
اسلاف کے قلم
مؤمن کا نصب العین
صدرالافاضل مفتی نعیم الدین مرادآبادی رحمۃُ اللہِ علیہ
عظیم مفسرِ قراٰن، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل حضرت مفتی سیّد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ ایک حاذق مفتی، دور اندیش عالم اور صاحبِ حکمت ہستی تھے، آپ کے مقالات آپ کے ان اوصافِ جلیلہ کےبین ثبوت ہیں، آپ نے دینِ اسلام کی اہمیت و عظمت پر ایک بڑا ہی پُر مغز کالم تحریر فرمایا ہے، کالم کی اہمیت کے پیشِ نظر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین کے لئے شاملِ اشاعت کیا جاتاہے:
دنیا کے دل فریب مناظر اور حیرت انگیز طلسم اربابِ عقل و خرد کو حیران و سرگرداں کر ڈالتے ہیں۔ گزرگاہِ عالم سے گزرنے والا ہر نفس جب چمنستانِ عالم کی تازگی و طراوت اور عجائب و غرائب کو دیکھتا ہے، تو وہ سرشار ہوکر اسی کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ یہاں کی ہر چیز اس پر جادو سے زیادہ اثر کرتی ہے۔ اُمید اور حرص کے دام (جال)میں پھنس کر اپنے آپ کو بے قابو بنا دیتا ہے۔ اس کا ورود (آنا)دنیا میں کسی طرح ہوا ہو خواہ بادشاہ کے گھر اس کی ولادت میسر آئی ہو اور وہ خاندانِ سلطنت کا چشم و چراغ بنا ہو، یا گدائے بے نوا (فقیر) کے جھونپڑے میں پیدا ہوا ہو، اور ابتدا ہی سے بھوک اور دوسری تکالیف میں مبتلا رہا ہو۔ مصائب و آلام کے ہجوم میں اس نے عمر کا بڑا حصہ گزارا ہو، مگر دنیا کا عشق اس درجہ مسلط ہوتا ہے کہ وہ ان تمام تکالیف کو گوارا کرتا ہے مگر دنیا کو ترک کرنا گوارا نہیں کرتا۔ موت کا لفظ بھی اسے شاق گزرتا ہے۔ یہ دیکھ کر بھی کہ دنیا میں لاکھوں ہی تاج و تخت کے مالک ہوئے، مگر انجام سب کا دنیا کی تمام نعمتوں کو چھوڑ کر غربت و تنہائی کا سفر ہوا۔ دولت دنیا کی بے وفائی اس کو دنیا کی طرف سے سیر اور افسردہ خاطر نہیں کرتی اور تمام عمر اسی کی تحصیل و جستجو میں صرف کر ڈالتا ہے اور اپنی زندگی کے قابلِ قدر سرمایہ کو اس غدار(دنیا) پر قربان کر جاتا ہے۔ دنیا کے ساتھ عشق و وارفتگی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے مقصدِ حیات کو عمر بھر فراموش کیے رہتا ہے اورکبھی اس طرف نظر نہیں ڈالتا کہ وہ خود کس کام کی چیز ہے اور اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ دنیا کی کتنی حقیقت ہے اور اس کے ساتھ کتنا تعلق رکھنا مناسب ہے۔ اسی نا پائیدار دنیا کی محبت میں اندھا ہو کر عزیزوں قریبوں سے جنگ کرتا ہے۔ ابنائے جنس(ہم قبیلہ افراد) کے خون بہاتا ہے۔ زمین کے ایک قطعہ (ٹکڑے) پر لڑ مرتا ہے۔ فوج کشی ہوتی ہے۔ زمین انسانی خونوں سے گل رنگ(سرخ) بنا دی جاتی ہے جو اس زمین پر قبضہ کرنے کی نیت سے شجاعت و بسالت (بہادری) کے جوہر دکھاتا ہے اور خود اسی کا پیوند خاک ہو جاتا ہے۔ وہ زمین اس کو اپنے اندر عزت و آبرو کے ساتھ جگہ بھی نہیں دیتی مگر یہ مفتون اس کا شیداہی بنا رہتا ہے۔ انسان پر یہ بڑی مصیبت ہے اور جو عاقل دنیا میں آتا ہے اس کی زیب و زینت دیکھ کر جان باختہ ہو جاتا ہے۔ اس مہلکہ سے نجات دلانے والاکون ہے۔
اے اسلام
