رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰ لہٖ وسلَّم کا خادمین  کے ساتھ انداز(پہلی قسط)

انداز میرے حضور کے

 رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاخادمین کے ساتھ انداز (قسط:01)

*مولانا محمد ناصرجمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2024ء

اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان ہی نرالی ہے، آپ کی زیارت اہلِ ایمان کے دلوں کی راحت، آپ سے محبت کامل ایمان کی علامت اور آپ کی سیرت کے مطابق زندگی گزارنا کامیابی و کامرانی کی ضمانت ہے۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اپنے غلاموں کو نوازنے کی منظر کشی اِس شعر میں کتنے خوبصورت انداز میں کی گئی ہے:

آتا ہے فقیروں پہ انہیں پیار کچھ ایسا

خود بھیک دیں اور خود کہیں منگتا کابھلا ہو

 ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا خدمت گاروں کو نوازنے کا انداز بھی کیا خوب تھا، آئیے! اِس بارے میں تفصیل سے پڑھتے ہیں۔

چندخادمینِ مصطفےٰ:

(1)حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ نے دس سال اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت کی۔

(2)حضرت ا سلع بن شریک رضی اللہُ عنہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کجاوے پر سامان رکھا کرتے تھے۔

(3)حضرت ایمن بن عبید رضی اللہُ عنہ نے پاکیزگی حاصل کرنے کے برتن کی ذمہ دار ی لے رکھی تھی، جب بھی حاجت کے لئےحضور ِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لے جاتے تو یہ بارگاہ ِ رسالت میں یہ برتن پیش کردیتے۔

(4)حضرت بلال اذان دینے کے علاوہ اہل و عیال پر اخراجات کے نگران تھے۔

(5)حضرت حسان اسلمی رضی اللہُ عنہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سواری کو ہانکا کرتے تھے۔

(6)شاہِ حبشہ حضرت نجاشی رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنے بھتیجے یا بھانجے حضرت ذُو مِخْمَر رضی اللہُ عنہ کو اپنی جگہ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت کے لئے بھیجا تھا۔

(7)حضرت ربیعہ اسلمی رضی اللہُ عنہ نے اپنے ذمّے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو وُضو کا برتن پیش کرنے کی ذمّہ داری لے رکھی تھی۔

(8)جب رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قضائے عمرہ ادا کرنے کے لئے تشریف لائے تو آپ کی اونٹنی چلانے کی ذمہ داری حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہُ عنہ نے لے رکھی تھی۔

(9)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ نے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جوتے مبارک پہنانے کی ذمہ داری لے رکھی تھی۔

(10)حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہُ عنہ قراٰنِ پاک اور علمِ فرائض کے بہت زیادہ جاننے والےاور بہت بڑے شاعر تھے لیکن آپ نے اعزاز سمجھ کر دورانِ سفر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے درازگوش کو ہانکنے کی ذمہ داری لے رکھی تھی۔

(11)حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہُ عنہ نے رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے اسلحہ برداری کی ذمّہ داری لے رکھی تھی۔([1])

یہ جتنے کام اوپر ذکر کئے گئے ہیں، عام طور پر معاشرے میں اُن میں اونچ نیچ ہو جانا معمول کی بات ہےاور اِس کے نتیجے میں ردّ ِ عمل کا اظہار بھی کیا جاتا ہے لیکن قربان جائیے اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر! آپ نے اپنے خدمت گاروں کے ساتھ بے مثال شفقت و مہربانی کا برتاؤ رکھا اِس سلسلے میں کرم نواز آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کریمانہ اندا ز آپ بھی پڑھئے:

(1)خدمت کرنے والوں کو حقیر سمجھنا عام سی بات ہے مگر میرے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے انداز کے ذریعے خدمت گزاروں کو اپنے قریب رکھ کر چوٹی جتنی عظمت سے نوازا چنانچہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو مدینہ کےخدمت گاراپنے برتن لے آتےجن میں پانی ہوتا، جو بھی برتن آپ کے سامنے لایا جاتا آپ اپنا دستِ مبارک اس میں ڈبوتے، بسا اوقات ٹھنڈی صبح میں برتن لائے جاتے تو آپ (تب بھی) ان میں اپنا ہاتھ ڈبودیتے۔([2])مدینے کی کسی بھی باندی يا چھوٹی بچی کو کوئی کام ہوتا یاکسی قسم کی کوئی ضرورت پیش آتی تو وہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنے ساتھ لے جاتی۔ بلاشبہ یہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کمالِ عاجزی اور تکبر کی تمام اقسام سے براءت کی دلیل ہے۔([3])

(2)عام طور پر خدمت کرنے والوں کو بات بات پر روکنا ٹوکنا اپنا حق سمجھا جاتا ہے، زبان کے تیروں کے ساتھ ہاتھ کو ہتھیار بناکر وار کیا جاتا ہےاور اِس کا مقصد وقتاً فوقتاً اِن کو ذلیل کرنا ہوتا ہے جوذلّت و رسوائی کا سبب بنتا ہے۔ہمارے پیار ے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا انداز اِن سب عیوب سے پاک تھا، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: اللہ پاک کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نہ کسی خادم کو مارا اور نہ کبھی کسی عورت کو مارا۔([4])

 مشہور صحابی حضرت انس رضی اللہُ عنہ کو بارگاہِ رسالت میں چھوٹی عمر سےخدمت کرنے کا موقع ملا، دورانِ خدمت آپ نے جو اندازِ مصطفےٰ دیکھے اُسے آپ کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: میں نےحضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سفر و حضر میں خدمت کی، میرے کئے گئے کام کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے اِس طرح کیوں کیا؟ اور نہ میرے کسی کام کے نہ کرنے پریہ فرمایا:یہ کام اِس طرح کیوں نہیں کیا۔([5])

حضرت انس رضی اللہُ عنہ کام لینے سے متعلق اندازِ مصطفےٰ کے بارے میں فرماتے ہیں: اللہ پاک کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے، آپ نے ایک دن مجھے کسی کام سے بھیجا، میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نہیں جا ؤں گا۔جب کہ میرے دل میں یہ تھا کہ اللہ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے جس کام کا حکم فرمایا ہے میں اس کے لئے ضرور جا ؤں گا۔میں اُسےکرنے نکلاحتیٰ کہ میں اُن بچوں کے پاس سے گزرا جو بازار میں کھیل رہے تھے، پھر اچانک رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پیچھے سے میری گدی سے مجھے پکڑ لیا، میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ مسکرا رہے تھے۔آپ نے فرمایا: چھوٹے انس! کیا تم وہاں گئے تھے جہاں میں نے(جانے کے لئے)کہاتھا؟میں نے کہا:جی ہاں! اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم !میں جارہا ہوں۔([6])

(بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں۔۔۔)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])سبل الہدیٰ و الرشاد،11/414

([2])مسلم،ص977، حدیث: 6042

([3])بخاری، 4/118، حدیث:6072، عمدۃ القاری، 15/224

([4])ابو داؤد، 4/328، حدیث:4786

([5])بخاری،2/243،حدیث:2768

([6])مسلم،ص972،حدیث: 6015۔


Share

Articles

Comments


Security Code