
انداز میرے حضور کے
آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مصیبت و پریشانی میں انداز
*مولانا محمد ناصرجمال عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025
اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک زندگی میں بےشمار آزمائشیں آئیں، آپ نے ہرصورت میں اللہ پاک کی رضا پر راضی رہتے ہوئے صبرو شکر کے وہ انداز اپنائے جن کو پڑھنا اور اُن پر عمل کرنا مشکل حالات میں جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے،آئیے! اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وہ مبارک انداز پڑھتے ہیں:
دُعا کرنا:
رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بڑی سے بڑی مصیبت و پریشانی میں بھی دُعا مانگی، رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اندازِ دعا کی چند روایات ملاحظہ کیجئے:
(1)رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جب کوئی مشکل پیش آتی تو آپ فرماتے: یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ۔([1])
(2)رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مصیبت کے موقع پر یوں دعا کرتے: لَآ اِلَهَ اِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ لَآ اِلَهَ اِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ۔([2])
(3)رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سخت سے سخت آزمائش میں بھی دُعا فرمائی چنانچہ جب غزوۂ احزاب ہوا اور دشمن نے مسلمانوں کو سخت محاصرے میں لے لیا تو اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بارگاہِ الٰہی میں یوں عرض کی: اَللّٰهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ سَرِيعَ الْحِسَابِ اَللّٰهُمَّ اهْزِمِ الاَحْزَابَ اَللّٰهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُم یعنی اے کتاب نازل فرمانے، جلد حساب لینے والے اے اللہ! لشکروں کو شکست دے، اے اللہ! ان کو شکست دے دے اور ان کے قدم اکھاڑ دے۔([3])
ستمِ کفار پر بھی دعائیں دینا:
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر مصیبت و پریشانی پر ہمیشہ اللہ کریم کا شکر ادا فرماتے اور دعائیں کرتے یہاں تک کہ اگر دشمن ظلم بھی کرتا تو آپ دعائیں دیتے جیسا کہ نبوت کے دسویں سال قبیلہ ثَقِیف کو دعوتِ اسلام دینے کے لئے طائف تشریف لے گئے مگر بجائے پیغامِ حق قبول کرنے کے انہوں نے اس قدر اَذیت دی اور اوباش لڑکوں نے پتھر مارے کہ جسمِ اقدس زخمی اور نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔ اسی حالت میں واپس آتے ہوئے راستے میں پہاڑوں کے فرشتے نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی: آپ جو چاہیں حکم دیں اگر اجازت ہو تو اَخْشَبَیْن (طائف کے دو مضبوط اور اُونچے پہاڑوں) کو ان پر اُلٹ دوں؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ ”مجھے امید ہے کہ اللہ پاک ان کی پشتوں سے ایسے بندے پیدا کرے گا جو صرف خدا کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا ئیں گے۔“([4])
ہیبت ناک آواز پر اقدام:
کسی اچانک مصیبت یا پریشانی کا سامنا ہونے پر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ثابت قدم رہتے اور ایسے موقع پر پیچھے ہونے کی بجائے سب سے آگے رہتے جیساکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک رات اہلِ مدینہ نے کوئی خوفناک آواز سنی لوگ اس آواز کی طرف دوڑے تو انہوں نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آواز والی جگہ کی طرف سے واپس آتے ہوئے پایا کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان سے پہلے اس آواز کی طرف تشریف لے گئے تھے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ابوطلحہ رضی اللہُ عنہ کے گھوڑے کی ننگی پُشت پر سوار تھے، گلے میں تلوار لٹک رہی تھی اور فرمارہے تھے: ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔([5])
