
اپنے بزرگوں کو یاد رکھئے
*مولانا ابوماجد محمد شاہد عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025
شعبانُ المعظم اسلامی سال کا آٹھواں مہینا ہے۔ اس میں جن صحابۂ کرام، اَولیائے عظام اور علمائے اسلام کا وصال یا عرس ہے، ان میں سے100کا مختصر ذکر ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ شعبانُ المعظم 1438ھ تا 1445ھ کے شماروں میں کیا جاچکا ہے مزید11کا تعارف ملاحظہ فرمائیے:
صَحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان:
٭شہدائے جنگِ جِسر: حضرت ابوعبید بن مسعود ثقفی رضی اللہُ عنہ کی کمانڈ میں شعبان13ھ کو مسلمانوں اور کفار کے درمیان قس الناطف کے مقام پر جنگ ہوئی، اس میں چار ہزار مسلمان شہید ہوئے، اس جنگ میں مسلمان دریائے فرات کے مغربی علاقے مروحہ سے ایک پُل (جسر) کے ذریعے مشرقی علاقے قس الناطف گئے تھے، اس لئے اس کو جنگِ جِسر، جنگِ قس الناطف اور جنگِ مروحہ بھی کہتے ہیں۔ ([1])
(1)حُجرالخیر حضرت حُجر بن عدی کندی رضی اللہُ عنہ صحابی، راویِ حدیث، فاضلِ کوفہ، مستجابُ الدعوات، مجاہد اور نیک و پارسا شخصیت کے مالک تھے، جنگِ قادسیہ، جَمل و صفین میں شرکت کی، شعبان 51ھ میں شام کے مقام مرج عذراء (موجودہ نام عدرا، صوبہ ریف دمشق) میں شہید کئے گئے۔([2])
اولیائے کرام رحمہم اللہ السَّلام:
(2)شیخ شطا دمیاطی رحمۃُ اللہِ علیہ شطا تابعی کے نام سے مشہور ہیں، یہ حاکم دمیاط ہاموک/بامرک کے بیٹے تھے، انہوں نے صحابیِ رسول حضرت عُمیر بن وہب جمحی قریشی رضی اللہُ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور ان کے ساتھ مل کر جہاد میں مصروف ہوگئے، ان کی شہادت 15شعبان 21ھ کو ہوئی، دمیاط سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر دفن کئے گئے۔ بعد میں مسجد و مزار کی تعمیر ہوئی۔ ہر سال ان کا عرس 15شعبان کو منعقد ہوتا ہے۔([3])
(3)امام حبیب احمد بن زین حبشی علوی رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش 1069ھ کو غرفہ، حضرموت، یمن میں ہوئی اور 19شعبان 1144ھ کو وصال فرمایا، حوطہ احمد بن زین، یمن میں مزار ایک گنبد میں زیارت گاہِ عام ہے۔ آپ حافظِ قراٰن، عالمِ باعمل، عارف بِاللہ، ولیِ کامل، داعیِ کبیر، مصنفِ کتبِ کثیرہ، استاذُ العلماء، امام و فقیہ، مقام صدیق الکبریٰ پر فائز اور یمن کے اکابر علما و مشائخ سے تھے۔ 17مساجد تعمیر کرنے کی وجہ سے ابوالمساجد کہلائے۔ 18کتب میں الرسالۃ الجامعۃ کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔([4])
(4)خواجہ سید لعل شاہ ہمدانی رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش دندہ شاہ بلاول ضلع اٹک میں ہوئی، خواجہ احمد دین انگوی سے علوم و فنون میں مہارت حاصل کی، بیعت کا شرف خواجہ دوست محمد قندھاری (بانی خانقاہ موسیٰ زئی، ڈیرہ اسماعیل خان) اور خلافت خواجہ محمد عثمان دامانی سے حاصل ہوئی، آپ عالمِ باعمل اور باکرامت ولیِ کامل تھے۔ آپ کا وصال 7شعبان1313ھ کو ہوا، مزار جائے پیدائش میں ہے۔([5])
