروق، حضرت سیدنا عثمان غنی، حضرت سیدنا علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہم حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیاتِ طیبہ میں فتویٰ دیا کرتے تھے۔([8])

اللہ کریم ہمیں علمِ دین حاصل کرنے، اس پر عمل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])تاریخ ابن عساکر،36/199

([2])کنز العمال،2/237،حدیث: 11634 ملخصاً

([3])الاصابۃ،1/535

([4])دارمی،1/156،حدیث: 603

([5])شعب الایمان، 2/432، حدیث: 2311

([6])دیکھئے:مسلم،ص 1040،حدیث: 6399

([7])احیاء العلوم،1/ 112 ملخصاً

([8])تاریخ الخلفاء، ص39۔


Share

Articles

Comments


Security Code