اجسامِ انبیاء کی برکات وحیات

اشعار کی تشریح

اجسامِ انبیاء کی برکات وحیات

مولانا راشد علی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2023

پاؤں جس خاک پہ رکھ دیں وہ بھی

رُوح ہے پاک ہے نُورانی ہے

اَلفاظ و معانی خاک : مٹی ، غُبار۔نُورانی : نور والا ، منوَّر ، پُر نور۔

شرح اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ نے اِس شعر میں بڑی ایمان اَفروز بات ذکر فرمائی ہے کہ حَیاتِ جاوید  ( ہمیشہ کی زندگی )  پانے والےاللہ پاک کے سچے نبیوں کی تو یہ شان ہے کہ یہ حضرات زمین کی جس خاک پر اپنا برکت والا نُورانی قدم رکھ دیں تووہ خاک بھی شفابخش ، اِنتہائی پاکیزہ اور نُور والی ہوجاتی ہے۔ پھر اُس مبارَک خاک کے تابندہ اور منوَّر ذرّے آسمان کے تاروں اور کہکشاں کے لئے قابلِ رشک ہوجاتے ہیں۔

اُس کی اَزواج کو جائز ہے نِکاح

اُس کا تَرْکَہ بٹے جو فانی ہے

الفاظ و معانی اَزواج : منکوحہ عورتیں ، بیویاں۔ تَرکہ : وفات پانے والے کا چھوڑا ہوا مال و متاع۔ بٹے : تقسیم ہو۔ فانی : مٹنے اور نابُوْد ہونے والا ، فنا ہوجانے والا۔

شرح مجدِّدِ اعظم ، مفکرِ اسلام امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کا یہ شعر درحقیقت عقیدۂ حیاتُ الانبیاء کے دو دلائل کا خُلاصہ ہے۔ اَنبیاء کی حَیات پر دو انتہائی واضح دلائل یہ ہیں کہ  ( 1 ) دُنیا سے ظاہری پَردہ فرمانے کے بعد بھی انبیاء کی مقدَّس بیویاں کسی دوسرے سے نکاح نہیں کر سکتیں اور ( 2 )  نہ ہی اَنبیائے کرام کے دُنیا سے پَردہ فرمانے کے بعد ان کا مال و متاع وراثت بن کرتقسیم ہوسکتاہے۔ اگر کوئی سُوال کرنے والا پوچھے کہ نبیوں کے حق میں ایسا کیوں ہے ؟ تو جواب یہی دیاجائے گا کہ دُنیا سے جانے والے اُس شخص کی بیویوں کو کسی دوسرے سے نکاح کرنا جائز ہوتا ہے اور اُس کا مال وارثوں میں ترکہ بن کر تقسیم ہوتا ہے ، جو عالَمِ دنیا میں فنا ہوچکا ہو ، اُس پر مُردوں والے احکامِ شرعیہ جاری ہوچکے ہوں۔ جبکہ اَنبیائے کرام کا معاملہ ایسا نہیں ہوتا وہ فانی نہیں ہوتے ، بلکہ وعدۂ الٰہی کی تصدیق کے لئے ایک لمحہ وفات طاری ہونے کے بعد پھر ہمیشہ کے لئے وہ حضرات حقیقی ، جسمانی ، حِسّی اور دُنیوی حیات کے ساتھ زندہ و باقی رہتے ہیں۔

یہ ہیں حَیِّ اَبدی ان کو رضاؔ

صِدقِ وعدہ کی قَضامانی ہے

اَلفاظ و معانی حَیِّ اَبدی : ہمیشہ زندہ رہنے والا۔ صِدقِ وعدہ : وعدے کا سچا ہونا ، وعدے کا پُورا ہونا۔ قضا : وفات ، اَجل ، موت۔

شرح یہ انبیائے کرام ہمیشہ باقی رہنے والی حیات کے ساتھ زندہ ہیں۔ ہاں اے اَحمد رضا ! عقیدۂ حیاتِ انبیاء کے منکرین کو بتا دو کہ ہمارا یہ نظریہ نہیں ہے کہ نبیوں کی بارگاہوں میں موت بالکل بھی حاضری نہیں دیتی بلکہ اللہ حَیّ وقَیوم عزوجل کے وعدۂ ” كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-[1] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  کے پورا اور سچا ہونے کے لئے ایک لمحے کی وفات ہم اَنبیائے کرام کے لئےمانتے ہیں۔

عقیدۂ حیاتِ اَنبیاء شیخِ محقّق شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہاشعۃ اللمعات “ میں تحریر فرماتے ہیں : پیغمبرِ خُدا زندہ اَسْتْ بحقیقتِ حیاتِ دُنیاوی یعنی اللہ پاک کے نبی دُنیوی زندگی کی حقیقت کے ساتھ زندہ ہیں۔

(  اشعۃ اللمعات ، 1/615 )



[1] ترجمۂ کنز الایمان : ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ ( پ17 ، الانبیآء : 35 )


Share

Articles

Comments


Security Code