اے اسلام ! اے سچے دین ! اے مبارک رہنما! جان و دل تجھ پر قربان !!! تو نے حقیقت کو بے نقاب کیا تو نے باطل کے پردے چاک کیے۔ تو نے غلطی کے قعر ِعمیق (گہرے گڑھے) سے نکالا تو نے مدہوشی و بے عقلی کے قید و بند سے رہائی دی تو نے عشقِ دنیا کی قیدِ گراں سے آزاد کیا تو نے آنکھوں میں بینائی دی تو نے بتایا:
(وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۲۰))
دنیا کی زندگانی دھوکہ کی متاع ہے۔ ([1])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
تو نے انسان کے سامنے اُس کی زندگی کا مقصد پیش کیا
(وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶))
کہ جن و انسان کی خلقت عبادت کے لئے ہے۔ ([2])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
دنیا کی تمام قو میں زمین کے لئے لڑ لڑ کر زمین پر فدا ہو گئیں مگر جس کی آنکھ میں تیرا سرمہ لگا تھا، وہ دنیا کا مبتلا نہ ہوا۔ حسنِ باطل اس کو فریب نہ دے سکا۔ جھوٹی چمک دمک کے شعبدے اس پر اثر نہ کر سکے۔ تو نے زہد و تقویٰ کے درس دیے۔ تو نے ترک و انقطاع کے سبق پڑھائے۔ تو نے ریاضت و مجاہدہ کے آئین سکھائے۔ تو نے اصلاحِ نفس کے اصول قائم کیے۔ تو نے فضائل و رذائل کے حدود کو ممتاز کیا۔ تو نے حق و باطل میں تفرقے (فرق بیان) کئے جو تیری مجلس کے حاضر باش ہوئے دنیا انہیں فریب نہ دے سکی۔ تیرے شیدائیوں کا نصب العین (مقصد)رضائے الٰہی رہا۔ جو ہر خوبی کا منبع اور ہر سعادت کا سر چشمہ ہے۔
ایک مسلمان جب کسی مقصد کے لئے جنبش کرتا ہے، جس کسی کام کے لئے اُٹھتا ہے، جب کسی عمل کے لئے سرگرمی کرتا ہے، جب کسی جدو جہد کا آغاز کرنے سے پہلے دیکھ لیتا ہے کہ اس کی سعی و عمل سے اس کا مقصدِ اصلی رضائے الٰہی میسر آنے کی اُمید ہے؟ --- اگر ایسا ہو تو بحیثیت ایک فرماں بردار اسلام کے اس کام کو نہایت ذوق سے انجام دیتا ہے اور اپنے عمل کی برکت سے دنیا کو صلاح و فلاح سے معمور کر دیتا ہے اور جو عمل رضائے الٰہی کا سبب نہ ہو سکے مسلمان کو بحیثیتِ دین اس سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔ اس لئے تمام اہلِ دنیا کی زندگی بے کار ہوسکتی ہے، رائیگاں جاسکتی ہے، معرض ہلاکت وفنا میں رہتی ہے، لیکن ایک شیدائے اسلام کی زندگی کا لمحہ لمحہ کار آمد اور موجبِ برکت ہے۔ وہ کھاتا اور پیتا ہے، پہنتا اوڑھتا ہے، چلتا پھرتاہے، سلطنت و حکومت کرتا ہے، قلعے بناتا ہے، جنگ کے لئے صف آرائی کرتا ہے یا گوشۂ تنہائی میں خاموش بیٹھتا ہے، بھوکا پیاسہ رہتا ہے، غرض جو کچھ کرتا ہے رضائے الٰہی کے لئے۔ اس کی ہرسعی کا، اس کی ہر جنبش و حرکت کا مقصد وہ دائمی اور لازوال ہے جس کے دامن تک فنا کی گرد و کدورت نہیں پہنچ سکتی۔ شریعتِ طاہرہ نے اس کے لئے وہ مضبوط اصول قائم کردیے ہیں جن پر کار بند رہنے سے وہ مہالک و خطرات کا شکار نہیں ہو سکتا۔حب الدنياراس كل خطيئة دنیا کی محبت ہر بدی کا سر ہے۔([3])
یہ وہ زریں اصول ہے جس کا ملحوظ رہنا ہر خدا شناس و طالبِ رضائے حق کا اولین فرض اور جس کی مراعات انسان کو گناہوں اور بدکاریوں سے نجات دیتی ہے جو کام کرے حبِّ دنیا سے نہ ہو، رضائے مولا کے لئے ہو، ہرگز وہ کام فاسد نہ ہوگا، خراب نہ ہوگا۔ مومن کے لئے یہ ضرور ہے کہ وہ اپنا نصب العین رضائے الٰہی مقرر کرے اورفاقد البصری و البصیرت (آنکھ کی بینائی اور دل کی بصیرت سے بے بہرہ) کفار کی طرح شیدائے دنیا نہ ہوجائے۔([4])
Comments