(5)مستفتیِ اعلیٰ حضرت، نعمت الاولیاء حضرت شاہ نعمت علی خاکی بابا رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 1287ھ کو موضع ددری ضلع سیتامڑھی، بہار ہند میں ہوئی، آپ پابندِ شریعت، سچے مجذوب، متصلب سنی، صاحبِ کرامت اور مرجع علماء و عوام تھے، آپ کا وصال 13شعبان1350ھ کو نمازِ فجر کے آخری سجدے میں ہوا۔ مزار بناٹولہ، اسلام پور، منہار، بہار، ہند میں ہے۔ ([6])
علمائے اسلام رحمہم اللہ السَّلام:
(6)امام علی بن حسن بن شقیق عَبدی بصری مَروزی رحمۃُ اللہِ علیہ امام سفیان بن عیینہ اور امام عبداللہ بن مبارک جیسے اکابرین کے شاگرد، محدثِ کبیر، امام احمد بن حنبل اور امام بخاری کے شیخ ہیں۔ آپ نے78سال کی عمر پا کر ماہِ شعبان سن 211 یا 212ھ میں مقامِ مَرْو میں وصال فرمایا۔([7])
(7)امام مکی بن ابراہیم تمیمی حنظلی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 126ھ میں ہوئی، آپ امام جعفر صادق اور امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہما کے شاگرد، جید عالمِ دین، حدیث کے امام اور مشائخ امام بخاری سے تھے، آپ نے 60 حج کئے، 10سال بیتُ اللہ میں خدمت کرکے گزارے اور 17تابعین سے حدیث سُن کر لکھی، آپ کا وصال شعبان 216ھ میں بلخ، ایران میں ہوا۔([8])
(8)حافظُ الحدیث امام عبدان حافظ عبدُاللہ بن عثمان بن جَبَلہ ازدی رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش 140ھ کے بعد ہوئی اور آپ نے 76سال کی عمر پاکر شعبانُ المعظم221ھ میں وصال فرمایا۔ آپ امامُ الحدیث، مرجع محدثین، استاذُالعلماء اور جذبۂ غمگساری سے مالامال تھے، آپ امام بخاری کے مشائخ میں سے ہیں۔([9])
(9)شیخُ المشرق، سیّدُ الحفاظ امام اسحاق بن رَاہُویَہ حنظلی مروزی رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش161ھ میں ہوئی اور 15شعبان 238ھ کو نیشاپور،ایران میں وصال فرمایا۔ آپ نے حصولِ علمِ حدیث کے لئے عراق، حجازِ مقدس، یمن اور شام کا سفر کیا، واپس جاکر نیشاپور میں اشاعت میں مصروف رہے۔ امام بخاری نے آپ سے احادیث سماعت کرنے کا شرف پایا۔ کتاب مسندِ اسحاق بن راہویہ آپ کی پہچان ہے۔([10])
(10)شیخُ القراء عبد الخالق منوفی ازہری ثم دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 22 ذوالحجہ 959ھ کو مصر میں ہوئی اور 27شعبان 1078ھ کو ہند میں وفات پائی، مزار مبارک احمد آباد گجرات ہند میں ہے، آپ فاضل جامعۃُ الازہر قاہرہ، جید حافظِ قراٰن، بہترین قاری اور دیگر علوم کے ساتھ فنِ قراءت پر عبور حاصل تھا۔ علمائے ہند نے آپ سے سندِ قراءت حاصل کی۔([11])
(11)مفتی اعظم شاہ محمد مظہراللہ دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ نسباً فاروقی، مسلکاً حنفی اور مشرباً نقشبندی تھے، آپ کی پیدائش 1303ھ کو دہلی میں ہوئی اور یہیں 14شعبان1386ھ کو وصال فرمایا، مزار درگاہ میراں شاہ نانو، وسط صحن مسجد فتحپوری دہلی میں ہے، آپ ماہر علوم اسلامیہ، وسیع المطالعہ، مفتیِ اسلام، صاحبِ تصانیف، متبعِ سنّت، خلیفہ شاہ رکنُ الدین الوری اور شیخِ طریقت تھے۔ کتب میں تفسیر مظہر القرآن اور مظہر الفتاویٰ مشہورہیں۔([12])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکن مرکزی مجلسِ شوریٰ(دعوتِ اسلامی)
Comments