بروقت وسائل کا استعمال:
مصیبت میں بروقت وسائل کا استعمال کرنا بھی پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک انداز ہے جیساکہ غزوۂ اُحد کے موقع پر جب کہ بکھرے ہوئے مسلمان ابھی رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس جمع بھی نہیں ہوئے تھے کہ عبداﷲ بن قمیئہ جو قریش کے بہادروں میں بہت ہی نامور تھا۔ اس نے ناگہاں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھ لیا۔ ایک دم بجلی کی طرح صفوں کو چیرتا ہوا آیا اور تاجدارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر قاتلانہ حملہ کر دیا۔ ظالم نے پوری طاقت سے آپ کے چہرۂ انور پر تلوار ماری جس سے خود کی دو کڑیاں رُخِ انور میں چبھ گئیں۔ ایک دوسرے کافر نے آپ کے چہرۂ اقدس پر ایسا پتھر مارا کہ آپ کے دو دندانِ مبارک کو چوٹ پہنچی اور نیچے کا مقدس ہونٹ زخمی ہو گیا۔ اسی حالت میں اُبی بن خلف ملعون اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر آپ کو شہید کر دینے کے ارادے سے آگے بڑھا۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے ایک جاں نثار صحابی حضرت حارث بن صمہ رضی اللہُ عنہ سے ایک چھوٹا سا نیزہ لے کر اُبی بن خلف کی گردن پر مارا جس سے وہ تلملا گیا۔ گردن پر بہت معمولی زخم آیا اور وہ بھاگ نکلا۔([6])
قتل کے درپے دشمن کے سامنے انداز:
مصیبت کے وقت اللہ ربُّ العزت پر کامل توکل بھی پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ کا حصہ ہے، غزوۂ غطفان کے موقع پر دعثور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سر مبارک پر تلوار بلند کرکے بولا کہ بتائیے اب کون ہے جو آپ کو مجھ سے بچا لے؟ آپ نے جواب دیا کہ ”میرا اﷲ مجھ کو بچا لے گا۔“ چنانچہ جبریل علیہ السّلام دَم زدن میں زمین پر اتر پڑے اور دعثور کے سینے میں ایک ایسا گھونسہ مارا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی، رسولُ اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فوراً تلوار اٹھا لی اور فرمایا کہ بول اب تجھ کو میری تلوار سے کون بچائے گا؟ دعثور نے کانپتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا: کوئی نہیں۔ حضور رحمۃُ لِّلعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس کی بے کسی پر رحم آگیا اور آپ نے اس کا قصور معاف فرما دیا۔ دعثور اس اخلاقِ نبوت سے بے حد متأثر ہوا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور اپنی قوم میں آ کر اسلام کی تبلیغ کرنے لگا۔([7])
بخار میں رضامندی برضائے الٰہی:
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہوا اور جب میں نے آپ کو چھوا تو عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آپ کو تو بہت تیز بخار ہے! فرمایا: ہاں! مجھے تمہارے دو مَردوں کے برابر بخار ہوتا ہے۔ میں نے عرض کی: کیایہ اِس لئے کہ آپ کے لئے دُگنا ثواب ہوتا ہے؟ ارشاد فرمایا:ہاں! جب بھی کسی مسلمان کو بیماری (یا) کوئی اور تکلیف لاحق ہو تو وہ اس کے تمام گناہ جھاڑ دیتی ہے جیسے درخت اپنے پتے جھاڑ دیتا ہے۔([8])
لختِ جگرکے وصال پر صبر اور انداز:
رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے شہزادے حضرت ابراہیم رضی اللہُ عنہ کے انتقال پر اس طرح رضائے الٰہی پر رضا مندی کا اظہار فرمایا:آنکھ اشکبار اور دل غمزدہ ہے لیکن ہم نے زبان سے وہی کہنا ہے جس سے ہمارا مالک راضی ہو۔ اے ابراہیم! ہم تیری جُدائی سے یقیناً غمگین ہیں۔([9])
یہ چند روایات و واقعات ذکر کئے گئے وگرنہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیاتِ طیبہ میں مصائب و آلام کے سینکڑوں مواقع آئے لیکن آپ ہمیشہ اپنے ربُّ العزّت کی رضا پر راضی رہے۔ اللہ کریم ہمیں بھی حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ طیّبہ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments